پاکستان

صحافت کا گلو بٹ

کالم 🙁 منور علی شاہد )
تاریخ کی کتابوں میں ایک واقعہ ملتاہے جو نامور مفکرین افلاطون اور اس کے استاد ارسطو سے منسوب ہے اس کی تفصیل کچھ یوں ہے کہ ایک بار افلاطون اپنے استاد سقراط کے پاس آیا اور اس سے کہنے لگا کہ آپ کا نوکر بازار میں کھڑے ہوکر آپ کے خلاف ہرزہ سرائی کر رہا ہے۔سقراط نے مسکرا کر پوچھا کہ وہ کیا کہہ رہا تھا۔ افلاطون نے جذباتی انداز میں جواب دیا اور کہا کہ وہ آپ کے بارے میں کہہ رہاتھا کہ۔۔۔۔افلاطون کے کچھ بتانے سے پہلے ہی سقراط نے ہاتھ کے اشارے سے اسے روکا اور کہا تم مجھے وہ سب کچھ بتانے سے پہلے اس کی بات کو تین کسوٹی پر پرکھو، اس کا تجزیہ کرو ، اور اس کے بعد فیصلہ کرو کیا تمہیں مجھے وہ بات بتانی چاہیے کہ نہیں۔۔افلاطون نے کہا استاد محترم۔۔ تین کی کسوٹی کیا ہے ۔۔سقراط بولا۔کیا تمہیں یقین ہے کہ جو کچھ مجھے تم بتانے لگے ہو وہ صد فیصد سچ ہے۔۔۔۔افلاطون نے فورا انکار میں سر ہلایا۔سقراط نے ہنس کر کہا پھر یہ بات مجھے بتانے کا تمہیں اور مجھے کیا فائدہ ہوگا۔اب دوسری کسوٹی کی طرف آتے ہیں۔
مجھے تم جو یہ بات بتانے لگے ہو کیا یہ اچھی بات ہے۔۔افلاطون نے انکار میں سر ہلایا اور کہا۔۔بلکل نہیں،، یہ اچھی بات نہیں ہے۔ اس پر سقراط نے کہا کہ کیا تم سمجھتے ہو کہ تمہیں اپنے استاد کو بری بات بتانی چاہیے۔ افلاطون نے پھر انکار میں سر ہلایا۔۔۔ سقراط نے کچھ وقفہ کے بعد کہ آخری کسوٹی یہ ہے کہ جوبات تم مجھے بتانے لگے ہو کیا وہ میرے لئے فائدہ مند ہے ۔۔۔افلاطون نے سر ہلایا اور کہا کہ استاد محترم۔ یہ بات ہرگز آپ کے لئے فائدہ مند نہیں ہے۔۔ سقراط پھر ہنس پڑا اور اگر میرے لئے فائدہ مند نہیں ہے تو پھر مجھے بتانے کا کیا فائدہ۔۔ اور تمہیں بتانے کی کیا ضرورت ہے۔۔ افلاطون پریشان ہوکر دائیں بائیں دیکھنے لگا ۔
یہ ایک ایسی بات ہے جس کے اندر انداز گفتگو کے آداب اور صحافت کا اصول چھپا ہوا ہے ایک خبر بیان کرنے کا بہترین اصول سقراط نے بیان کردیا ہے ۔ مقام حیرت ہے کہ صحافت کا ایک ادنی طالب علم بھی جانتا ہے کہ اسے کونسی بات کہنی چاہیے اور کونسی نہیں ۔لیکن اگر
صحافت اور آداب گفتگو کے بارے میں اس قسم کے سنہری فلسفے سے جوشخص واقف نہیں تھااس کے نام سے پہلے ڈاکٹر لگتا ہے ، جو خود کو ایک مذہبی سکالر کہلاتا ہے، ایک دانشور کے نام سے شناخت کرواتا ہے ٹیلیویژن پر قومی و مذہبی پروگراموں کی میزبانی کے دوران ایسا تاثر دیتا ہے کہ گویا اس سے زیادہ عالم دین اور صاحب علم صحافت کی دنیا میں اور کوئی موجود نہیں ۔ قریبا دو دہائیوں سے صحافت کی دنیا میں نفرت کا پرچار کرنے والے عامر لیاقت کی خود ساختہ لیاقت کا بھانڈا اس وقت پھوٹ گیا جب اس پر ریاست کے ادارے کے طرف سے بابندیاں عائد کر دی گئیں اس سے پہلے میڈیا اور سوشل میڈیا پر اس کے طرز عمل کے بارے میں بہت کچھ لکھا جاتا رہا احتجاج بھی ہوتا رہا اور اس کی اوٹ پٹانگ حرکتوں سے بچے کھلکھلا کر ہنستے تھے اور عورتیں ڈوپٹہ منہ میں دبا کر ہنستی تھیں ایک عالم دین کا تشخص شدید مجروح ہو رہا تھا صحافت اور ایک اینکر کے وقار کی دھجیاں بکھر رہی تھیں۔ سپریم کورٹ کی ہدایات کی روشنی میں پیمرا سندھ اور اور لاہور کونسلز کے مشترکہ اجلاس جو پیمراکے ہیڈ کوارٹر اسلام آباد میں منعقد ہوا تھا میں عامر لیاقت کے خلاف شکایت کنندگان کی اپیلوں کو سنا گیا پیمیرا سندھ اور پنجاب کے مشترکہ اجلاس جو نو گھنٹے جاری رہا میں شکایت کنندگان نے کونسل کے ارکان کو عامر لیاقت کے خلاف اپنی اپنی شکایات ریکارڈ کرائیں ان میں ان میں نجم سیٹھی، طلعت حسین، شاہذیب خانزادہ ، امتیاز عالم، جبران حیدر، سول سوسائٹی کے ارکان وکلاء اور عام شہری بھی شامل تھے بینا سرور نے امریکہ سے سکائپ کے ذریعے اپنی شکایت ریکارڈ کرائی یہ اپنی طرز کاایک منفرد کیس تھاجس میں ایک سابق وفاقی وزیر مملکت مذہبی امور و ٹی وی اینکرپرسن و میزبان کے خلاف شکایات کا انبار لگا ہوا تھا انہی شکات کو سننے کے بعد پیمرا کو ایکشن لیتے ہوئے جنوری 2017عامر لیاقت حسین پرمکمل پابندی لگانی پڑی کیونکہ اب اس کے علاوہ کوئی چارہ نہ تھا۔ بکری کی ماں کب تک خیر مناتی اور بالاخر چھری کے نیچے آہی گئی اوراپنے آخری پروگرام میں وہ پاکستان کے معروف ٹی وی اینکرز کو مختلف تضحیک امیز ناموں سے مخاطب ہورہا تھا اور ان کے خلاف بے بنیاد اور منفی پروپگنڈے میں مصروف تھا جو تمام صحافتی تقاصوں اور اصولوں کے خلاف اور منافی تھا اگر اس کے خلاف جاری ہونے والے پیمرا کے سب نوٹسوں کو دیکھا جائے تو یہ کہنا غلط نہ ہوگا کہ وہ بے راہ روی اورخود نمائی کا شکارایسا انسان ہے جو دولت کے لئے کچھ بھی کرسکتا ہے۔ اس کے پروگرام ہمیشہ ہی قانون کی دھجیاں بکھیرتے رہے ہیں ایک نوٹس میں پیمرا نے اس کے ایک پروگرام انعام گھر کو 28جون سے 30جون 2016تک پیش کرنے پر پابندی لگاتے ہوئے عوام سے معافی مانگنے کو کہا تھا کہ اس میں عوامی جذبات کی توہین کی گئی تھی۔ اس سے قبل اس کو چھ جون کو بھی ایک نوٹس جاری کیا گیا تھا جس میں اس نے خودکشی کے ایک منظر کی نقل پیش کی تھی اور ان کو وارننگ دی گئی تھی کہ مذکورہ کردار قوانین کی خلاف ورزی ہے یہ امر قابل ذکر ہے کہ عامر لیاقت کے خلاف ایک پروگرام میں فوجی وردی پہننے کا بھی نوٹس لیا جا چکا ہے قواعد کے تحت فوجی وردی کو تجارتی مقاصد کے لئے نہیں استعمال کیا جا سکتا۔صحافت کا مقصد عوام کو حادثات و واقعات سے باخبر کرنا ہوتا ہے گمراہ کرنا نہیں۔
جس طرح اب بڑے بڑے ناموں کی سرعام تذلیل کرنے پر اس قدر سنجیدہ نوٹس لیا ہے کاش وہ اس وقت بھی اسی طرز کی کاروائی کرتے جب اس نے 2008 میں ایک پورا پروگرام احمدیوں کے عقائد بارے کیا جس میں شامل انتہا پسند علماء نے احمدیوں کے قتل بارے فتوی دیا جس کے چوبیس گھنٹے کے اندر اندر دو سرکردہ احمدی شخصیات کو قتل کردیا گیا تھا ۔22دسمبر2014 کو سانحہ آرمی پبلک سکول پشاور کے حوالے سے ایک پروگرام صبح پاکستان میں دو علماء کے منہ سے ایک بار پھر احمدیوں کے خلاف شرانگیز کلمات نہ صرف کہلوائے بلکہ ان کی تائید کی اور لوگوں سے بھی کروائی یہ سب کچھ آئین پاکستان اور قانون کے خلاف تھا لیکن تب بھی اس کے خلاف کوئی ایکشن نہیں لیا گیا تھا سماج کے اندر بہت زیادہ بے سکونی اور بے چینی کی ایک وجہ اداروں کی متعصبانہ رویے اور پالیسیاں بھی ہیں عامر لیاقت ایسے صحافیوں کی وجہ سے معاشرہ میں نفرت مذہبی تعصب اور شدت پسندی کو ہوا مل رہی ہے ایسی صحافت کا سد باب کرنے کی ضرورت ہے۔ عامر لیاقت کا تعلیمی معیار کیا ہے یہ بھی ایک سوالیہ نشان ہے اور اس بارے قومی اخبارات اور سوشل میڈیا سمیت کچھ ریاستی اداروں کی طرف سے بھی یہ کہا چا چکا ہے خود اس کی بیرون ممالک اور اندرون ممالک سے حاصل کردہ ڈگریوں کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہ سب بوگس ہیں اور اس کا آغاز اس وقت ہواجب اس کو ممبر قومی اسمبلی کی نششت کے لئے بی اے کی ڈگری کی ضرورت پیش آئی کیونکہ 2002میں کم از کم بی اے کی ڈگری لازمی تھی اس وقت وہ کراچی میں ایم کیو ایم کے ممبر تھے ایک انٹرویو میں عامر لیاقت نےTrinity College and University spain سے 1995 میں اسلامیات میں گریجیویشن اور 2002 میں ماسٹر کی ڈگریاں لینے کا اعتراف کیا تھا اور لیکن 2006 میں ہائیر ایجوکیشن کمیشن پاکستان کراچی کی یونیورسٹی اس کی ڈگریوں کو بوگس قرار دے چکی ہیں جو کہ اس نے ممبر قومی اسمبلی کے انتخاب کے لئے کاغذات کے ساتھ پیش کی تھی اور یہ بات بھی باعث حیرت ہے کہ وہ ایک ہی وقت اور عرصے کے دوران دو مختلف فیکلٹی میں کس طرح تعلیم حاصل کرتا رہا یعنی1995 میں بیک وقت وہ ایم بی بی ایس اور اسلامیات میں بی اے کی تعلیم حاصل کررہا تھا یہ سب کچھ جعلسازی کے مترادف ہے۔حکومت کو اس بارے اپنی ذمہ داری نبھانے کی ضرورت ہے
صحافت کو اگر اس کے تمام تر اخلاقی اور صحافتی سنہری ضابطوں اور اصولوں کے ساتھ اپنایا جائے اور اس کو فروغ دیا جائے تو اس سے معاشرے میں بسنے والوں کی بہترین ذہنی نشو و نما کی جا سکتی ہے لیکن بدقسمتی سے پاکستان میں ایسا نہیں ہو رہا یہی وجہ ہے کہ آج صحافت کو بہت زیادہ تنقید کا سامنا ہے اس کی بنیادی وجہ اس شعبے کا شتر بے مہار کی طرح کا کردار ہے جس کا خمیازہ رعامر لیاقت حسین گلو بٹ جیسے اینکرز کی شکل میں وطن عزیز بھگت رہا ہے اب وقت آگیا ہے کہ اس شعبہ میں آنے کے لئے قانون سازی کی جائے اور قوائد و ضوابط مرتب کئے جائیں-

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button