ایڈیٹرکاانتخاب

سچ سامنے نہیں آیا, سپریم کورٹ

اسلام آباد (آئی این پی)سپریم کورٹ میں پانامہ کیس کی سماعت کے دوران جسٹس شیخ عظمت سعید نے ریمارکس دئیے کہ حسین نواز اور شریف فیملی کو حقائق سامنے لانے چاہئیں، منروا کا ریکارڈ عدالت میں کب پیش کریں گے؟، منروا کے ساتھ سروس فراہم کرنے کا معاہدہ کہاں ہے؟ پہلے دن سے ادھر ادھر چھلانگیں لگا رہے ہیں، عدالت کو سوال کا سیدھا جواب دیں، منروا کمپنی مفت میں تو سروس فراہم نہیں کرتی ہوگی، منروا کو پیسے کتنے اور کون دے رہا ہے؟۔بدھ کو سپریم کورٹ کے جسٹس آصف سعید کھوسہ کی سربراہی میں جسٹس اعجاز افضل خان، جسٹس گلزار احمد، جسٹس شیخ عظمت سعید اور جسٹس اعجاز الاحسن پر مشتمل پانچ رکنی بینچ نے امیر جماعت اسلامی پاکستان سینیٹر سراج الحق، چیئرمین تحریک انصاف عمران خان، سربراہ عوامی مسلم لیگ شیخ رشید احمد اور طارق اسد ایڈووکیٹ کی جانب سے وزیراعظم نوازشریف اور ان کے خاندان کے افراد کی آف شور کمپنیوں کی تحقیقات کے لئے دائر درخواستوں پر سماعت کی۔حسین نواز کے وکیل سلمان اکرم راجہ نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ جتنا ریکارڈ موجود ہے اس کے مطابق جواب دونگا۔ چالیس پنتالیس سال کا کوئی ریکارڈ موجود نہیں۔ 1999 کے مارشل لاءکی وجہ سے خاندانی دستاویزات ضائع ہوگئیں۔ کیا عدالت انکوائری کے بغیر کسی نتیجے پر پہنچ سکتی ہے؟ میری رائے کے مطابق بغیر انکوائری کے کسی نتیجے پر پہنچا نہیں جاسکتا۔ وزیراعظم کے خلاف کوئی چارج نہیں۔ وزیراعظم کے بچوں کے خلاف بھی کارروائی ممکن نہیں۔ اگر وزیراعظم کے بچوں کو نیب کے قانون کے تحت ملزم مانا جائے تو بار ثبوت میرے موکل کے سر نہیں فوجداری مقدمہ نہیں اس لئے اگر حسن‘ حسین ملزم بھی ہیں تو ان کے خلاف کوئی ثبوت نہیں۔ ارسلان افتخار کیس میں عدالت کہہ چکی ہے۔ ٹرائل متعلقہ فورم پر ہوسکتاہے۔ معاملہ تحقیقات کے لئے اداروں کو بھجوایا جاسکتا ہے۔ عدالت نے کبھی فوجداری مقدمات کی تحقیقات نہیں کیں۔ آرٹیکل 10 ہر شخص کو شفاف ٹرائل کا حق دیتاہے۔ جسٹس آصف سعید کھوسہ نے کہا کہ راجہ صاحب اپنے دلائل مکمل کرنے کے بعد سوالات کے جواب دیں۔ سلمان اکرم راجہ نے کہا کہ میاں شریف اور الثانی خاندان کے تعلق کے بارے میں پوچھا گیا۔ نیلسن اور نیسکول کے شیئرز اور مالی فائدے کے بارے میں پوچھا گیا ‘ پوچھا گیا گلف سٹیل کے بقایا جات کیسے ا دا کئے گئے۔ ٹرسٹ ڈیڈ پر بھی عدالت نے سوالات اٹھائے تھے ۔تمام عدالتی سوالوں کا جواب دوں گا۔ سلمان اکرم راجہ نے کہا کہ کیس میں رحمن ملک کی تحقیقاتی رپورٹ کو بنیاد بنایا گیا ۔رحمن ملک نے نجی حیثیت میں رپورٹ صدر کو بھجوائی۔ سلمان اکرم راجہ نے کہا کہ رحمن ملک کی رپورٹ کو مسترد کرتے ہیں۔ لاہور ہائیکورٹ نے بھی رپورٹ مسترد کی ملزمان بری کئے ۔شیزی نقوی کا بیان حلفی بھی رحمن ملک رپورٹ کے خلا ف تھا۔ وزیراعظم کا لندن فلیٹس سے کوئی تعلق نہیں۔ 1999 سے پہلے بھی فلیٹس شریف خاندان کے نہیں تھے۔ لندن فلیٹس 2006 میں حسین نواز کو منتقل ہوئے ۔جسٹس اعجاز افضل خان نے کہا کہ حسین نواز کو بیریئر سرٹیفکیٹ ملے یا جائیداد۔ سلمان اکرم راجہ نے کہا کہ حسین نواز کو سرٹیفکیٹ منتقل کئے گئے تھے۔ جسٹس شیخ عظمت سعید نے کہا کہ منروا کا ریکارڈ عدالت میں کب پیش کریں گے؟۔ منروا کے ساتھ سروس فراہم کرنے کا معاہدہ کہاں ہے؟ پہلے دن سے ادھر ادھر چھلانگیں کیوں لگا رہے ہیں۔ عدالت کو سوال کا سیدھا جواب دیں۔ منروا کمپنی مفت میں تو سروس فراہم نہیں کرتی ہوگی۔ منروا کو پیسے کتنے اور کون دے رہا ہے؟ سلمان اکرم راجہ نے کہا کہ اپنے موکل سے منروا کا ریکارڈ فراہم کرنے کا کہوں گا۔ منروا کمپنی لندن فلیٹس کی دیکھ بھال کرتی ہے۔ جسٹس شیخ عظمت سعید نے کہا کہ خوفزدہ نہ ہوں عدالت کو اصل دستاویزات دکھائیں۔ سلمان اکرم راجہ نے کہا کہ حقائق کو مسخ نہیں کروں گا۔ جسٹس آصف سعید کھوسہ نے کہا کہ پہلے بھی کہہ چکے ہیں۔ معاملہ ایمانداری کا ہے۔ الثانی خاندان میں معاملات حمد بن جاسم سے طے ہوئے تھے؟ سلمان اکرم راجہ نے کہا کہ تمام معاملات محمد بن جاسم سے ہی طے ہوئے تھے۔ جسٹس اصف سعید کھوسہ نے کہا کہ پہلے قطری خط میں ایسا کوئی ذکر نہیں ۔خط میں کہا گیا معاملات الثانی خاندان سے طے ہوئے ۔وکیل نے کہا کہ والد اور بھائی کے انتقال کے بعد معاملات حمد بن جاسم سے ہی طے ہوئے۔ جسٹس آصف سعید کھوسہ نے کہا کہ قطری خط اب ہمیں زبانی یاد ہوچکے ہیں۔ سلمان اکرم راجہ نے کہا کہ منروا کمپنی کے پاس کمپنیوں کی د یکھ بھال کا ریکارڈ ہوگا۔ جسٹس اعجاز افضل خان نے کہا کہ کون سی چیز ریکارڈ پیش کرنے سے روک رہی ہے۔ سلمان اکرم راجہ نے کہا کہ منروا کمپنی سے 2014 میں تعلق ختم کردیا گیا۔ اس کے بعد ٹرسٹی سروسز کی خدمات حاصل کی گئیں۔ جسٹس شیخ عظمت سعید نے کہا کہ منروا کمپنی ریکارڈ کسی تیسرے شخص کو نہیں دے سکتی کیونکہ استحقاق کا معاملہ ہے۔ منروا کمپنی یہ ریکارڈ آپ کو فراہم کرسکتی ہے۔ سلمان اکرم راجہ نے کہا کہ منروا کمپنی نے مریم نواز کے کمپنیوں سے متعلق تعلق کی تردید کی۔ جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا کہ ایرینا کمپنی کو منروا سے ہدایات لینے کا کس نے کہا؟ سلمان اکرم راجہ نے کہا کہ حسین نواز نے ایرینا کمپنی کو منروا سے رابطہ کرنے کا کہا ہوگا۔ جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا کہ دستخطوں کی مجاز تو ٹرسٹی بننے کے بعد مریم نواز ہیں۔ کمپنی کے خط میں نہیں کہا گیا کہ مریم کے دستخط جعلی ہیں۔ لندن فلیٹس گروی رکھ کر قرضہ بھی لیا گیا۔ جسٹس آصف سعید کھوسہ نے کہا کہ حسین نواز نے انٹرویو میں کہا کہ جائیداد گروی رکھ کر خریدی۔ حسین نواز نے کہا کہ مورگیج کی رقم ابھی ادا کررہے ہیں۔ سلمان اکرم راجہ نے کہا کہ لندن فلیٹس پر قرضہ 2008 میں لیا گیا۔ جسٹس اعجاز افضل خان نے کہا کہ یہ کوئی کرمنل ٹرائل یا تحقیقات نہیں ہورہیں۔ سلمان اکرم راجہ نے کہا کہ ہمارے شواہد میں کچھ خلا ہوسکتے ہیں۔ جسٹس آصف سعید کھوسہ نے کہا کہ حسین نواز ہی تمام دستاویزات فراہم کرسکتے ہیں۔ والد والدہ کچھ کہتے ہیں اور مریم نواز کا موقف کچھ ہے۔ جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا کہ قطری سرمایہ کاری 26سال الثانی خاندان کے پاس رہی۔ الثانی خاندان کے پاس سیٹلمنٹ اور سرمایہ کاری ریکارڈ تو ہوگا۔ سلمان اکرم راجہ نے کہا کہ میاں شریف نے حسن نواز کو کاروبار کے لئے قطری سرمایہ کاری سے فنڈ دیئے۔ سلمان اکرم راجہ نے کہا کہ عزیزیہ مل کے لئے بھی میاں شریف نے فنڈز دیئے۔ عزیزیہ سٹیل ملز 63 ملین ریال میں 2005 میں فروخت ہوئی۔ شریف فیملی کے صرف شاہی خاندان سے تعلقات نہیں ہیں۔ شاہی خاندان نے پرویز مشرف کو بھی تحفے دیئے۔ جسٹس آصف سعید کھوسہ نے کہا کہ کیا یہ تحائف یکطرفہ ہوتے ہیں۔ جسٹس اعجاز افضل خان نے کہا کہ سارے معاملات کا اختتام کیا ہوگا۔ دلدل میں دھنستے جارہے ہیں مفروضے سامنے آرہے ہیں۔ سلمان اکرم راجہ نے کہا کہ عدالت سے کچھ نہیں چھپایا ہے جو دستیاب دستاویز تھیں وہ فراہم کیں۔ جسٹس اعجاز الحسن نے کہا کہ ڈوئچے بنک سے قرضہ لینے کا کوئی ریکارڈ تو ہوگا؟ قرض کی دستاویز پر کس نے دستخط کئے۔ جسٹس اعجاز افضل خان نے کہا کہ ہر نئے دن نئی چیزیں سامنے آتی ہیں۔ جب فریق مکمل سچ کے ساتھ نہیں آرہا تو کیا کریں۔ سلمان اکرم راجہ نے کہا کہ لندن فلیٹس میں شریف خاندان 1993 سے رہ رہا ہے۔ چالیس پینتالیس سال پرانا ریکارڈ موجو د نہیں ہے ، مارشل لاءکی وجہ سے شریف خاندان کی دستاویزات ضائع ہو چکی ہیں ،1999 میں شریف فیملی کا تمام ریکارڈ قبضے میں لے لیا گیا تھا جس کے باعث شریف فیملی کا ریکارڈ غائب ہو گیا، جو ریکارڈ موجود ہے اس پر عدالت میں جواب دوں گا کیونکہ 45 سال پرانا ریکارڈ عدالت میں پیش کرنا ممکن نہیں ہے ،سلمان اکرم راجہ نے عدالتی کارروائی پر سوال اٹھاتے ہوئے موقف اختیار کیا ہے کہ کیا عدالت انکوائری کے بغیر کسی نتیجے پر پہنچ سکتی ہے ، میری رائے کے مطابق بغیر انکوائری کے بغیر کسی نتیجے پر نہیں پہنچا جا سکتا ، وزیراعظم کیخلاف کوئی چار ج نہیں ہے اس لیے انکے بچوں کیخلاف بھی کارروائی ممکن نہیں ، میرے قانونی جواب تین بنیادوں پر ہیں ، اگر وزیراعظم کے بچوں کو نیب کے قانون کے تحت ملزم مانا جائے تو ثبوت میرے موکل کے سر نہیں ہیں ، یہ فوجداری مقدمہ نہیں اس لیے اگر حسن ، حسین ملزم بھی ہیں تو انکے کیخلاف کوئی ثبوت نہیں ہے ، سلمان اکرم راجہ نے ارسلان افتخار کے کیس کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ ارسلان افتخار کیس میں عدالت کہہ چکی ہے کہ ٹرائل متعلقہ فورم پر ہو سکتا ہے ، یہ معاملہ بھی تحقیقات کے لیے اداروں کو بھجوایا جا سکتا ہے ، عدالت نے کھبی بھی فوجداری مقدمات کی تحقیقات نہیں کی ہے ،آئین کا آرٹیکل دس ہر شخص کو شفاف ٹرائل کا حق دیتا ہے ، اس پر جسٹس آصف سعید کھوسہ کا کہنا تھا کہ جناب راجہ صاحب پہلے آپ اپنے دلائل مکمل کر لیں پھر سوالات کے جواب دیں ، اس پر سلمان اکرم راجہ کا کہنا تھا کہ عدالت میں میاں شریف اور الثانی خاندان کے تعلقات بارے دریافت کیا گیا ہے ، نیلسن اور نیسکول کے شیئرزاور مالی فائدے بھی پوچھا گیا ہے ،ٹرسٹ ڈید پر بھی سوالات اٹھائے گئے ہیں ٹرسٹ ڈید سمیت تمام سوالات کے جواب دوں گا ، ٹرسٹ ڈید جمع کرائی ہے جس میں سوالات کا مختصر جواب بھی موجود ہے ، سپریم کورٹ کے فیصلوں میں انٹرویو میں کہی گئی باتوں کا معاملہ ہو چکا ہے ، سپریم کورٹ یہ بھی قرار دے چکی ہے کہ عوامی مفادات کے مقدمے میں کسی کو ملزم قرار نہیں دیا جا سکتا ، قانون کے مطابق بنائے گئے اداروں کو انکا کام کرنے دیا جائے ، سپریم کورٹ نے این آئی سی ایل اور دیگر مقدمات میں اداروں سے کام لیا ہے ، سپریم کورٹ خود انکوائری نہیں کر سکتی صرف کمیشن بنائے گی ،لیکن سوال یہ ہے کہ کیا کمیشن فوجداری مقدمے کی طرح ٹرائل کر سکتا ہے ، اس پر جسٹس آصف سعید کھوسہ کا کہنا تھا کہ کیا یہ بہتر نہیں ہو گا کہ پہلے دلائل مکمل کریں اور اسکے بعد ایسے قانونی سوالات کے جواب دیں ، جبکہ جسٹس اعجاز افضل نے سلمان اکرم راجہ سے استفسار کیا کہ کیا یہ وضاحت کی جا سکتی ہے کہ لندن فلیٹس کیسے خریدے گئے ، اس پر سلمان اکرم راجہ کا کہنا تھا کہ میرا موقف ہے کہ حسن نواز نے لندن فلیٹس داد کے کاروبار سے ذریعے خریدے ،لیکن درخواست گزار کا کہنا ہے کہ یہ فلیٹس وزیراعظم کے ہیں ، درخواست گزار فلیٹس کے لیے 1999کے لندن عدالتی فیصلے کا سہارا لیتا ہے ، یہ نہیں کہا جا سکتا کہ عہدے کے استعمال سے لندن فلیٹ خریدے گئے ہیں ۔سلمان اکرم راجہ کا کہنا تھا کہ یہ ثابت ہے 1999میںفلیٹس وزیراعظم تو کیا شریف خاندان کے کسی بھی فرد کے نہیں ہیں ، 93سے96کے دوران الثانی خاندان نے فلیٹس خریدے ،جنوری 2006 میں الثانی خاندان نے فلیٹس کے بیریئر سرٹیفکیٹ حسین نوان کے حوالے کیے، اور 2006 میں ہی یہ بیریئر سرٹیفکیٹ کے شیئرز منروا کمپنی کو ملے ، اس پر جسٹس شیخ عظمت سعید نے استفسار کیا کہ اس کا کیا ریکارڈ ہے ، ریکارڈ کب فراہم کریں گے آپ پہلے دن سے ادھر ادھر چھلانگے لگا رہے ہیں دستاویزات ہیں تو پیش کریں ، الزام یہ ہے کے مریم نواز نے منروا سے رابطہ کیا ، اس پر سلمان اکرم راجہ کا کہنا تھا کہ منروا سروسز فلیٹس کی دیکھ بحال کرتی ہے ، حقائق کے ساتھ جوا نہیں کھیلوں گا اس پر جسٹس آصف سعید کھوسہ کا کہنا تھا کہ پہلے بھی کہہ چکے ہیں کہ معاملہ ایمانداری کا ہے ، جبکہ سلمان اکرام راجہ کا دوران دلائل کہنا تھا کہ قطری خاندان سے سیٹلمنٹ کے بعد کمپنیوں کے سرٹیفکیٹ ملے جس پر جسٹس آ صف سعید کھوسہ نے استفسار کیا کہ کیا سیٹلمنٹ حماد بن جاسم سے ہوئی یا الثانی خاندان

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button