شارع فیصل مقابلہ، نامزد پولیس اہلکاروں کے خلاف کوئی کارروائی نہیں کی گئی
کراچی میں شارع فیصل پر جعلی پولیس مقابلے میں رکشہ سوار نوجوان مقصود کے قتل کے مقدمے میں پولیس حکام کی مجرمانہ غفلت سامنے آئی ہے، پولیس ریکارڈ کے مطابق مقدمے میں نامزد تمام پولیس اہلکار ڈھائی ماہ سے ناصرف اپنے عہدوں پر کام کر رہے ہیں بلکہ ان کے خلاف تاحال کوئی محکمانہ کارروائی بھی نہیں کی گئی۔
شاہ لطیف ٹاؤن میں اسی نوعیت کے پولیس مقابلے میں چار افراد قتل کرنے کے مقدمے میں ضلع کے ایس ایس پی کے عہدے کے افسر سمیت 11 پولیس ملازمین گرفتار اور 13 فرار ہیں، عین اسی دن کراچی کے علاقے ڈیفنس میں ایک اور نوجوان کو فائرنگ کرکے قتل کرنے کے مقدمے میں اینٹی کار لفٹنگ سیل کے آٹھ پولیس افسران و اہلکار گرفتار اور ایک ضمانت پر ہے۔
اس مقدمے کی وجہ سے اینٹی کارلفٹنگ سیل کے ایس ایس پی کے عہدے کے افسر کو ہٹایا بھی جا چکا ہے،کراچی میں ان دو واقعات کے محض ایک ہفتے بعد مرکزی شاہراہ پر بہیمانہ طریقے سے شہری کو قتل اور کئی افراد کو زخمی کرنے والے پولیس افسر اور تین اہلکاروں کے خلاف کوئی کارروائی نہیں کی گئی۔
20 جنوری کو واقعہ کے ایک روز بعد ہی جعلی کارروائی قتل کئے گئے نوجوان مقصود کے بے گناہ ہونے کے حوالے سے خبریں آنا شروع ہوگئی تھیں۔
پولیس کی جانب سے تحقیقات بھی شروع کردی گئی تھیں مگر کراچی پولیس چیف یا متعلقہ ایس ایس پی کی جانب سے پولیس اہلکاروں کے خلاف کوئی کارروائی نہیں کی گئی۔
پولیس تحقیقات کے نتیجے میں مقتول کے والد شیر محمد کی جانب سے 18 فروری کو پولیس پارٹی کے انچارج اے ایس آئی طارق خان پولیس کانسٹبل اکبر خان، عبدالوحید اور شوکت علی کے خلاف شارع فیصل تھانے میں قتل کا مقدمہ درج کرلیا گیا مگر پولیس افسران کی جانب سے مقدمے میں نامزد پولیس اہلکاروں کے خلاف محکمانہ کارروائی شروع نہیں کی گئی، اہلکاروں کو معطل کیا گیا اور نہ ہی انہیں شوکاز جاری کیا گیا۔
پولیس ریکارڈ کے مطابق چاروں پولیس اہلکار تھانے میں ڈیوٹی دیتے رہے اور اس دوران انہیں مقدمے میں گرفتار نہیں کیا گیا بلکہ پیٹی بند بھائیوں کو ضمانت قبل از گرفتاری کرانے میں سہولت کاری دی گئی، بے گناہ شہری کی ہلاکت پر ایک طرف تو دو واقعات میں ایس ایس پی کے عہدے کے افسران کے خلاف کارروائی ہوئی دوسری طرف اس کیس میں دوسرے افسران کی طرح کے ذمہ دار ایس ایس پی ایسٹ سے اب تک پوچھا تک نہیں گیا۔
شاہراہ فیصل تھانے کے ایس ایچ او انجینئر علی حسن کے خلاف بھی کوئی کارروائی نہیں کی گئی، یہی نہیں مقدمے میں نامزد چاروں ملزم پولیس افسر اور اہلکار آخری اطلاعات تک اسی تھانے میں تعینات تھے، مرکزی ملزم طارق خان گلستان جوہر میں دارلصحت اسپتال کی پولیس چوکی کے انچارج کے طور پر کام کررہا ہے،ایس ایچ او شارع فیصل علی حسن نے بدھ کی رات گئے تصدیق کی کہ ملزم پولیس افسر اور اہلکاروں کی تعیناتی انہیں کے تھانے میں ہے اور یہ کہ آج کل ملزم اہلکار ڈیوٹی سے غیر حاضر ہیں۔
ایس ایس پی ایسٹ سمیع اللہ سومرو نے نمائندے سے بات چیت کرتے ہوئے بتایا کہ کسی الزام میں پولیس اہلکاروں کو عہدے سے ہٹانا ان کا نہیں بلکہ کیس کے تفتیشی افسر کا کام ہے۔
اس سلسلے میں ایڈیشنل آئی جی کراچی مشتاق مہر سے بات کی گئی تو انہوں نے کہا کہ جن دنوں یہ واقعہ پیش ہوا وہ چھٹی پر تھے،مشتاق مہر کے مطابق ان کی عدم موجودگی میں ملزمان کے خلاف کوئی محکمانہ کارروائی کی گئی یا نہیں اس بارے میں انہیں معلوم نہیں تاہم انہوں نے اس امر کی تائید کی کہ اس نیچر کے کیس میں ملزمان کے خلاف کارروائی ہوجانی چاہیے تھی۔