صدقہ سے متعلق خوبصورت ترین باتیں جن کے بارے میں آپ پہلے نہیں جانتے
اگر صدقہ کرنے والا جان لے اور سمجھ لے کہ اس کا صدقہ فقیر کے ہاتھ میں جانے سے پہلے اللہ کے ہاتھ میں جاتا ہے تو یقینا دینے والے کو لذت، لینے والے سے کہیں زیادہ ہو گی.کیا آپ کو صدقہ کے فوائد معلوم ہیں؟فوائد نمبر 17، 18، 19 کو خاص توجہ سے پڑہیےگا :-تو سن لیں ! صدقہ دینے والے بهی اور جو اس کا سبب بنتے ہیں وہ بهی!!! 1. صدقہ جنت کے دروازوں میں سے ایک دروازہ ہے2. صدقہ اعمال صالحہ میں افضل عمل ہے ، اور سب سے افضل صدقہ کهانا کهلانا ہے.3. صدقہ قیامت کے دن سایہ ہو گا، اور اپنے دینے والے کو آگ سے خلاصی دلائے گا4. صدقہ اللہ جل جلالہ کے غضب کو ٹهنڈا کرتا ہے، اور قبر کی گرمی کی ٹهنڈک کا سامان ہے5. میت کے لیے بہترین ہدیہ اور سب سے زیادہ نفع بخش چیز صدقہ ہے، اور صدقہ کے ثواب کو اللہ تعالی بڑهاتے رہتے ہیں6. صدقہ مصفی ہے، نفس کی پاکی کا ذریعہ اور نیکیوں کو بڑهاتا ہے7. صدقہ قیامت کے دن صدقہ کرنے والے کے چہرے کا سرور اور تازگی کا سبب ہے8. صدقہ قیامت کی ہولناکی کے خوف سے امان ہے، اور گزرے ہوئے پر افسوس نہیں ہونے دیتا9. صدقہ گناہوں کی مغفرت کا سبب اور سیئات کا کفارہ ہے10. صدقہ خوشخبری ہے حسن خاتمہ کی، اور فرشتوں کی دعا کا سبب ہے11. صدقہ دینے والا بہترین لوگوں میں سے ہے، اور اس کا ثواب ہر اس شخص کو ملتا ہے جو اس میں کسی طور پر بهی شریک ہوں12. صدقہ دینے والے سے خیر کثیر اور بڑے اجر کا وعدہ ہے13. خرچ کرنا آدمی کو متقین کی صف میں شامل کردیتا ہے، اور صدقہ کرنے والے سے اللہ کی مخلوق محبت کرتی ہے14. صدقہ کرنا جود و کرم اور سخاوت کی علامت ہے15. صدقہ دعاوں کے قبول ہونے اور مشکلوں سے نکالنے کا ذریعہ ہے16. صدقہ بلاء(مصیبت) کو دور کرتا ہے، اور دنیا میں ستر دروازے برائی کے بند کرتا ہے17. صدقہ عمر میں اور مال میں اضافے کا سبب ہے، کامیابی اور رزق کا سبب ہے18. صدقہ علاج بهی ہے دوا بهی اور شفاء بهی19. صدقہ آگ سے جلنے، غرق ہونے، چوری اور بری موت کو روکتا ہے20. صدقہ کا اجرملتا ہے، چاہے جانوروں اور پرندوں پر ہی کیوں نہ ہو۔ حضرت ابو ذرؓ سے مروی ہے کہ رسول عربیؐ نے ارشاد فرمایا: ’’ اللہ کے لیے محبت رکھنا اور اللہ کی راہ میں بغض رکھنا بہترین اعمال میں سے ہے۔‘‘ معلوم ہوا کہ اگر انسان کسی دوسرے انسان سے محبت کرے تو اس میں اس کی ذاتی غرض شامل نہ ہو، بلکہ یہ محبت اور پسندیدگی صرف اللہ کے لیے ہو۔ اسی طرح اگر ایک انسان دوسرے انسان سے بغض یا ناراضی رکھے تو یہ بھی کسی ذاتی وجہ کی بناء پر نہ ہو بلکہ یہ بھی اللہ کی وجہ سے ہو۔ یعنی اگر انسان یہ دیکھے کہ فلاں انسان نے فلاں کام اللہ کے حکم کے خلاف کیا ہے یا فلاں کام میں اس کی نافرمانی کی ہے تو وہ اس بناء پر اس شخص سے ناراض ہو یا اس کے لیے ناپسندیدگی کا اظہار کرے۔ فی زمانہ لوگوں کا عجب چلن ہوگیا ہے۔ خود تو پیٹ بھر کر کھاتے ہیں لیکن برابر میں رہنے والے بھوکے پڑوسی کی طرف مڑ کر بھی نہیں دیکھتے۔ اس کے بچے روٹی کو ترستے ہیں اور اپنے بچے ضرورت سے زائد مال اڑاتے ہیں۔ حیرت اس بات پر ہے کہ اس بے جا اصراف پر کسی شرمندگی کا اظہار نہیں ہوتا بلکہ کھلم کھلا فخر کیا جاتا ہے۔ اپنے گھر میں تو بے تحاشا مال جمع کر رکھا ہے جسے لوگوں کو دکھا دکھا کر خوب فضول خرچ کیا جاتا ہے جب کہ دوسرے لوگ دانے دانے کو ترستے ہیں لیکن یہ طریقہ سبھی لوگوں کا نہیں ہے۔ بعض لوگ اللہ سے ڈرنے والے ہوتے ہیں وہ اپنے ساتھ ساتھ اپنے پڑوسیوں، عزیزوں اور رشتے داروں کا بھی خیال رکھتے ہیں اور اپنے دروازے ان کے لیے ہمیشہ کھلے رکھتے ہیں۔ اگر کبھی کسی ضرورت کے تحت وہ لوگ ان کے گھر آتے ہیں تو اللہ کے نیک بندے اپنے پاس آنے والوں کو اپنے لیے باعث رحمت سمجھتے ہیں اور انہیں کبھی مایوس یا خالی ہاتھ واپس نہیں لوٹاتے، بلکہ حتی المقدور ان کی مدد کرتے ہیں اور اس خواہش کے پیچھے صرف ایک ہی جذبہ کار فرما ہوتا ہے، وہ یہ کہ ان کا یہ نیک عمل بارگاہ الٰہی میں قبول ہو جائے اور انہیں کسی طرح اللہ کی رضا حاصل ہو جائے۔ اس نیک کام میں ان کی اپنی ذاتی تشہیر کا مقصد قطعاً کار فرما نہیں ہوتا اور نہ ضرورت مندوں کی دل آزاری مقصود ہوتی ہے۔ وہ تو نہایت خاموشی سے ضرورت مندوں کی مدد کرکے اپنے رب کو راضی کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ قرآن حکیم میں ارشاد ہوتا ہے: ’’ (لوگ) آپؐ سے پوچھتے ہیں کہ (اللہ کی راہ میں) کیا خرچ کریں۔ فرما دیجئے کہ جس قدر بھی مال خرچ کرو (درست ہے) مگر اس کے حق دار تمہارے ماں باپ ہیں اور قریبی رشتے دار ہیں اور یتیم ہیں اور محتاج ہیں اور مسافر ہیں اور جو نیکی بھی تم کرتے ہو، بے شک! اللہ اسے خوب جاننے والا ہے۔‘‘ (البقرہ: 215) اس آیت کریمہ میں بالکل کھل کر حکم دیا گیا ہے کہ اللہ کی راہ میں اور اس کے بندوں کی ضرورت پوری کرنے اور ان کی تکلیف دور کرنے کے لیے تمہارا جتنا جی چاہے، مال خرچ کرو، اس میں کوئی پابندی یا ممانعت نہیں ہے، لیکن اس مال کے اصل حق دار کون ہیں؟ اس کی وضاحت آگے چل کر کر دی گئی ہے۔ جب تم اپنے ماں باپ کی ضروریات پوری کر دو اور پھر بھی تمہارے پاس زائد مال ہو تو اسے بھی اللہ کی راہ میں خرچ کرو، مگر ماں باپ کے بعد باری تمہارے قریبی رشتے داروں کی ہے، ان پر خرچ کرنے کے بعد یتیموں اور محتاجوں اور مسافروں کا نمبر ہے۔ یہ سب وہ لوگ ہیں جن پر آپ اپنی حلال کی کمائی خرچ کر سکتے ہیں، مگر یاد رہے کہ ان میں پہلا حق ماں باپ کا ہے، اس طرح دوسروں کی مدد کرنے کا طریقہ بھی بتا دیا گیا اور اس کے مرحلے وار درجے بھی بتا دیے گئے کہ پہلا نمبر کس کا ہے، دوسرا کس کا اور تیسرا نمبر کس کا وغیرہ۔ پھر اس کام کو نیکی قرار دے کر قبولیت کا درجہ عطا فرما دیا گیا۔ گویا یہ طریقہ اللہ کی نظر میں پسندیدہ ہے وہ ضرور قبول ہوگا۔ اسی آیت کریمہ میں یہ بھی کہہ دیا گیا کہ تمہارا کوئی بھی عمل اللہ سے پوشیدہ نہیں ہے۔ وہ تمہارے ہر کام اور ہر عمل سے خوب واقف ہے۔ ’’ اور جو نیکی بھی تم کرتے ہو، بے شک! اللہ اسے خوب جاننے والا ہے۔‘‘ معلوم ہوا کہ انسان اس دنیا میں رہتے ہوئے جو کام بھی کرے گا، چاہے وہ کام اچھا ہو یا برا، نیکی کا ہو یا بدی کا، اللہ کو راضی کرنے کا ہو یا اسے ناراض کرنے کا، ہر کام اور ہر بات اس خالق کے علم میں ہے۔ اس سے کچھ بھی پوشیدہ نہیں ہے۔ قرآن حکیم میں ارشاد ہوتا ہے: ’’ وہی ایک اللہ آسمانوں میں بھی ہے اور زمین میں بھی۔ وہ تمہارے ظاہر اور پوشیدہ حال جانتا ہے اور جو برائی یا بھلائی تم کماتے ہو وہ اسے بھی جانتا ہے۔‘‘ ( الانعام 2:3) ہمارے بعض نادان دوست یہ کہتے ہیں کہ اس وقت قیامت کی فکر کون کرے، قیامت تو نہ جانے کب آئے گی؟ جب آئے گی تب دیکھی جائے گی، اس وقت تو دنیا کی فکر کرو۔ قیامت کے لیے ابھی سے خود کو ہلکان کرنے کی کیا ضرورت ہے؟ یہ انتہائی پستی اور گم راہی کی بات ہے۔ انسان نے خود کو اس حد تک خدا کا نافرمان بنا لیا ہے کہ وہ آخرت کی فکر کرنے کو بھی تیار نہیں ہے۔ دنیا اس کی نظر میں اس حد تک اہمیت اختیار کرگئی ہے کہ اسے اس کی چمک دمک کے سوا اور کچھ دکھائی نہیں دیتا۔ یہ سراسر گھاٹے کا سودا ہے۔ اللہ رب العزت ہمیں ایسی پست سوچ اور گھٹیا فکر سے محفوظ رکھے۔