شہبازشریف+اورنگ زیب عالمگیر+سیاسی گھتیاں
کالم:- نصرت جاوید
سیاست سے نابلد اس تحریر سے دور رہیں، ورنہ انہیں بدہضمی کا خدشہ لاحق ہو سکتا ہے –
شہباز شریف صاحب جیسا وفادار اور جاں نثار چھوٹا بھائی شایدہی کسی حکمران کو نصیب ہوا ہوگا۔ 1990ء میں وہ قومی اسمبلی کے رکن ہوا کرتے تھے۔ صدر ان دنوں اس مملکت کے غلام اسحاق خان تھے۔ انہیں بہت ایمان دار اور حب الوطنی کی علامت سمجھا جاتا تھا۔ ریاستی امور کو قواعد وضوابط کے تحت چلانے کے عادی تھے۔ ایک خالص بیوروکریٹ جو خاموش رہتا اور فائلوں کے ذریعے گفتگو کرتا ہے۔
نواز شریف کو 1990ء کا الیکشن جیتنے کے باوجود اسحاق خان مرحوم ان دنوں کی 8ویں ترمیم کی بدولت ملے اختیارات کی وجہ سے انہیں وزیر اعظم نامزد نہیں کرنا چاہ رہے تھے۔ غلام مصطفیٰ جتوئی مرحوم ان کی اور جنرل مرزا اسلم بیگ کی مشترکہ ترجیح تھے۔ مرحوم جنرل حمید گل جیسے لوگوں کی وجہ سے ان کے ذہن میں لیکن یہ بات ڈالی گئی کہ پنجاب سے ابھرے ایک متحرک اور صنعت کار گھرانے اور برادری سے تعلق رکھنے والے سیاستدان کو وزیر اعظم نہ بنایا گیا تو وہ پاکستان کے سب سے زیادہ آبادی والے صوبے”پنجاب” میں شکوے شکایات کے انبار لگادیں گے۔
غلام اسحاق خان، نواز شریف کو وزیر اعظم نامزد کرنے پر تقریباََ مجبور ہوئے تھے۔انہیں وزیر اعظم نامزد کرنے کے صرف 6ماہ بعد ہی انہیں یہ خیال ستانا شروع ہوگیا کہ چوک ہوگئی ہے۔لاہور سے آئے صنعت کار کو جلد فیصلے کرنے کی عادت ہے۔ایسا کرتے ہوئے وہ افسر شاہی کے دکھائے قواعد وضوابط کی ہرگز پرواہ نہیں کرتے۔ جو بات دل میں سما جائے اسے پورا کرکے رہتے ہیں۔
نواز شریف کی ’’تیزی‘‘ نے ریاست کے دائمی اداروں میں موجود ’’محتاط‘‘ افراد کو پریشان کرنا شروع کیا تو Minus Oneکی بات چل نکلی۔ مطلب اس Minus کا صرف یہ تھا کہ 1990ء میں منتخب ہوئی اسمبلی قائم رہے۔ پاکستان مسلم لیگ کی وہاں اکثریت بھی اپنی جگہ موجود رہے۔ صرف نواز شریف کی جگہ حکمران جماعت سے کوئی اور شخص وزیر اعظم بن جائے۔
صدر اسحاق کی خواہش تھی کہ جونیجو مرحوم جنہیں جنرل ضیاء نے خود نامزد کرنے کے بعد 1988ء میں برطرف کردیا تھا، نواز شریف کی جگہ لے لیں۔ جونیجو مرحوم صاحب کا ذکر چلا تو پنجابی-سندھی والا سوال بھی اُٹھ کھڑا ہوا۔ جونیجو صاحب نے حامد ناصر چٹھہ کو آگے کردیا۔ چٹھہ صاحب مگر بادشاہ آدمی تھے۔ دھڑے بندی کے فن سے قطعاََ نآشنا۔ خاندان کے اکلوتے اور لاڈلے۔
دریں اثناء بات چلی کہ داراشکوہ دکھتے نواز شریف کی جگہ شہبازشریف صاحب میں سے ’’اورنگ زیب‘‘ تلاش کر لیا جائے۔ شہبازشریف صاحب مگر یہ کردار ادا کرنے کو تیار نہ ہوئے۔ غلام اسحاق خان نے نواز شریف اور ان کی اسمبلی کو فارغ کردیا۔ اس کے بعد نہ وہ ایوانِ صدر میں رہے اور نہ ہی نواز شریف وزیر اعظم ہاوس میں۔ محترمہ بے نظیر بھٹو 1993ء میں اس ملک کی ایک بار پھر وزیر اعظم بن گئیں۔
شہبازشریف صاحب مگر اپنے بھائی کے وفادار تھے۔ پیپلز پارٹی سے نفرت کرتے تھے۔ کبھی بھول نہ پائے کہ ذوالفقار علی بھٹو نے ان کے کاروبار کو قومیا لیا تھا۔شاہد حامد صاحب ان کے دوست تھے۔ یہ آج کے وزیر قانون زاہد حامد صاحب کے بھائی ہوا کرتے ہیں۔ شاہد صاحب ان دنوں کے صدر فاروق لغاری کے عزیز ترین دوست بھی تھے۔ شہبازشریف صاحب کو خبر ملی کہ لغاری صاحب محترمہ سے بدظن ہورہے ہیں۔محترمہ عابدہ حسین اور شاہد حامد کی وساطت سے ان تک پہنچ گئے۔ سردار فاروق لغاری نے محترمہ بے نظیر بھٹو کی دوسری حکومت کو فارغ کردیا۔ 1997ء کے انتخابات ہوئے۔ جس کے نتیجے میں ’’بھاری مینڈیٹ‘‘ کے ساتھ نواز شریف دوسری بار اس ملک کے وزیر اعظم منتخب ہوگئے۔
اس سال مگر فیصلہ یہ بھی ہوا کہ شہبازشریف صاحب قومی اسمبلی کا رکن بن کر اسلام آباد میں موجود رہیں گے تو سازشی عناصر ان میں سے ’’اورنگ زیب‘‘ برآمد کرنے کی کوششوں میں مصروف رہیں گے۔ ان کی ذہانت، توانائی اور وطن سے بے پناہ محبت والے جذبے کو استعمال کرنے کے لئے انہیں اٹک سے رحیم یار خان تک پھیلے صوبہ پنجاب کا وزیر اعلیٰ منتخب کروالیا گیا۔
اسلام آباد میں اپنے تئیں کام کرتے نواز شریف نے مگر فاروق لغاری اور سپریم کورٹ کے چیف جسٹس سجاد علی شاہ کو دیکھتے ہی دیکھتے فارغ کردیا۔ اکتوبر 1998ء میں انہوں نے جنرل جہانگیر کرامت سے استعفیٰ لے لیا۔ ان کی جگہ جنرل مشرف کو نامزد کیا۔ جنرل مشرف نے مگر کارگل کردیا اور نواز شریف ایک بار پھر ریاست کے دائمی اداروں سے پنجہ آزمائی میں مشغول نظر آئے۔ شہبازشریف صاحب اپنے بھائی کو بچانے کے لئے متحرک ہوئے تو انہیں کئی بار سمجھایا گیا کہ وہ اپنے خاندان اور حکمران جماعت پر مائنس ون (Minus One) کا اطلاق کرتے ہوئے خود وزیر اعظم کیوں نہیں بن جاتے۔؟ شہبازشریف صاحب مگر اپنے بھائی کے وفادار اور جاں نثار رہے۔ بالآخر 12اکتوبر 1999ء ہوگیا۔
اب 2016ء کا اکتوبر ہے۔ نواز شریف کا مزاج ویسا ہی ہے جیسا 1990ء سے 1993ء اور 1997ء سے 1999ء کے مابین دیکھنے کو ملا۔ ریاستِ پاکستان کے دائمی ادارے بھی اپنی جگہ موجود ہیں۔ ان اداروں کی Institutional سوچ اور یادداشت ہوا کرتی ہے۔ یہ سوچ اور یادداشت نواز شریف کو مشکل سے برداشت کر پاتی ہے۔ انہیں کمزور کرنے کے لئے سازشیں کرنا ہوتی ہیں۔ ان سازشوں پر عمل پیرائی مگر کسی سیاستدان کے ذریعے ہی ممکن ہے۔ حامد ناصر چٹھہ جیسے سیاستدانوں میں مگر کوئی خاص جان نہیں ہوا کرتی تھی۔
’’نیا پاکستان‘‘ اس لئے بھی خوش نصیب ہے کہ اسے عمران خان جیسے ہمہ وقت متحرک شاہین صفت رہ نما مل گئے ہیں۔ 30اکتوبر کو انہوں نے اسلام آباد کو بند کرنے (Lock Down ) کا اعلان کررکھا ہے۔ خواہش ان کی فی الوقت Minus-One ہی ہے۔
سادہ لفظوں میں مطالبہ صرف اتنا ہے کہ نواز شریف وزیر اعظم کے عہدے سے استعفیٰ دے کر پانامہ لیکس کی وجہ سے اُٹھے سوالات کا جواب مہیا کریں۔ وہ اپنے عہدے سے استعفیٰ دے دیں تو مسلم لیگ نون سے کوئی اور وزیر اعظم منتخب کروالیا جائے۔ایسا ہوجائے تو 2018ء تک قومی اسمبلی اور بقیہ صوبائی اسمبلیاں کام کرتی رہیں گی اور وہاں کی حکومتیں بھی۔ پاکستان بدستور ’’جمہوری‘‘ رہے گا۔ کسی تیسری قوت کی ضرورت نہیں رہے گی۔
عمران خان ’’ جمہوری‘‘ دکھاوے کو تہس نہس کرنا چاہتے تو 30ستمبر کے دن لاہور میں جمع ہوئے ہجوم کو جاتی امراء لے جاکر خوب رونق لگا سکتے تھے۔ یہ رونق لگ جاتی تو شہبازشریف صاحب مشکل میں گرفتار ہوجاتے۔ عمران خان نے مگر شہبازشریف صاحب کو اس مشکل میں گرفتار نہ ہونے دیا۔ ویسے بھی پانامہ لیکس میں ان کا نام تو آیا نہیں ہے۔ نہ ہی ان کے کسی صاحبزادے کا۔ عمران خان کا نشانہ فقط نواز شریف ہیں۔
شہباز صاحب مگر اپنے بھائی کے وفادار اور جاں نثار ہیں۔ انہیں خبر ہے کہ ریاست کے دائمی اداروں میں بیٹھے افراد کے ساتھ ’’بندے کا پتر‘‘ بن کر رہا جائے تو بچت ہوسکتی ہے۔ پیر کے روز انہوں نے اپنے بھائی سے ’’قومی سلامتی‘‘ کے نام پر کچھ فیصلے کروالئے ہیں۔ جو ان کے خیال میں ’’بھائی جان‘‘ کو 30اکتوبر سے بچالیں گے۔ اللہ کرے ایسا ہی ہو۔
نجانے کیوں! لیکن میرے وسوسے بھرے دل میں یہ خیال آئے چلا جارہا ہے کہ شہبازشریف صاحب میں سے اب ’’ اورنگ زیب‘‘عالمگیر) برآمد کرنا ضروری ہوجائے گا۔ یہ الگ بات ہے کہ 30اکتوبر کے بعد نمودار ہوا’’اورنگ زیب‘‘ بھی شاید کوئی کام نہ آسکے۔ 30اکتوبر کا T-20،کپتان نے جیت لیا تو فیصلے صرف وہ کریں گے۔ کوئی داراشکوہ یا اورنگ زیب (عالمگیر ) نہیں۔ وہ جیت گئے تو ہمیں دیکھنے کو "بہادر شاہ ظفر” ملیں گے۔ جس کے بعد (ایسٹ انڈیا) کمپنی کی حکومت بھی نہیں رہی تھی۔معاملات حقیقی قوت وطاقت والوں نے براہِ راست اپنے ہاتھ میں لے لیے تھے۔