کراچی

سی ٹی ڈی کی رپورٹ میں سنسنی خیز انکشافات۔

دہشت گردوں کی جانب سے کراچی سینٹرل جیل کو توڑنے کا منصوبہ ناکام بناتے ہوئے سندھ حکومت نے انتہائی خطرناک قیدیوں کواندرون سندھ کی مختلف جیلوں میں منتقل کردیا اور جیل حکام کو سختی سے ہدایت کردی ہے کہ قیدیوں کی نقل وحرکت اور جیلوں کی تفصیلات سے متعلق کسی کو بھی آگاہ نہ کیا جائے۔

سندھ حکومت کے انتہائی ذمے دار ذرائع کے مطابق وفاقی انٹیلی جنس اداروں کے سندھ میں تعینات سربراہوں نے وزیراعلیٰ مراد علی شاہ کو خفیہ رپورٹ کے ذریعے آگاہ کیا تھا کہ کچھ گرفتار ملزمان نے انکشاف کیاہے کہ کراچی سینٹرل جیل کو توڑنے کا منصوبہ بنا لیا گیا ہے اور جہادی تنظیموں کے قید ملزمان کو فرار کرایا جائے گا۔

خفیہ اداروں کی رپورٹ کی روشنی میں وزیراعلیٰ نے بروقت کارروائی کرتے ہوئے آئی جی جیل خانہ جات کو حکم دیاہے کہ فوری طور پر جہادی اور خطرناک قیدیوں کو اندرون سندھ کی مختلف جیلوں میں منتقل کردیا جائے جس کے بعد گذشتہ ماہ28 جہادی اور خطرناک قیدوں کو سکھر، لاڑکانہ اور نارا جیل منتقل کردیا گیا۔

دوسری جانب کالعدم جماعت لشکر جھنگوی کے2ہائی پروفائل قیدیوں شیخ محمد ممتاز عرف فرعون اور محمد احمد خان عرف منا کے کراچی سینٹرل جیل سے فرار ہونے کے واقعے کی تحقیقاتی رپورٹ میں جیل میں سیکیورٹی کے ناقص انتظامات اور بدترین اندرونی صورت حال کے حوالے سے سنسنی خیز انکشافات سامنے آئے ہیں۔

مذکورہ رپورٹ کاؤنٹر ٹیررازم ڈپارٹمنٹ کے ایڈیشنل انسپکٹر جنرل ثنا اللہ عباسی نے آئی جی سندھ کو پیش کردی۔ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ تحقیقات میں یہ بات سامنے آئی ہے کہ کراچی سینٹرل جیل کا انتظام جیل انتظامیہ کے بجائے جہادی قیدی چلارہے ہیں ، جیل کے اسٹاف پر ان کی مرضی چلتی ہے اور جیل کا اسٹاف خوف یا نااہلی کے باعث ان قیدیوں کی ہدایات پر عمل کرتا ہے نتیجاً جیل کے قیدی ہی کورٹ کلرک اور مددگار بنے ہوئے ہیں اور وہ ہی جیل کے وارڈز اور کھولیوںکو کھولنے کا انتظام سنبھالتے ہیں، انہی جہادیوں نے خود کو وارڈز کا ذمے دار بنایا ہوا ہے ، ایسے قیدیوں نے جیل کے اندر خفیہ طور پر سہولتیں حاصل کر رکھی ہیں، ایسے قیدی جہادی قیدی حافظ رشید اور سرمد صدیقی اور ایم کیو ایم کے منہاج قاضی کی طرح جیل کے ڈان بنے ہوئے ہیں اور وہ جیل کے باہر اپنے نیٹ ورک کو کنٹرول کرتے ہیں۔

رپورٹ میں یہ بھی انکشاف کیا گیاہے کہ کراچی سینٹرل جیل کے قیدی اپنے کورٹ پروڈکشن آرڈر بھی خود ہی ایک دوسرے کو پہنچاتے ہیں، حتیٰ کہ قیدیوں سے ملنے کے لیے آنے والے ملاقاتیوں کا انتظام بھی قیدیوں کے ہاتھ میں ہوتا ہے۔ رپورٹ میں کہا گیاہے کہ جیل اسٹاف کو جہادی قیدیوں کی جانب سے مسلسل دھمکیاں ملتی رہتی ہیں، حافظ قاسم رشید جیسے قیدیوں کو کئی مرتبہ سرعام یہ کہتے ہوئے سنا گیاہے کہ وہ آئی جی جیل خانہ جات کے بھائی کے قتل کے ذمے دار ہیں اور وہ کسی بھی جیل اسٹاف کو باآسانی قتل کراسکتے ہیں، اس وجہ سے جیل کا اسٹاف مکمل طور پر دباؤ میں ہے اور ان کا جہادی قیدیوں پر حکم نہیں چلتا۔

رپورٹ میں جیل میں سیکیورٹی کے ناقص انتظامات کے حوالے سے کہا گیا ہے کہ جیل کے ساتھ زیرتعمیر جوڈیشل کمپلیکس پر کئی ٹھیکے دار کام کر رہے ہیں، اس سلسلے میں مضبوط شواہد ملے ہیں کہ فرار ہونے والے قیدی باہر کے سہولت کاروں کی مدد سے جیل توڑ کر فرار ہوئے جو مزدوروںکے روپ میں آئے ہوںگے کیونکہ جوڈیشل کمپلیکس کے ٹھیکے دار سیکیورٹی اقدامات پر عملدرآمد نہیں کرتے اور ڈیلی ویجز پرکام کرنے والے مزدوروں کو چیک نہیں کیا جاتا۔ فرار ہونے والے قیدیوں اور ان کے سہولت کاروں نے سیکیورٹی کی ایسی صورت حال سے فائدہ اٹھایا ہوگا۔

رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ اگرچہ جیل کے 15 افسران واہلکاروں کو گرفتار کیا گیا ہے لیکن جیل میں کئی ایسے مشتبہ قیدی موجود ہیں جن پر شک ہے کہ انھوں نے فرار ہونے والے قیدیوں کے فرار میں مددکی۔ دوسری جانب موقع سے فائدہ اٹھاتے ہوئے ایک اور ایڈیشنل آئی جی پولیس آفتاب پٹھان نے جیل کے معاملات کو ہی ٹیک اوور کرنے کا منصوبہ بنالیا اور محکمہ داخلہ کو ایک خط تحریر کرتے ہوئے مطالبہ کیاہے کہ جیل کے ڈی آئی جیز اور جیلرز کا تبادلہ کرکے ان کی جگہ پاکستان پولیس سروس (پی ایس پی) کے افسران کو تعینات کیا جائے۔

ایکسپریس سے بات چیت کرتے ہوئے سیکریٹری داخلہ سندھ قاضی شاہد پرویز نے بتایا کہ اپیکس کمیٹی کے فیصلے کی روشنی میں آئی ایس آئی اور کاؤنٹر ٹیررازم ڈپارٹمنٹ (سی ٹی ڈی) کی جانب سے فراہم کردہ فہرست کے مطابق تمام ہائی پروفائل قیدیوں کو مختلف جیلوں میں منتقل کردیا گیا ہے جبکہ سزا یافتہ خطرناک دہشت گردوں اور قتل کی وارداتوں میں ملوث قیدیوں کو بھی کراچی سینٹرل جیل سے اندرون سندھ کی مختلف جیلوں میںمنتقل کیا گیا ہے ۔

ایک سوال پر سیکریٹری داخلہ نے کہا کہ جیل انتظامیہ کی درخواست پر جیل میں منشیات، موبائل فونز اور دیگر مختلف اشیاکی موجودگی کی اطلاع پر رینجرز، جیل انتظامیہ اور پولیس کا مشترکہ آپریشن کرکے تمام اشیا قبضے میں لے لی گئی ہیں اورملوث جیل اہلکاروں کے خلاف مقدمات بھی درج کرلیے گئے ہیں۔ وزیر جیل ضیالنجار مستقل بنیادوں پر سرپرائز دورے بھی کر رہے ہیں تاکہ انتظامیہ مزید چوکنا رہتے ہوئے منفی سرگرمیوں پر گہری نظر رکھے۔

قاضی شاہد پرویز نے بتایا کہ ایڈیشنل آئی جی پولیس آفتاب پٹھان کی جانب سے جیل افسران کے بجائے پی ایس پی (پاکستان پولیس سروس) کے افسران تعینات کرنے کی تجویز وزیرداخلہ سندھ نے مسترد کرتے ہوئے واضح کردیاہے کہ آئی جی پولیس آفتاب پٹھان نے اپنے اختیارات سے تجاوز کیا، انھیں صرف ڈی ایس پی زاہد حسین کی انکوائری کا مینڈیٹ دیا گیا تھا لیکن انھوں نے اپنے مینڈیٹ سے تجاوز کیااور زاہد حسین کے بجائے جیل ایڈمنسٹریشن کے حوالے سے تجاویز ارسال کردیں جس کا انھیں اختیار ہی حاصل نہیں تھا۔

ایک سوال پر انھوں نے کہا کہ جیل میں افسران کی کمی کو دور کرنے کے لیے پبلک سروس کمیشن سے درخواست کردی ہے تاکہ جلد از جلد بھرتیوں کا عمل مکمل ہوسکے۔ انھوں نے کہا کہ قیدیوں کو عدالتوں تک لے جانے کے لیے پولیس وینز کی فراہمی پولیس کی ذمے داری ہے اور 85 فیصد معاملات ٹھیک چل رہے ہیں کچھ کمی ہے جسے جلد پورا کردیا جائے گا۔

گنجائش سے زیادہ قیدی، کم عملے کی وجہ سے مشکلات

آئی جی جیل خانہ جات نصرت منگن نے کہا ہے کہ جیل انتظامیہ اور رینجرز کے مشترکہ سرچ آپریشن کے دوران سینٹرل جیل کراچی سے منشیات اور موبائل فونز برآمد کیے گئے ہیں ۔ نمائندہ ایکسپریس سے بات چیت کرتے ہوئے نصرت منگن نے کہا کہ جیلوں میں گنجائش سے زیادہ قیدی موجود ہیں جبکہ مطلوبہ جیل عملہ بھی دستیاب نہیں، اس لیے جیل انتظامیہ کو شدید مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔

ایک سوال کے جواب میں انھوں نے کہا کہ مختلف قیدی جب پیشی کے موقع پر باہر نکلتے ہیں تو مختلف طریقوں سے موبائل فونز اور منشیات حاصل کرنے میں کامیاب ہوجاتے ہیں جس کی بیخ کنی کے لیے بھرپور اقدامات بھی کیے جاتے ہیں ۔ رینجرز کے ذریعے حالیہ سرچ آپریشن بھی جیل انتظامیہ نے خود خط لکھ کر کرایا تھا چونکہ جیل انتظامیہ کو شک ہوگیا تھا کہ قیدیوں کے پاس منشیات اور موبائل فون موجود ہیں اس لیے رینجرز کی بھاری نفری کے ساتھ مل کر آپریشن کے بعد منشیات اور موبائل فون ضبط کیے گئے۔

آئی جی جیل نے مزید بتایا کہ دنیا بھر بشمول امریکا اور برطانیہ کے جیلوں میں بھی قیدی جیلوں میں منشیات اور موبائل فون حاصل کرنے میں کامیاب ہوجاتے ہیں اور لندن کے حالیہ دورے کے موقع پر بریفنگ میں بتایا گیا تھا کہ قیدی جیلوں کے اندر منشیات اور موبائل فون نہ جانے کس طرح حاصل کرنے میںکامیاب ہوجاتے ہیں ۔ نصرت منگن نے ایک سوال کے جواب میں بتایا کہ جیلوں کو محفوظ بنانے کے لیے سیکیورٹی انتظامات میں اضافہ کردیا گیا ہے جبکہ کراچی سینٹرل جیل سے ہائی پروفائل ، خطرناک اور سزا یافتہ قیدیوں کو بھی بتدریج مختلف جیلوں میں منتقل کیا جاچکا ہے ۔

سندھ میں25 جیل ہیں، مزید4نئی جیل زیرتعمیر

صوبہ سندھ میں اس وقت25 جیل ہیں تاہم جیلوں میں گنجائش سے زیادہ قیدیوں کا مسئلہ حل کرنے کے لیے مزید4نئی جیل زیرتعمیر ہیں، موجودہ جیلوں میں5سینٹرل جیل، 11 ڈسٹرکٹ جیل، 4 ویمن جیل، 4کم عمر قیدیوں کے جیل اور اوپن جیل شامل ہیں، اوپن جیل بدین میں واقع ہے جسے2012 میں دوبارہ کھولا گیا تھا تاہم اس وقت مذکورہ جیل میں کوئی بھی قیدی نہیں ہے۔ زیرتعمیر ڈسٹرکٹ جیل ٹھٹھہ میں250 قیدیوں کی گنجائش ہوگی، میرپورخاص اور ضلع شہید بے نظیر آباد میں500،500 قیدیوں کی گنجائش رکھنے والے2ڈسٹرکٹ جیل اور ملیر کراچی میں نئے ڈسٹرکٹ جیل کی تعمیر شامل ہے۔

ہائی پروفائل قیدیوں کو صوبے کی3 جیلوں میں رکھا گیا ہے جن میں373 جہادی اور108ٹارگٹ کلرز شامل ہیں، ہائی پروفائل قیدیوںکی بڑی تعداد سینٹرل جیل کراچی میں ہے جن میں286 جہادی اور80 ٹارگٹ کلرز شامل ہیں، ان میں58 جہادی اور11 ٹارگٹ کلر سزا یافتہ ہیں، سینٹرل جیل حیدرآباد میں42 جہادی اور 14 ٹارگٹ کلرز جبکہ سینٹرل جیل سکھر میں45 جہادی اور14ٹارگٹ کلرز کو رکھا گیاہے۔

جیلوں کی سیکیورٹی کی سب سے زیادہ ذمے داری ایف سی کی ہے جبکہ رینجرز اور پولیس کے اہلکار بھی جیلوں کی سیکیورٹی کے فرائض انجام دے رہے ہیں، سینٹرل جیل کراچی میں ایف سی کی 4 پلاٹون پر مشتمل 106 اہلکار، حیدرآباد میں3 پلاٹون پر مشتمل124 اہلکار اور سکھر سینٹرل جیل میں ایف سی کے113 اہلکار تعینات ہیں، مجموعی طور پر صوبہ سندھ کی جیلوں کی سیکیورٹی کے لیے ایف سی کے17 پلاٹون پر مشتمل529 اہلکار تعینات ہیں جبکہ پولیس کے272 اہکار اور رینجرزکے108 اہلکار جیلوں کی سیکیورٹی پر مامور ہیں۔

جیلوں کی سیکیورٹی کے لیے رینجرز کی ایک بکتربند گاڑی اور4موبائل وین اور پولیس کی3موبائل گاڑیاں بھی زیر استعمال ہیں۔ صوبے کی جیلوں میں اسٹاف کی منظور شدہ تعداد5262 ہے جبکہ موجودہ اسٹاف کی تعداد3963 ہے، 1301 اسامیاں خالی ہیں جن میں انتظامی افسران، سیکیورٹی اسٹاف، میڈیکل اسٹاف اور ٹیچنگ اسٹاف کی اسامیاں شامل ہیں، انتظامی اسامیوں میں خواتین اور مرد اسسٹنٹ سپرنٹنڈنٹ، ڈپٹی سپرنٹنڈنٹ، پی آر او، لائن آفیسرز اور دیگر اسامیاں شامل ہیں جبکہ سیکیورٹی اسٹاف کی اسامیوں میں اسسٹنٹ سب انسپکٹرز ، لیڈی اسسٹنٹ سب انسپکٹرز، ہیڈ کانسٹیبل، لیڈی ہیڈ کانسٹیبل، خواتین اور مرد کانسٹیبل شامل ہیں، میڈیکل اسٹاف کی اسامیوں میں خواتین اور مرد میڈیکل آفیسرز شامل ہیں، جبکہ ٹیچنگ اسٹاف میں مرد اور خواتین اساتذہ و لیکچرارز کی اسامیاں شامل ہیں۔

اسٹاف کے علاوہ جیلوں میں قیدیوں کو عدالتوں تک لے جانے کے لیے درکار گاڑیوںکی کمی کا مسئلہ بھی درپیش ہے، مجموعی طور تمام جیلوں میں قیدیوں کے لیے118گاڑیوں کی ضرورت ہے جبکہ 82گاڑیاں دستیاب ہیں، اس طرح36گاڑیاںکم ہیں۔ سال2009سے اگست2016 تک صرف 18قیدیوں کو پھانسی دی گئی جبکہ473 قیدیوں کو پھانسی کی سزا پر عمل درآمد رکا ہوا ہے، ان میں446 قیدیوں کی پھانسی کی سزا پر عملدرآمد نہ ہونے کا سبب ان کی جانب سے ہائی کورٹ اور سپریم کورٹ میں دائراپیلیں ہیں، جبکہ8 قیدیوں نے پھانسی کی سزاؤں کے خلاف جی ایچ کیو میں اپیلیں دائر کررکھی ہیں، جی ایچ کیو نے2 قیدیوں کی اپیلیں مسترد کردی ہیں، پھانسی کے 6قیدیوں کی اپیلیں نیول ہیڈکوارٹرز میں زیرالتوا ہیں جبکہ4قیدیوں نے صدرمملکت کو رحم کی اپیل کررکھی ہے۔

اگست2016 تک 18قیدیوںکو پھانسی دی گئی ان میں سینٹرل جیل کراچی میں10، حیدرآباد میں2، سکھر میں5 اور سینٹرل جیل لاڑکانہ میں ایک قیدی شامل ہے۔ سال2011 سے 2015 تک 5 سال کے دوران صوبے کی مختلف جیلوں سے2980 قیدیوں کو پے رول اور پروبیشن پر رہا کیا گیا جن میں797 قیدیوں کو2011 میں آزاد کیا گیا جبکہ2012میں627 قیدی، 2013 میں459 قیدی، 2014 میں484 قیدی اور سال2015 میں613 قیدی پے رول اور پروبیشن پر رہا کیے گئے۔

30 سال میں سندھ کی جیلوں سے 42 قیدی فرار ہوچکے

گزشتہ 30 سال میں سندھ کی جیلوں سے 42 قیدی فرار ہوچکے ہیں۔ سرکاری سطح پر حاصل کی جانے والی رپورٹ کے مطابق سندھ کی جیلوں میں ہنگامہ آرائی کے دوران 24 افراد ہلاک بھی ہوئے ہیں ۔ قیدیوں کے فرار اور ہنگامہ آرائی کے وقت جیلوں میں پی ایس پی افسران آئی جی کی حیثیت سے فرائض انجام دے رہے تھے ۔ نمائندہ ایکسپریس کی جانب سے حاصل دستاویزات کے مطابق 23 مارچ 1986 کو سکھر جیل سے 34 قیدی فرار ہوئے جبکہ جیکب آباد جیل سے 2 اور حیدرآباد جیل سے ایک قیدی فرار ہوا۔

رپورٹ کے مطابق ایک مرتبہ پھر 1996 اور 2007 میں سکھر جیل سے 6 قیدی فرار ہونے میں کامیاب ہوئے ۔ رپورٹ کے مطابق 2011 ء میں سینٹرل جیل حیدرآباد میں ہنگامہ آرائی کے دوران 7 قیدی ہلاک اور 50 قیدی زخمی بھی ہوئے ۔ سرکاری اعداد و شمار کے مطابق 1989 کے دوران حیدرآباد جیل میں ہنگامہ آرائی کے دوران 13 افراد ہلاک ہوئے ۔ 2008 میں ملیر جیل میں ہنگامہ آرائی کے دوران 4 افراد ہلاک ہوئے۔

مذکورہ مدت کے درمیان جیلوں کا نظم و نسق پی ایس پی (پولیس سروسز پاکستان ) کے افسران غلام قادر تھیبو ، رضا حسین ، یامین خان ، افتخار احمد اور سہیل درانی آئی جی جیل کی حیثیت سے سنھبالے ہوئے تھے ۔ ایک بار پھر پی ایس پی افسران جیل کا کنٹرول سنبھالنے کے لیے سرگرم ہوگئے ہیں اور آئی جی سندھ آفتاب پٹھان کا خط اسی سلسلے کی کڑی ہے ۔یاد رہے کہ گذشتہ5 سال کے دوران اس طرح کا کوئی بھی واقعہ رونما نہیں ہوا۔

رواں سال سینٹرل اور ملیر ڈسٹرکٹ جیل میں 18قیدی پراسرار طور پر ہلاک ہوئے

رواں سال سینٹرل اور ملیر ڈسٹرکٹ جیل میں سرکاری افسر ، پولیس انسپکٹر و اہلکار اور متحدہ قومی موومنٹ کے 2 کارکنان سمیت 18قیدی پراسرار طور پر ہلاک ہوئے۔ سرکاری اعداد و شمار کے مطابق 11جنوری کو ملیر ڈسٹرکٹ جیل میں پرسرار طور پر قیدی نور بنگالی ہلاک ہوا ، 17جنوری کو سینٹرل جیل میں ایم کیو ایم کا کارکن شیخ امیر عرف میرو پرسرار طورپر دل کا دورہ پڑنے سے ہلاک ہوا۔

20 جنوری کو ملیرڈسٹرکٹ جیل کا قیدی یاسر شفیع ہلا ک ہوا ، 24 جنوری کو سینٹرل جیل میں قید قیدی منظور سول اسپتال میں دوران علاج ہلا ک ہوگیا تھا جبکہ 28جنوری کو سینٹرل جیل کاقیدی شیر محمد اسپتا ل میں دم دوران علاج دم توڑ گیا تھا، 19مارچ کو سینٹرل جیل کا قیدی گلزار سول اسپتال میں دوران علاج ہلاک ہوگیا تھا پولیس کا کہنا تھا کہ گلزار کو بھی دل کادورہ پڑا تھا،3اپریل کو سینٹرل جیل میں کرپشن کے الزام میں قید قیدی کے ڈی اے کے سابق ڈائریکٹر ریکوری عبدالقوی ہلاک ہوگئے تھے ، 4اپریل کو سینٹرل جیل کا قیدی سعید محمد خان سول اسپتال میں ہلاک ہوا جبکہ اس ہی روز ملیر ڈسٹرکٹ جیل میں قیدی نعمان ہلاک ہوگیاتھا۔

23 اپریل کو ملیر ڈسٹرکٹ جیل کا قیدی دل مراد شاہ سول اسپتال میں دوران علاج دم توڑ گیاجبکہ 30اپریل کو سینٹرل جیل کا قیدی اظہر حسین سول اسپتال میں ہلاک ہوا تھا،4 مئی کو سینٹرل جیل مین قید ایم کیو ایم کا کارکن حسین گھانچی پراسرار طور ہلاک ہوا تھا ،16مئی کو سینٹرل جیل کا قیدی اور لیاری گینگ وار کا کار ندہ ایاز بلوچ پراسرار طور پر ہلاک ہوا۔

17مئی کو سینٹرل جیل کا قیدی ضمیر بھٹو پراسرار طور ہلاک ہوا تھا،12جون کو نارکوٹکس کورٹ میں ملیر ڈسٹرکٹ جیل کا قیدی ساجد حشمت کو دل دورہ پڑا تھا جس کو امراض قلب اسپتال میں طبی امداد کے لئے لایا گیا تاہم وہ دوران علاج چل بسا تھا، متوفی قیدی کو ائیر پورٹ سے فروری 2014کو منشیات اسمگل کرنے کے الزام میں گرفتار کیا گیا تھا۔

6 اکتوبر کو سینٹرل جیل کا قیدی محمد یاسین اور8اکتوبر کو ملیر ڈسٹرکٹ جیل کا قیدی جیل پولیس کا معطل اہلکار نواب سول اسپتال میں دوران علاج ہلاک ہوئے ،8نومبر کو سینٹرل جیل کے دو قیدی آزاد خان شاہد دوران علاج سول اسپتال میں ہلاک ہواتھا جبکہ 14نومبر کو سینٹرل جیل میں سزائے موت کا قیدی انسپکٹر ملک ارشاد جیل میں پراسرار طور پر دل کا دورہ پڑنے سے ہلاک ہوگیاتھا ، متوفی اینٹی کار لفٹنگ سیل کا سابق ایس ایچ او تھا اور اس پر الزام عائد تھا کہ جعلی مقابلے میں شہری کو قتل کیا۔

سندھ میں خواتین اور جووینائل قیدیوں کی تعداد 400 سے تجاوز

سندھ میں عورتوں اور 18 سال سے کم عمر نوجوانوں میں جرائم کی شرح میں تیزی سے اضافہ ہورہا ہے، سال 2017 کے آخر تک صوبہ میں خواتین اور جووینائل قیدیوں کی تعداد 400 سے تجاوز کرگئی ہے جبکہ مختلف تھانوں میں گرفتار اور زیر تفتیش عورتوں اور کم عمر نوجوانوں کی تعداد بھی درجنوں میں بتائی جاتی ہے۔

سرکاری اعداد و شمار کے مطابق 14 دسمبر تک سندھ میں خواتین قیدیوں کی تعداد 222 ہوچکی ہے، جبکہ 4 جووینائل جیلوں میں کم عمر قیدیوں کی تعداد 181 ہوگئی ہے، جیلوں میں قید خواتین میں مائیں بھی شامل ہیں جن کی وجہ سے 37 معصوم بچے بھی بے گناہ قید کاٹ رہے ہیں۔ مجموعی طور پر قیدی عورتوں میں سزا یافتہ خواتین کی تعداد 49 ہے جبکہ کم عمر (جووینائل) قیدیوں میں سزا یافتہ نوجوان لڑکوں کی تعداد 13 ہے۔

مختلف کیسوں میں جیلوں میں قید خواتین اور کم عمر نوجوانوں کی اکثریت کا تعلق کراچی سے ہے، کراچی میں عورتوں کی سینٹرل جیل میں 126 عورتیں قید ہیں،حیدرآباد میں 57، سکھر میں 11 اور لاڑکانہ میں واقع عورتوں کی جیل میں خواتین قیدیوں کی تعداد 28 ہے۔ کراچی میں کم عمر قیدیوں کے لیے قائم جیل میں قیدی لڑکوں کی تعداد 140 ، حیدرآباد میں 14، لاڑکانہ میں 6 اور سکھر میں 21 ہے۔ خواتین قیدیوں کی اکثریت کا تعلق کراچی سے ہونے کے باعث بے گناہ قید کاٹنے والے ان معصوم بچوں کی بڑی تعداد کا تعلق بھی کراچی سے ہے۔

ماؤں کے ساتھ جیلوں میں قید معصوم بچوں میں 22 بچے کراچی وومین جیل میں ہیں جبکہ 10 بچے وومین جیل حیدرآباد اور 5 بچے لاڑکانہ کی خواتین جیل میں مقیم ہیں، سکھر میں قید عورتوں میں ایک بھی ایسی ماں نہیں جس کا کوئی معصوم بچہ ہو۔ اعداد وشمار کے مطابق مجموعی طور پر سندھ کی مختلف جیلوں میں قیدیوں کی تعداد 18 ہزار 899 ہے، جن میں 14 ہزار 410 قیدی مختلف کیسوں میں سزا یافتہ ہیں جبکہ 390 ایسے قیدی ہیں جنھیں مختلف وجوہ کی بنا پر نظربند کیا گیا ہے، قیدیوں کی مجموعی تعداد میں تقریباً 10 ہزار قیدی کراچی کی دوجیلوں میں قید ہیں۔ ہمیشہ کی طرح صوبہ سندھ کی جیلوں میں گنجائش سے زیادہ قیدی رکھنے کا مسئلہ تاحال جیلوں کی انتظامیہ کودرپیش ہے۔
موجودہ اعداد وشمار کے مطابق سینٹرل جیل کراچی میں قیدیوں کی گنجائش 2400 ہے لیکن جیل میں 4 ہزار 954 قیدیوں کو رکھا گیا ہے، اسی طرح کل1500 قیدیوں کی گنجائش رکھنے والے ڈسٹرکٹ جیل ملیر میں قیدیوں کی موجودہ تعداد 4 ہزار 785 ہے، سینٹرل جیل حیدرآباد میں کل گنجائش 1527 ہے جبکہ وہاں قیدیوں کی تعداد 2297 ہے، نارا جیل میں قیدی رکھنے کی گنجائش ہے 300 ہے جبکہ جیل میں 413 قیدیوں کو رکھا گیا ہے، سینٹرل جیل لاڑکانہ میں کل قیدی رکھنے کی گنجائش 650 ہے جبکہ وہاں قیدیوں کی موجودہ تعداد ایک ہزار سے زیادہ ہے۔

حیرت انگیز طور پر صوبہ سندھ کی دو سینٹرل جیلوں میں قیدیوں کی تعداد گنجائش سے کافی کم ہے، صوبہ کی دوسری بڑی جیل سینٹرل جیل سکھر میں کل 16 سو 66 قیدی رکھنے کی گنجائش ہے جبکہ وہاں قیدیوں کی موجودہ تعداد 13 سو 72 ہے، اسی طرح سینٹرل جیل خیرپور میں کل قیدی رکھنے کی گنجائش 1175 ہے جبکہ جیل میں اس وقت صرف 844 قیدی ہیں۔

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button