صدارتی ایوارڈ یافتہ منوبھائی 84 برس کی عمر میں انتقال کرگئے
لاہور 19 جنوری 2018
(بیورو چیف پاکستان بشیر باجوہ نیوز وائس آف کینیڈا)
(فوٹو میں منوں بھائی کے ساتھ بشیر باجوہ، عاصم، فاہد، شہباز اور ارشد خان موجود ہیں یہ فوٹو 16 جولائی 2016 کی سنہری فوٹو ہے)
صدارتی ایوارڈ یافتہ منوبھائی 84 برس کی عمر میں انتقال کرگئے۔ان کی موت سےاردواور پنجابی زبان کا ایک عہد ختم ہوگیا۔ منو بھائی نے تقریبا 50 برس سے زائد عرصے تک ادب کی بےلوث خدمت کی۔ بہت کم لوگ یہ بات جانتے ہیں کہ وزیرآباد میں جنم لینےوالے منو بھائی کااصل نام منیراحمد قریشی تھا۔ منیر سے منو بنےکاسفر ایسا طےکیا کہ ساری زندگی منو بھائی کےنام سے جانے گئے۔
انھوں نے کیریئر کی شروعات بطور اردو مترجم کی تاہم کچھ عرصے میں ڈرامہ نویسی اور کالم نگاری کی جانب مائل ہوگئے۔ انھوں نے قومی ٹیلے ویژن کے لیے لازوال ڈرامے تحریر کئے۔ ان کی تحریروں کی کاٹ انھیں ہمیشہ ممتاز بناتی تھی۔
ان کے ڈراموں سے معاشرے کےکئے پہلو اجاگرہوتےتھے۔ انھوں نے اپنے ڈراموں کے ذریعے اصلاح کاپیغام دیا۔ پاکستان کے دیہی علاقوں کی عکاسی کرنے کا فن منو بھائی خوب جانتے تھے۔ 1982 میں ان کاڈرامہ سونا چاندی مقبولیت کی بلندی پرپہنچ گیا۔ اس ڈرامے کے کرداروں نے منو بھائی کی تحریر کاحق ادا کردیا۔ منوبھائی نے ہمیشہ ان موضوعات پر قلم اٹھایا جومعاشرے کی آنکھ سے اوجھل ہوتے تھے۔ انھوں نے جس کردار کےلیے بھی لکھا، وہ کردار امر ہوگیا۔
انھوں نے پنجابی نظم گوئی اور شاعری میں بھی اپنا نام بنایا۔ ناقدوں کے نزدیک منوبھائی کا شمار دورحاضر میں پنجابی کے معروف شعراءمیں ہوتاہے۔ انھوں نے پاکستان کے نامور روزنامے کےلیے کئی برس تک کالم بھی لکھے۔ان کے کالمز ہمیشہ مقبول اور معروف رہے۔
منوبھائی تو ادب کی میراس تھے۔انھوں نے اردوکےلیے ہمیشہ بڑھ چڑھ کرلکھا اور بھرپورلکھا۔ آنےوالےوقتوں میں ان کی تحریروں اور سوچ سے نئی نسل کچھ نہ کچھ حاصل کرسکتی ہے۔