صاحبزادہ سلطان احمد علی صاحب کے ضلع چنیوٹ میں کئے گئے سالانہ میلادِ مصطفیٰﷺ و حق باھُو کانفرنس کے فکری خطاب کا خلاصہ:
ہر مسلمان جو توحید و رسالت کی گواہی دیتا ہے اس کی یہ سادہ سی خواہش ہوتی ہے کہ موت کے وقت مجھے کلمہ نصیب ہو اور ایمان پر مجھے موت نصیب ہو-اس لئے بندے کے لئے یہ ضروری ہے کہ بندہ نیت کے ساتھ عمل کی طرف آئے اور باطن سے ظاہر کی طرف آئے -لیکن نیت سے عمل اور باطن سے ظاہر کی طرف آنے کے لئے تربیت کی ضرورت ہےکیونکہ قرآن پاک میں بھی پہلے ایمان کا درس دیا گیا اور پھر عمل کی ترغیب دلائی گئی ہے-
’’وَالْعَصْرِoاِنَّ الْاِنْسَانَ لَفِیْ خُسْرٍ o اِلَّا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا وَعَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ وَتَوَاصَوْا بِالْحَقِّ وَتَوَاصَوْا بِالصَّبْرِ‘‘(سورہ العصر)
’’زمانہ کی قَسم (جس کی گردش انسانی حالات پر گواہ ہے)-بے شک انسان خسارے میں ہے (کہ وہ عمرِ عزیز گنوا رہا ہے)-سوائے ان لوگوں کے جو ایمان لے آئے اور نیک عمل کرتے رہے اور (معاشرے میں) ایک دوسرے کو حق کی تلقین کرتے رہے اور (تبلیغِ حق کے نتیجے میں پیش آمدہ مصائب و آلام میں) باہم صبر کی تاکید کرتے رہے‘‘-
اس میں پہلے ایمان کا ذکر فرمایا پھر حق اورصبر کی تلقین کی نصیحت کا ذکر کیا-لہٰذا اس لیےواعظ اور مبلغ کے لئے ضروری ہے کہ پہلے اپنی تربیت کو حاصل کرے پھر تلقین کرے-قرآن و سنت،صحابہ کرام اور اہل بیت کے پیغام کو دیکھا جائے تو وہ یہی سبق دیتے ہیں-یتیموں، مسکینوں اور غریبوں کی پرورش کو وہ اپنے عمل میں بہت ترجیح دیتے-صداقت اور عدل و انصاف ان کا شیوہ رہا ہےجس کی انہوں نے ہمیں تلقین اور ترغیب فرمائی ہے‘‘-
https://m.facebook.com/story.php?story_fbid=1438995776172894&substory_index=0&id=123647457707739