سیاست میں آصف علی زرداری کی دبنگ آمد
کالم :- ( منور علی شاہد بیورو چیف جرمنی)
موجودہ آئینی مدت کا آخری سال شروع ہو چکا ہے اور اس کا آغاز انتہائی ڈرامائی اور سنسنی خیز خبروں اور فیصلوں سے ہوا ہے گزشتہ چار سالوں میں پاکستان پیپلز پارٹی پارلیمنٹیرین کے صدر آصف علی زرداری معمول کی سیاست کرتے رہے ہیں اس دوران بلاول بھٹو کبھی کبھی ایسے بیان دیا کرتے تھے جس کی وجہ سے مسلم لیگ ن کے چھوٹے چھوٹے شیر بھی دھاڑ لیا کرتے تھے لیکن اچانک ہی سیاست کے سمندر میں کچھ ایسی ہلچل مچی ہے کہ ایسا لگتا ہے کہ انتخابات کا زمانہ آگیا ہے اس سے پہلے عمران خان چار سال سے شیر سے چھیڑ چھاڑ جاری رکھے ہوئے تھے اور اس حد تک شیر کو تنگ کیا کہ لوگوں کے دلوں سے شیر کا خوف ہی جاتا رہا اور اب پاناما کیس کا فیصلہ رہی سہی کسر نکال دے گا کہاوت ہے کہ وقت ایک سا نہیں رہتا لگتا یہی ہے کہ اب شاید میاں جی کا وقت بھی نہیں رہا کیونکہ یکے بعد دیگرے متعدد عدالتوں کے فیصلوں اور آصف علی زرداری کے بیانات سے سیاسی پنڈت اور ویلے سیاست کے شوقین مزاج اپنے اپنے طوطوں کے ذریعے سیاسی فالیں نکالنے لگے ہیں اور ہر کوئی عدالتی فیصلوں کے پیچھے ایک عالمی سازش اور خفیہ ہاتھوں کو دیکھنے لگا ہے کہ ہو نہ ہو یہ سب ایک سلسلہ کی کڑیاں ہیں خاص طور پر تین اہم ترین مقدمات میں فوری فیصلوں اور ضمانتوں کو انتہائی معنی خیز اور سیاسی تبدیلی کے تناظر میں دیکھا جا رہا ہے ایان علی کو کیا رہائی ملی کہ سب کے بھاگ جاگ گئے اور برسوں سے سوئی کی قسمت جاگ گئی ۔ منی لانڈرنگ اور کرنسی اسمگلنگ میں عالمی شہرت حاصل کرنے والی ماڈل جو کئی اداروں کے مابین شٹل کاک بنی ہوئی تھیں کی ضمانت منظور ہوئی اور ان کو بیرون ملک سفرکی اجازت ملی ان کی ضمانت بھی سیاست کی نذر تھی کیونکہ اس کے ایک ملتے جلتے کیس میں ایک تھائی خاتون کی ڈیڑھ لاکھ ڈالر اسمگلنگ کے کیس میں تیسری پیشی پر ہی رہائی ہو گئی تھی لیکن ایان علی کا کیس چار ماہ اور بارہ پیشیوں کے بعد عدالت میں پیش ہوا تھا کیس کو لٹکانے کے بہانوں کی کوئی کمی نہیں ہوتی خاص طور پر اس کا جو ایک خاتون ماڈل ہو اور اس کا تعلق ایک انتہائی اہم سیاسی شخصیت سے بھی جوڑا جاتا ہو سپریم کورٹ اور ہائی کورٹ کی طرف سے بیرون ملک سفر کی اجازت ملنے کے باوجود وفاقی وزیر داخلہ کی ایما پر اس کو ائیرپورٹ پر روک لیا گیا تھا اور اس کو بھی راولپنڈی کی کسٹم کلکٹر کی عدالت نے پانچ کروڑ روپے کی سزا سنائی تھی اور اس کو پانچ ماہ سے زائد جیل میں رہنا پڑا تھا اس کو رہائی ملی تو مولانا حامد کاظمی کی بھی ضمانت ہو گئی اور ان کو تو سب بھول ہی چکے تھے لیکن ڈرامائی طور پر سپریم کورٹ کی طرف سے فیصلہ کے بعد رہائی ملی شاید ابھی تک خود مولانا کو بھی یقین نہیں آ رہا ہو گا کہ یہ اچانک کیسے ممکن ہوا سعید کاظمی صاحب سابق وفاقی مذہبی امور کے وزیر مملکت تھے ان کو2010 میں حج کے انتظامات کے دوران مالی معاملات میں کرپشن کرنے پربارہ سال قید اور پندرہ کروڑ روپے جرمانے کی سزا دی گئی تھی۔ شرجیل انعام میمن جو پی پی پی کے سینئر راہنما ہیں کچھ عرصہ سے نیب کو مطلوب تھے اوربیرون پاکستان مقیم تھے اچانک ہی اسلام آباد پہنچے نیب کا ہاتھوں اسلام آباد ائیرپورٹ پر گرفتاری اور پھر رہائی ہوئی اور بعد ازاں کراچی میں رینجرز کی طرف سے حیرت انگیز پروٹوکول پر سب ہی محو حیرت ہیں کہ یہ سب کچھ کیا ہے۔ حیرانی اور تشویش یہیں تک ختم نہیں ہوئی ابھی جاری ہے ڈاکٹر عاصم کے کیس کو لیں ان کو اگست2015 میں گرفتار کیا گیا تھا ان پر چار سو باسٹھ بلین روپے کی کرپشن کے الزامات تھے اور تفتیش کے دوران شدید ذہنی دباو اور مختلف قسم کے تناو کا شکار تھے ان پر بھی عدلیہ کی کرپا ہوگئی اور وہ بھی اب باہر ہیں اور ان کو آصف علی زرداری کا انتہائی اہم قریبی دوست تصور کیا جاتا ہے اور یہ غلط بھی نہیں ہے ڈاکٹر عاسم دوران اسیری مسلسل میڈیا کی خبروں میں رہے ہیں یہ تینوں اہم کیسوں کا پی پی پی سے تعلق تھا جو وقفے وقفے سے اپنے انجام کو پہنچے اور اس کو محض اتفاق نہیں کہا جا سکتا کہ ان سب کیسوں میں وقت کو اہمیت حاصل ہے ۔ اس وقت پاکستان کی سیاست اور حکومت کا محور پنجاب ہے پنجاب پر حکومت کرنے والا ہی وفاق میں حکومت بناتا ہے بھلے وہ مہینوں بعد ہی لگی جائے پنجاب کئی دہائیوں سے مسلم لیگ ن کے قبضے میں ہے اور کوئی سیاسی جماعت اس کو ہلا نہیں سکی تھی لیکن تحریک انصاف نے عمران خان کی قیادت میں مسلم لیگ ن کو دھڑنوں کے ذریعے کئی ماہ تک تگنی کا ناچ نچائے رکھا اور کرپشن کے الزامات میں اس قدر ننگا کردیا اور ان کی پاناما کیس کے دوران مسلسل الزامات اور کاروائیوں کو پریس کانفرنسوں کے ذریعے نہ صرف نواز شریف کے ووٹ بنک کو کم کرنے اور عوامی رائے کو بدلنے کی کوشش کی ہے ۔ یہ درست ہے کہ عمران خان کی وجہ سے وفاق میں مسلم لیگ ن کی سیاسی ساکھ بہت خراب ہوئی ہے اور اس کے ساتھ ساتھ وزیر داخلہ کا نام بھی لیا جا تا ہے لیکن اس کے باوجود یہ اہم سوال اپنی جگہ پر موجود ہے کہ کیا مسلم لیگ ن کے ہاتھ سے پنجاب نکل جائے گا ۔۔ اس حوالے سے میرا خیال ہے کہ کم از کم اگلے الیکشن میں تو ممکن نہیں لگتا۔ اور اس کی وجہ شہباز شریف ہے اور یہی دونوں بھائیوں کی حکمت عملی رہی ہے کہ پنجاب کو ہاتھ میں رکھو اور محترمہ نینظیر بھٹو کے دور میں نواز شریف نے پنجاب کارڈ ہی استعمال کرکے بی بی کی حکومت کو ختم کرایا تھا اس سیاسی پس منظر کی روشنی میں پنجاب مسلم لیگ ن سے اسی وقت ہی چھینا جا سکتا ہے اگراسٹیبلیشمنٹ طے کرلے کہ بس اب پنجاب میں کوئی اور حکومت کرے گا۔ موجودہ آرمی چیف نے 23 کو اپنی تقریر میں سب کا پاکستان کا جو نیا تصور پیش کیا ہے اس کی تکمیل کے لئے پنجاب سے شیر کو نکالنا ہو گا۔پاکستان پیپلز پارٹی کے شریک چئیرمین آصف علی زرداری نے ان حالات میں مسلم لیگ ن آخری دھکا لگانے خود پنجاب پہنچ گئے اور لاہور میں پہنچ کرمتعدد جارحانہ بیانوں سے اپنے سیاسی دوستوں کو واضع اور کھلے کھلے پیغام دیئے اور برملا کہا کہ اب مزید مفاہمی سیاست نہیں ہوگی انہوں نے واشگاف الفاظوں میں کہا ہے کہ میں ، بلاول اور بے نظیر کی بیٹیاں مقابلے کے لئے میدان میں اتریں ہیں، مخالفین کو بتائیں کہ الیکشن کیا ہوتا ہے۔ لاہور میں عزیزالراحمن کی رہائش گاہ پر خطاب کرتے ہوئے آصف علی زرداری نے کہا تھا کہ پچھلے لیکشن میں ہمارے ہاتھوں میں ہتھکڑیاں تھیں جو اب اتر چکی ہیں اس بیان کے کئی مطلب ہیں ۔ان حالات و واقعات کے تناظر میں پاناما کیس انتہائی اہمیت اختیار کر چکا ہے گو کہ فیصلہ ابھی تک نہیں آیا لیکن اتنی زیادہ تاخیر سے گومگوں ایسی کیفیت جنم لے چکی ہے جس کو اور اس کی سماعتوں سے چڑیا اور طوطوں سے فالیں نکالنے والے سیاسی پنڈت ملی بھگت کا نام دے رہے ہیں یہ بات تو طے ہے کہ پاناما کیس کے بعد سیاسی صورتحال بلکل بدل جائے گی لیکن آصف علی زرداری کا یکدم سرگرم ہو جانا،لاہور میں آکر جارحانہ بیانات دینا اور تین اہم مقدمات میں ان کے قریبی ساتھیوں کی ضمانتیں اور رہائی محض اتفاق نہیں ہو سکتا۔