شریف خاندان کو بچانے کیلئے اندرون خانہ کونسا بڑافیصلہ کرلیا گیا؟تہلکہ خیز انکشاف
سلام آباد(آن لائن )کرپشن اور بددیانتی پر نااہل ہونے والے سابق وزیراعظم نوازشریف کی ہدایت اور مشاورت سے وفاقی حکومت نے احتساب عدالت میں شریف خاندان کی کرپشن مقدمات کی کارروائی کو غیر مؤثر کرنے کیلئے ایک نیا آرڈیننس نافذ کرنے کافیصلہ کیا ہے اور اگلے 48گھنٹے میں صدر مملکت ممنون حسین وزیراعظم شاہد خاقان عباسی کی ہدایت پر نیب آرڈیننس2018ء کو نافذ کر دیں گے۔آن لائن کو حکومتی ذرائع نے بتا دیا ہے کہ نئےآرڈیننس کے تحت ملک میں جاری احتسابی عمل کو فوری طور پر روک دیا جائے گا اور احتساب عدالت میں ملک کی اشرافیہ کے خلاف جاری کارروائیاں بھی فوری طور پر روک دی جائیں گی۔ذرائع نے بتایا ہے کہ آرڈیننس میں کہا جائے گا کہ ملک کے اندر عام انتخابات کی تکمیل تک نوازشریف ان کے خاندان اور دیگر اشرافیہ کے افراد کے خلاف جاری احتسابی عمل فوری طور پر روک دیا جائے اور اس حوالے سے نوازشریف دو دن پہلے ہی عندیہ دے چکے ہیں۔ذرائع نے بتایا ہے اس آرڈیننس کے نفاذ کے سلسلہ میں اپوزیشن کی سب سے بڑی جماعت پیپلزپارٹی کی بھی حمایت حاصل ہے اور نئے آرڈیننس کے لئے حتمی مشاورت جاتی امراء میں نوازشریف کی صدارت میں ہونے والے اجلاس میں دی گئی ہے۔ذرائع نے بتایا ہے کہ نئے آرڈیننس کے تحت ایک پارلیمانی کمیٹی تشکیل دی جائے گی جو احتساب کے مقدمات کے ریکارڈ کا جائزہ لے گی اور عدالتوں میں مقدمات داخل ان کی اجازت سے ہوں گے۔آرڈیننس کا مقصد بتایا گیا ہے کہ عام انتخابات میں ملک خزانہ کو لوٹنے والے افراد کو بھی موقع دیا جائے گا اور عام انتخابات کے بعد قائم ہونے والی حکومت اس آرڈیننس کا جائزہ لے گی اور پارلیمنٹ سے منظوری کے بعد نیب کا ادارہ اور احتساب عدالتیں قائم ہوں گی۔اس آرڈیننس کا واحد مقصد شریف خاندان کو کرپشن مقدمات سے ممکنہ سزاؤں سے بچانا ہے اور اس مقصد کے لئے ملک کے تمام مقتدر حلقے بھی خاموش ہیں کیونکہ یہ آرڈیننس مقتدر حلقوں کی مشاورت کے بعد آرہا ہے۔ذرائع نے بتایا ہے کہ وزیراعظم شاہد خاقان عباسی کی چیف جسٹس سے ملاقات جبکہ وزیراعلیٰ پنجاب شہبازشریف کی آرمی چیف سے ہونے والی خفیہ ملاقات کے بعد نیب جیسے ادارہ کو بند کرنے اور احتساب عدالتوں میں زیر سماعت مقدمات کی کاررروائی روکنے بارے آرڈیننس کے ممکنہ نفاذ کے بعد اداروں کی پالیسیوں پر بھی کئی سوالات جنم لیں گے۔اس مقصد کیلئے آن لائن نے حکومتی ترجمان سے بات کی لیکن کسی افسر نے باضابطہ جواب نہیں دیا ہے اور نہ ہی صدر ہاؤس کے ترجمان نے وضاحت کی ہے۔