کالم,انٹرویو

شریف خاندان کی منی لانڈرنگ کی کہانی اسحاق ڈار کی زبانی

(نصیر ظفر نیوز وائس آف کینیڈا )
یاد رہے وزیراعظم پاکستان کے سمدھی اور موجودہ وزیر خزانہ اسحاق ڈار نے سن 2000ء میں دفعہ 164 کے تحت مجسٹریٹ کے سامنے 45 صفحات پر مشتمل ایک اعترافی بیان دیا تھا جس میں اس نے بہت بڑے پیمانے پر شریف خاندان کے لیے منی لانڈرنگ کا اعتراف کیا تھا۔ )
اسحاق ڈار کے اس بیان کے مطابق وہ 1964ء سے 1966ء تک میاں نواز شریف گورنمنٹ کالج لاہورمیں ان کے ہم جماعت تھے لیکن قریبی دوستی نہین تھی۔ اس حوالے سے نواز شریف کی بے اے کی ڈگری موجود ہے جس کے مطابق اس نے اسی دور میں اسی کالج سے بے اے کا امتحان پاس کیا تھا اور 700 میں سے 340 نمبر یعنی 48 فیصد مارکس حاصل کیے تھے۔ وہ شریف خاندان کے قریب تب ہوئے جب انہوں نے 1991ء میں فسٹ ہجویری مضاربہ بنائی۔ تب شریف گروپ اور سہگل گروپ ان کے پہلے گاہک بنے۔ اس سے پہلے 1990ء میں اسکی ملاقات شہباز شریف سے اس وقت ہو چکی تھی جب وہ چیمبر آف کامرس کے صدر تھے۔ جس کے بعد یہ سارا سلسلہ شروع ہوا۔
اسحاق ڈار کا یہ کہنا ہے کہ دفعہ 164 کا یہ بیان ان سے زبردستی لیا گیا تھا۔ لیکن قانون دان کہتے ہیں کہ 164 کے بیان کے تحت لوگ پھانسی لگ جاتے ہیں اور اس سے قانونی انحراف کسی صورت ممکن نہیں۔ پیپلز پارٹی کے راہنما اور مشہور وکیل لطیف کھوسہ کے مطابق اسحاق ڈار سے اس بیان کے لیے کوئی زبردستی نہیں کی گئی تھی۔
اس 45 صفحے کے ایفی ڈیوٹ میں اس ساری منی لانڈرنگ کی تفصیل ہے جو اسحاق ڈار نے شریف خاندان کے لیے کی تھی۔
لیکن اسحاق دآر کا یہ ایفی ڈیوٹ ہی اکلوتا ڈاکومنٹ نہین ہے۔ سرکاری تحقیقاتی اداروں نے 1993ء میں شریف خاندن کی منی لانڈرنگ کے حوالے سے تحقیات شروع کی تھیں اور حیرت انگیز طور پر انہوں نے جو شواہد اور اعدادوشمار جمع کیے ہیں وہ سارے اسحاق ڈار کے بیان حلفی میں بھی موجود ہیں۔
سرکاری تحقیقاتی اداروں کے مطابق نواز شریف نے اپنے کالے دھن کو سفید کرنے کے لیے 1992 میں اکنامک ریفارمز ایکٹ معتارف کرویا۔ اسحاق ڈار نے بھی اپنے بیان میں اس ایکٹ کا حوالہ دیا ہے کہ نواز شریف نے مجھے کہا تھا "فکر نہ کریں ہم یہ ایکٹ لا رہے ہیں۔ آپ کو کوئی کچھ بھی نہیں کہہ سکے گا”
سرکاری تحقیقاتی دستاویزات کے مطابق میاں نواز شریف نے اپنے کالے دھن کو سفید کرنے کے لیے 1992ء میں واشنگٹن میں موجود اپنے دوست جاوید کیانی کی خدمات حاصل کی تھیں۔
اگست 1992 میں جاوید کیانی نے محمد رمضان ، سلمان ضیا اور اصغر علی کے نام سے حبیب بینک اے جی زیورچ مین تین جعلی اکاؤنٹ کھولے۔ تینوں اکاؤنٹ غیر ملکی کرنسی کے تھے اور ان میں ابتدائی ڈپازٹ 300 ڈالر سے بھی کم تھا۔ دستاویزات یہ بتاتے ہیں کہ یہ جعلی اکاؤنٹ بظاہر باہر سے پیسہ واپس لانے کے لیے بنائے گئے تھے۔ تاکہ بعد مین اس پیسے کو کولیٹرل رکھوا کر شریف خاندان کی کمپنیوں کو قرضہ دلوایا جا سکے۔
اس طرح منی لانڈرنگ کر کے غیر قانونی طریقے سے ملک سے باہر بھیجا گیا پیسا قانونی طریقے سے شریف خاندان کو واپس مل گیا۔ یہ تینوں اکاؤنٹ جعلی شناختی کارڈ استعمال کر کے بنائے گئے تھے۔ بعد میں ان اکاؤنٹس میں چیک اور کیش کی صورت میں 3794762 ڈالر جمع کروائے گئے اور اسکے عوض لاکھوں ڈالر کے بیررز سرٹیفیکیٹ جاری کروائے گئے۔ نواز شریف کے سابق بزنس پارٹر اور فرسٹ کزن میاں سراج نے بھی اپنے 1994ء ایک خط میں اس سارے واقعے کا ذکر کیا ہے۔ اور یہ سب کچھ اسحاق ڈار کے اعترافی ایفی ڈیوٹ میں بھی موجود ہے۔
اس کے بعد تین مزید اکاؤنٹس کھولے گئے لندن کی قاضی فیملی کے لیے۔ جس میں کاشف مسعود قاضی اور نزہت گوہر قاضی کے نام پر بینک آف امریکا لاہور اور سکندرا مسعود قاضی کے نام پر سٹی بینک لاہور میں کھولا گیا۔ انکا ذکر بھی اسحاق ڈار کے ایفی ڈیوٹ میں موجود ہے۔
اسحاق ڈار کے ایفی ڈیوٹ کے مطابق 1992 میں نواز شریف نے ان سے رابطہ کیا اور 100 ملین روپے قرضے کی درخواست کی جو میرے مضاربہ سے ان کو دی جانی تھی۔جب میں نے کولیٹرل مانگا تو نواز شریف نے کہا کہ وہ فارن کرنسی فنڈ کولیٹرل کی شکل میں دینگے۔
اسحاق ڈار کے مطابق نواز شریف نے ان کو قاضی خاندان کے 4 افراد کے پاسپورٹ کی کاپیاں فراہم کیں اور کہا کہ ان اکاؤنٹس کو آپ آپریٹ کرینگے۔ ڈار کے مطابق چار میں سے دو اکاؤنٹ سکندار مسعود قاضی اور طلعت مسعود قاضی کے نام پر تھے جو میں نے کھولے۔ باقی دو اکاؤنٹس ہجویری مضاربہ کے ڈائرکٹر نعیم نے کھولے۔ یہ دنوں نزعت گوہر اور کاشف محمود قاضی کے نام پر تھے۔ اسحاق ڈار کے مطابق دو اکاؤنٹ میں میرے اور دو میں نعیم کے دستخظ سے چلا کر تے تھے۔ جبکہ ان کے لیے احکامات براہ راست نواز شریف اور شہاز شریف سے آتے تھے۔
ایک پانچویں اکاؤنٹ کا بھی اس ایفی ڈیوٹ میں ذکر ہے جو سعید احمد کے نام پر تھا۔ سعید احمد کو اسحاق ڈار نے اپنا قربی دوست اور سابقہ بزنس پارٹنر بتایا تھا۔ آج وہ سعید احمد سٹیٹ بینک آف پاکستان میں ڈپٹی گورنر کے عہدے پر فائز ہیں اور یہ عہدہ انہیں اسحاق ڈار کے وزیرخزانہ بننے کے بعد دیا گیا۔
چھٹا اکاونٹ انکی بیوی کے بھانچے موسی غنی کے نام پر تھا۔ اسحاق ڈار کے مطاق سعید احمد اپنا اکاؤنٹ خود چلاتے تھے جبکہ موسی غنی کا اکاونٹ وہ چلاتے تھے اور اس کے بدلے جتنا قرضہ لیا گیا وہ سارا شیرف خاندان کو دے دیا گیا۔ ان کے علاوہ بھی ایسے اکاونٹ چلائے جاتے رہے جن کے بدلے قرضہ لیا گیا۔
شریف خاندان کے خلاف برطانیہ میں لتوفیق انوسٹ منٹ بینک کا کیس چلا۔ برطانوی عدالت نے برطانیہ میں موجود نواز شریف کی پراپرٹی کو اس کیس سے نتھی کر لیا اور جس کو چھڑانے کے لیے شریف خاندان نے اس دور میں 32.5 ملین ڈالر ادا کیے اور پانامہ لیکس کے حوالے سے نواز شریف اور ان کے بیٹے حسین نواز اس پراپرٹی کو 2006ء میں خریدنے کا دعوی کر رہے ہیں۔
اسحاق ڈار نے اپنے اعترافی بیان میں 1998ء میں شہباز شریف کے ساتھ ماڈل ٹاؤن میں ہونے والی ایک میٹنگ کا بھی ذکر کیا ہے جس میں کمال قریشی اور ہاروں پاشا بھی شامل تھے۔ اس میں شہباز شریف نے کہا کہ چونکہ اخبارات میں بار بار اکاؤنٹس کا ذکر آچکا ہے لہذا تمام اکاونٹس سے فوری رقم نکال لی جائے اور مڈل ایسٹ کی ایک خاتون صدیقہ سید کے ذریعے ان کو حدیبیہ پیپر ملز کے کاؤنٹ میں شیر کیپیٹل کے طور پر جمع کروا دیا جائے ۔ شہباز شریف نے صدیقہ سید مفہود خادم کے پاسپورٹ کی کاپی دی کہ انکے نام سے جمع کروائیں۔ اس کے بعد 37 اور29 لاکھ ڈالر ان کے نام سے بھیجے گئے۔
نواز شریف نے ایٹمی دھماکوں کے بعد سارے ملک کے فارن کرنسی اکاؤنٹس منجمد کروا دئیے لیکن اپنے فارن کرنسی اکاؤنٹ بچانے کےلیے فوری طور ان میں موجود ڈالرز کو 46 روپے کی قیمت سے تبدیل کر کے ( جو ڈالر کی اصل قیمت سے زیادہ تھی ) اسی اکاؤنٹ میں جمع کروائے۔ اسحاق ڈار کے مطابق ان رقوم سے انہون نے بعد میں اپنے کئی قرضے چکتا کیے جس سے ثابت ہوا کہ یہ قاضی خاندان کی نہیں انکی اپنی رقوم تھیں۔
شریف خاندان کی منی لانڈرنگ کے حوالے سے پشاور کے دو ہنڈی اور حوالہ ڈیلرز کے نام تک سامنے آئے۔
شریف خاندان کی منی لانڈرنگ کے حوالے سے اعترافی بیانات، بینک ریکارڈز اور دستاویزات مختلف ادوار میں سامنے آتے رہے ہیں۔ لیکن مختلف خفیہ معاہدوں کے ذریعے ان پر قانونی چارہ جوئی کبھی بھی مکمل نہین ہوئی اور نہ ہی کوئی کیس منتطقی انجام تک پہنچا۔
پانامہ لیکس کے حوالے سے بننے والی متحدہ اپوزیشن نے براہ راست اسحاق ڈار کو شریف خاندان کے مالی معاملات کا ماسٹر مائنڈ قرار دیتے ہوئے قاضی فیملی ، سٹی بینک، بینک آف امریکا ، حدیبیہ انجینرنگ اور حدیبیہ پیپر مل کے حوالے سے متعدد سوالات کیے گئے ہیں جنکا کوئی جواب نہیں دیا گیا۔
اس اعترافی بیان کے باوجود نہ معلوم وجوہات کی بنا پر ہماری عدلیہ نہ اسحاق ڈار اور نہ ہی شریف خاندان کو کوئی سزا دینے پر آمادہ ہے اور نہ ہی وہ ان کو نااہل قرار دے رہی ہے اور اب سنا ہے کہ نیب بھی اسحاق ڈار کو کلین چٹ دے چکی ہے!
اسحاق ڈار کے اس ایفی ڈیوٹ میں پانامہ لیکس کے حوالے سے اٹھائے گئے کئی اہم سوالات کے جوابات ہیں جیسے رقم کہاں سے آئی ؟ باہر کیسے گئی؟ اور لندن پراپرٹی کب خریدی گئی !

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Check Also
Close
Back to top button