شیخ رشید کی لال حویلی،محبت کی ادھوری داستاں
محبت کی ادھوری داستان ، شیخ رشید کی لال حویلی سے متعلق وہ باتیں جوآپ کومعلوم نہیں
محبت کی ادھوری داستان سہگل حویلی“سیاسی عروج وزوال کے بعد آج کی ” لال حویلی “بن گئی،راولپنڈی کی لال حویلی سے 100 سال پرانی محبت کی پراسرار ،لازوال اور ادھوری کہانی جڑی ہے، راج سہگل اور بدھاں بائی کی ادھوری محبت نے اسے پہلے ”سہگل حویلی “پھر ”جنوں والی حویلی “پھر ”روحوں والی حویلی “ اور بالآخر ”لال حویلی “ بنا دیاہے ۔سو برس بیت چکے لیکن محبت کی ادھوری داستان ابھی بھی زندہ ہے، بدھاں بائی اور راج سہگل کی انمول پیار کی لازوال کہانی ایک صدی پرانا قصہ ہے، جہلم کے ہندو امیر زادے راج سہگل کاایک محفل میں بدھاں بائی پر دل آگیا۔پھر وقت کے بے رحم دھار اسے بدھاں بائی کے گھنگروو¿ں کی کھن کھن کی محتاج کرتی گئی اور راج سہگل کی دل کی دھڑکنیںاس آواز میں ڈھلتی چلی گئیں۔
راج سہگل نے بدھاں بائی کو دل میں بسایا اورپھر اسے گھر میں بسانے کی آرزو بھی کی اور راج نے بدھاں کیلئے اپنا پیار امر کرنے کیلئے مغل بادشاہوں کی نقل کرتے ہوئے راولپنڈی میں شاندار سہگل حویلی بنوائی ۔برصغیر کی تقسیم کیساتھ محبت بھی تقسیم ہو گئی، راج سہگل کو ہندوستان جانا پڑا لیکن بدھاں بائی اسی حویلی کی ہوکر رہ گئیں۔ پوری محبت کی اس آدھی کہانی میں پر اسرار موڑ اس وقت آیا جب بدھاں بائی اپنے بھائی کی موت کے بعد اچانک حویلی چھوڑ کر کسی گمنام وادی میں کھو گئیں۔ بدھاں بائی کے بعد سہگل حویلی پر ویرانیوں نے ڈیرے ڈال لئے اور اس حویلی کو روحوں کی حویلی کہا جانے لگا۔
شیخ رشید کی زبانی
جس طرح مغل بادشاہ اکبر نے مسلمان کئے بغیر ایک ہندو عورت سے شادی کی تھی اسی طرح قیام پاکستان سے پہلے جہلم کی امیر ترین ہندو فیملی کے سربراہ رائے صاحب کرپا رام کے بیٹے دھن راج سہگل مسلمان عورت ’’بدھاں‘‘ کے عشق میں مبتلا ہوگئے۔
دھن راج سہگل لنکنز اِن لندن سے بیرسٹری کا امتحان پاس کرکے آئے تھے اور راولپنڈی میں مقیم تھے۔ کہتے ہیں کہ وہ سیالکوٹ میں ایک شادی میں شرکت کے لیے گئے۔ اس شادی میں روایتی مجرے کا بھی اہتمام تھا۔ اس مجرے میں ایک نوخیز لڑکی ’’بدھاں‘‘ ساری رات دھن راج کے سامنے ناچتی رہی اور اسی رات دھن راج اسے دل دے بیٹھے۔ دھن راج اس وقت خود شادی شدہ اور تین بچوں کے باپ تھے پھر معلوم نہیں ’’بدھاں‘‘ بائی کو کس طرح سیالکوٹ سے راولپنڈی لانے میں کامیاب ہوگئے۔
جس طرح شاہ جہاں نے ممتاز محل بنوایا تھا اسی طرح دھن راج نے ’’بدھاں‘‘ کے لیے یہ عمارت تعمیر کروائی جو اس وقت سہگل حویلی کے نام سے منسوب تھی۔ ’’بدھاں‘‘ نے سہگل حویلی میں شفٹ ہونے کے بعد مجرا کرنا چھوڑ دیا اور مذہبی گھریلو عورت کی زندگی شروع کردی۔ وہ اسلامی رسومات اور مذہبی محافل کراتی تھیں جس پر دھن راج بے دریغ رقم خرچ کرتا تھا اور اس حویلی کے ساتھ دھن راج نے اپنے لیے مندر بھی بنوایا اور بدھاں کے لیے مسجد بھی۔ جسے صرافہ بازار سے بھی راستہ لگتا تھا۔
ان دنوں میں قومی اسمبلی کا ممبر بن چکا تھا لیکن لوگوں کے بیٹھنے اور ملاقات کی کوئی جگہ نہ تھی اپنے گھر بھابھڑا بازار میں بیٹھک بہت چھوٹی تھی اور لوگوں کے آنے جانے کا تانتا بندھا رہتا تھا جس سے گھر والوں کو بھی سخت تکلیف تھی۔ شاید وہ وقت آن پہنچا تھا جب میں کسی ایسی عمارت کو کرایہ پر لے سکوں جوکہ میرے نام سے زیادہ خود اپنی پہچان رکھتی ہو۔
میری بچپن سے خواہش تھی کہ سیاسی سرگرمیوں کے لیے میرا اپنا گھر ہو۔ میں محمود احمد منٹو کے گھر میں مسلم لیگ کی گہما گہمی دیکھا کرتا تھا۔ سیاسی سرگرمیوں کے لیے اپنے گھر کی خواہش زور پکڑتی تھی۔ جب میں چھوٹا سا تھا تو لال حویلی کو دیکھا کرتا تھا جہاں بدھو بائی رہتی تھی جو کہنے کو تو طوائف تھی لیکن پاکستان بننے کے بعد جس گمنامی اور عبادت میں اس نے زندگی گزاری وہ اپنی مثال آپ تھی۔ اس کے بھائی کو بعض لوگوں نے اس غلط فہمی میں قتل کردیا کہ اس کے پاس بے بہا دولت ہے۔
پہلے الیکشن میں ممتاز کالج کو دفتر بنانے کے بعد اپنی نئی جگہ پر دفتر بنانا بڑا ضروری تھا۔ کئی دفعہ لال حویلی خریدنے کے سودے طے ہوئے کئی دفعہ یہ بکی۔ ہر آدمی کا یہ خیال تھا کہ یہ منحوس بلڈنگ ہے۔ یہاں جنات کا سایہ ہے اور اگر بدھو بائی عدالت سے صرف یہ کہہ دیتی کہ میں اپنا مذہب تبدیل کرچکی ہوں یا دھن راج مذہب تبدیل کرچکا تھا تو اس شہر کے اربوں روپے کی جائیداد کی مالک ہوتی لیکن اس نے عدالت میں سچ بول کر جائیداد کے بھوکے شریف زادوں کے منہ پر سچائی کا تھپڑ رسید کیا۔
عدالت نے اسے دو تین دفعہ موقعہ دیا کہ وہ سوچ سمجھ کر بیان دے لیکن وہ اپنے بیان سے منحرف نہ ہوئی اور سچ سچ سارے واقعات بیان کردیئے اور اس طرح یہ ساری جائیداد سوائے ان دو کمروں کے جن میں وہ خود رہتی تھی متروکہ ملکیت قرار دے دی گئی۔ اس حویلی کو کئی مرتبہ خریدنے کی کوشش کی لیکن ہر بار چند ہزار روپے کے لین دین کی کمی پر سودا رہ جاتا تھا۔ ایک دن حیدر علی حسب خواہش میرے بغیر پوچھے اس کا سودا کر آئے اور مجھے کہنے لگے کہ تین برسوں سے تین ہاتھوں میں بک چکی ہے اس کے آگے کھلی جگہ ہے اور بالکونی سے خطاب کرنے کا دلکش منظر بھی، اس لیے سودا کر آیا ہوں۔ پیسوں کا بندوبست کریں۔ مجھے بھی یہ جگہ بہت پسند تھی، زبان زد عام تھا کہ یہاں جنات کا سایہ ہے لیکن یہاں میرے قدم جماتے ہی برکت کا باعث بنے۔
لال اور کالا رنگ شروع ہی سے میری کمزوری ہے۔ میں نے پہلے ہی سوچ رکھا تھا کہ اس کا نام لال حویلی رکھوں لگا اور لال رنگ کرائوں گا لیکن میری گلی میں حاجی صابن والے پرانے احراری تھے ان سے پوچھا کہ کیا نام رکھوں۔ کہنے لگے لال کوٹھی، میں نے کوٹھی کی جگہ حویلی لگا دیا اور دیکھتے ہی دیکھتے وہ بلڈنگ جو پاکستان بننے سے پہلے نامور بلڈنگوں میں شمار ہوتی تھی اسے دنیا بھر میں شہرت ملی۔ اس پر دنیا بھر کے نیٹ ورک پر فلم دکھائی گئی اورخاص طور پر کشمیر کی آزادی کی تحریک پر دنیا بھر میں اس پر قسم قسم کے آرٹیکل چھپے۔ لیکن ایک اور بات جو وقوع پذیر ہوئی کہ لال حویلی میرے نام کے ساتھ منسوب ہوگئی۔
(’’فرزند پاکستان‘‘ سے)