شبِ براءت میں کون سا عمل بہتر ہے ؟ اور کن چیزوں سے اجتناب کرنا چاہیے؟

👇👇👇🇵🇰🤝🇨🇦
Voice of Canada
شعبان کی پندرہویں رات ”شبِ برأت“ کہلاتی ہے، یعنی وہ رات جس میں مخلوق کو گناہوں سے بری کردیاجاتاہے۔ تقریباً دس صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم سے اس رات کے متعلق احادیث منقول ہیں، حضرت عائشہ رضی اللہ عنہافرماتی ہیں:
” شعبان کی پندرہویں شب میں میں نے نبی کریم ﷺ کواپنی آرام گاہ پر موجود نہ پایا تو تلاش میں نکلی، دیکھا کہ آپ "جنت البقیع” میں ہیں … پھرآپ ﷺ نے مجھ سے فرمایاکہ آج شعبان کی پندرہویں رات ہے ، اس رات میں اللہ تعالیٰ آسمانِ دنیا پر نزول فرماتا ہے اور قبیلہ بنی کلب کی بکریوں کے بالوں کی تعدادسے بھی زیادہ گناہ گاروں کی بخشش فرماتاہے”۔
اسی طرح ایک روایت میں ہے:
"اس رات میں تمام مخلوق کی مغفرت کردی جاتی ہے سوائے سات اشخاص کے، وہ یہ ہیں:مشرک، والدین کا نافرمان، کینہ پرور، شرابی،قاتل،شلوارکوٹخنوں سے نیچے لٹکانے والا اورچغل خور، ان سات افراد کی اس عظیم رات میں بھی مغفرت نہیں ہوتی، جب تک کہ یہ اپنے جرائم سے توبہ نہ کرلیں”۔
بعض روایات میں "قطع رحمی کرانے والے” اور بعض میں "زانی” کا بھی ذکر ہے کہ ان کی بھی بخشش نہیں ہوتی۔
حضرت علی رضی اللہ عنہ سے ایک روایت میں منقول ہے کہ :
"اس رات میں عبادت کیا کرو اوردن میں روزہ رکھا کرو،اس رات سورج غروب ہوتے ہی اللہ تعالیٰ اپنے بندوں کی طرف متوجہ ہوتے ہیں اور اعلان ہوتاہے کون ہے جو گناہوں کی بخشش کروائے؟ کون ہے جو رزق میں وسعت طلب کرے؟ کون مصیبت زدہ ہے جومصیبت سے چھٹکاراحاصل کرناچاہتاہو؟ ۔۔۔ یہاں تک کہ فجر طلوع ہوجاتی ہے۔”
ان احادیثِ کریمہ اورصحابہ کرام رضی اللہ عنہم اوربزرگانِ دین رحمہم اللہ کے عمل سے اس رات میں تین کام ثابت ہیں:
1- قبرستان جاکرمردوں کے لیے ایصالِ ثواب اورمغفرت کی دعا۔لیکن یادرہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے ساری حیاتِ مبارکہ میں صرف ایک مرتبہ شبِ برأت میں جنت البقیع جاناثابت ہے، اس لیے اگرکوئی شخص زندگی میں ایک مرتبہ بھی اتباعِ سنت کی نیت سے چلاجائے تو اجر و ثواب کاباعث ہے۔لیکن پھول پتیاں، چادر چڑھاوے، اور چراغاں کا اہتمام کرنا اور ہرسال جانے کو لازم سمجھنا اس کوشب برأت کے اعمال میں سمجھنا ، ٹھیک نہیں ہے۔جو چیزنبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے جس درجے میں ثابت ہے اس کواسی درجہ میں رکھنا چاہیے، اس کانام اتباع اوردین ہے۔
۲۔اس رات میں نوافل،تلاوت،ذکرواذکارکااہتمام کرنا۔ یہ واضح رہے کہ نفل عبادت میں تنہائی مطلوب ہے، یہ خلوت کی عبادت ہے، اس کے ذریعہ انسان اللہ کاقرب حاصل کرتاہے؛ لہذانوافل وغیرہ تنہائی میں اپنے گھرمیں اداکرکے اس موقع کوغنیمت جانیں۔نوافل کی جماعت اورمخصوص طریقہ اپنانادرست نہیں ہے۔ یہ فضیلت والی راتیں شوروشغب اورمیلے، اجتماع منعقدکرنے کی راتیں نہیں ہیں، بلکہ گوشۂ تنہائی میں بیٹھ کراللہ سے تعلقات استوارکرنے کے قیمتی لمحات ہیں، ان کوضائع ہونے سے بچائیں۔
3- شعبان کی پندرہ تاریخ کو دن میں روزہ رکھنابھی مستحب ہے، ایک تواس بارے میں حضرت علی رضی اللہ عنہ کی روایت ہے اور دوسرا یہ کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم عمومًا ہرماہ ایامِ بیض (۱۳،۱۴،۱۵) کے روزوں کااہتمام فرماتے تھے،لہذااس نیت سے روزہ رکھاجائے تو موجبِ اجر و ثوب ہوگا۔ نیز نبی کریم ﷺ شعبان المعظم کے مہینے میں کثرت سے روزے رکھتے تھے، لہٰذا اس مہینے میں جتنے ہوسکیں روزے رکھنے چاہییں، البتہ جس کا معمول روزے رکھنے کا نہ ہو اس کے لیے شعبان المعظم کے دوسرے نصف حصے میں روزے نہ رکھنا زیادہ بہتر ہے، خاص طور پر شعبان کی تیس تاریخ (یوم الشک) میں روزہ نہ رکھے، الا یہ کہ شعبان کی تیس تاریخ ایسے دن میں آجائے جس میں کسی کا روزے کا معمول ہو، مثلًا پیر یا جمعرات کا دن۔
باقی اس رات میں پٹاخے پھاڑنا،آتش بازی کرنا اورحلوے کی رسم کا اہتمام کرنا یہ سب خرافات اوراسراف میں شامل ہیں۔شیطان ان فضولیات میں انسان کو مشغول کرکے اللہ کی مغفرت اور عبادت سے محروم کردیناچاہتاہے اور یہی شیطان کااصل مقصدہے۔
*تازہ ترین خبروں اور تبصروں کیلئے ہمارا واٹس ایپ چینل فالو کیجئے*
https://whatsapp.com/channel/0029VaCmBaI84OmAfXL45G1k