ایڈیٹرکاانتخاب

سپریم کورٹ نے پی آئی اے کی نجکاری سے متعلق حکم نامہ جاری کردیا۔

بتایا جائے کہ کیا پی آئی اے کا کوئی منافع بخش روٹ ایئربلیو کو دیا گیا، سپریم کورٹ

سپریم کورٹ نے پی آئی اے کی نجکاری سے متعلق تحریری حکم جاری کردیا۔ حکم نامے میں کہا گیا ہے بتایا جائے کہ کیا پی آئی اے کے منافع بخش روٹس نجی ایئر لائنز کو دیے گئے؟۔ بتایا جائے کہ کیا پی آئی اے کا کوئی منافع بخش روٹ ایئربلیو کو دیا گیا۔
حکم نامے میں کہا گیا ہے کہ کیا حکومت پی آئی اے کی نجکاری کا کوئی ارادہ رکھتی ہے۔ وزارت دفاع، چیئرمین پی آئی اے ایک ہفتے میں جواب داخل کریں۔ سپریم کورٹ نے معاملہ کی سماعت9 اپریل کو اسلام آباد میں مقرر کرنے کی بھی ہدایت کردی۔
چیف جسٹس میاں ثاقب نثار نے وفاق، وزارت دفاع، پی آئی اے سربراہ اور دیگر کو نوٹس جاری کردیے

چیف جسٹس میاں ثاقب نثار نے قومی ایئر لائن پی آئی اے کی متوقع نجکاری کا نوٹس لیتے ہوئے وفاق، وزارت دفاع، پی آئی اے سربراہ اور دیگر کو نوٹس جاری کردیے۔ سپریم کورٹ نے حکومت کو پی آئی اے میں مزید بھرتیوں سے بھی روکتے ہوئے پی آئی اے کے 6ماہ میں نفع بخش روٹس بند ہونے کی تفصیلات بھی طلب کرلیں۔
نفع بخش روٹس کیوں بند کیے، تفصیلات پیش کریں، چیف جسٹس

عدالت نے حکومت کو پی آئی اے میں مزید بھرتیاں کرنے سے بھی روک دیا۔ چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ نفع بخش روٹس کیوں بند کیے، تفصیلات پیش کریں۔
دوسری جانب سپریم کورٹ نے سندھ میں صاف پانی کی فراہمی اور نکاسی سے متعلق سماعت 2 ہفتوں کے لیے ملتوی کردی۔ چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ میں نے کراچی تبدیل دیکھا ہے، ساحل سمندر بھی صاف ہوگیا بہتری آرہی ہے۔ جو کچھ کررہا ہوں شہریوں کو سہولت فراہم کرنے کیلیے کررہا ہوں۔ سپریم کورٹ کراچی رجسٹری میں چیف جسٹس ثاقب نثار کی سربراہی میں3 رکنی بینچ کے روبرو سندھ میں صاف پانی کی فراہمی اور نکاسی سے متعلق سماعت ہوئی۔
کیاآپ لوگ سمجھتے ہیں کہ میں ٹیک اوور کرنے کے چکر میں ہوں؟ چیف جسٹس کا سینئر صحافی سے مکالمہ

چیف جسٹس نے سینئر صحافی سے مکالمہ میں کہاکہ کیاآپ لوگ سمجھتے ہیں کہ میں ٹیک اوور کرنے کے چکر میں ہوں؟ مان لیں میں اپنی پاپولرٹی کیلیے کررہا ہوں مگر میری رٹائرمنٹ کے بعد میرا نام بھی نہیں ہوگا۔ جو کچھ کررہا ہوں شہریوں کو سہولت فراہم کرنے کیلیے کررہا ہوں۔ سینئر صحافی نے کہا کہ آپ جو کررہے ہیں، حکومت کا کام تھا۔ بنیادی سہولتوں کی فراہمی کیلیے بہت کام کرنے کی ضرورت ہے۔
چیف جسٹس میاں ثاقب نثار نے ریمارکس دیے کہ مجھے تو میڈیا نے روک دیا کہ آپ منصفی کیلیے بیٹھے ہیں یہ نہ کریں۔ سینئر صحافی نے کہا کہ آپ کے حکم کے باوجود خالد بن ولید روڈ پر بلند عمارتیں بن گئیں۔ چیف جسٹس ثاقب نثار نے ریمارکس دیے کہ سارا شہری علاقہ کمرشل کردیا، رہائشی علاقوں میں سکون کیلیے کچھ نہیں۔ کراچی میں 6 منزلہ عمارتوں سے زائد پر پابندی لگا رکھی ہے۔
کارساز روڈ نیوی نے بند کی ہے؟ ابھی کھلواتے ہیں، چیف جسٹس

سینئر صحافی نے کہا کہ آدھا کارساز روڈ کو نیوی نے بند کررکھاہے۔ کراچی کی تمام سروس روڈ بحال کرادیں، ٹریفک جام کا مسئلہ حل ہوجائے گا۔ چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ کس نے نیوی نے بند کی ہے ؟ ابھی کھلواتے ہیں۔ میئر کراچی وسیم اختر نے موقف اپنایا کہ برساتی نالوں پر بڑی بڑی غیرقانونی عمارتیں اور مارکیٹس بن گئی ہیں۔ بلڈنگز نہیں گراسکتے، پہلے مرحلے میں نالے صاف کریں گے۔ 4 بڑے نالوں پر کام جاری ہے آپ چاہیں تو وزٹ کرلیں۔
چیف جسٹس نے سینئر صحافی سے مکالمہ میں کہا کہ پوچھیں رات کو ٹی وی پر تنقید تو نہیں کریںگے؟ چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ آپ کا چیف جسٹس کام خود کرنے میں بھی شرم محسوس نہیں کرتا۔ سینئر صحافی نے کہا کہ ایس آئی یو ٹی اور سول اسپتال کے پاس تجاوزات کی بھرمار ہے۔ چیف جسٹس نے سینئر صحافی سے مکالمہ میں کہا کہ آپ صرف لکھیں مت عملی کام کریں آپ کو کمیٹی میں ڈالتا ہوں۔
چیف جسٹس نے پوسٹرز لگانے والے ڈاکٹرز کو حکم دیا کہ میرے پوسٹرز فوری ہٹائیں

چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ اللہ کرے گا انشا اللہ میں یہاں 2 ماہ میں کچھ نہ کچھ کروں گا۔کراچی میں روز بھی بیٹھنا پڑے تو بیٹھوں گا۔ وسیم اختر نے بتایاکہ نہر خیام پر عمارت بنا دی گئی ہے۔ نہر خیام پر عمارت بنانے پر ہائی کورٹ نے حکم امتناع دے رکھا ہے۔ چیف جسٹس نے پوسٹرز لگانے والے ڈاکٹرز کو حکم دیا کہ میرے پوسٹرز فوری ہٹائیں۔ مجھے پوسٹرز نظر نہیں آنے چاہئیں۔ میری رٹائرمنٹ کے بعد کوئی میرا نام بھی نہیں لے گا۔
سینئر صحافی نے کہا کہ بلوچ کالونی پل کے نیچے کچرا ہی کچرا جمع ہے۔ کچرا اٹھانے والی گاڑیاں سڑکوں پر جگہ جگہ کچرا پھینکتی ہیں۔ چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ واٹر کمیشن کی رپورٹ کا جائزہ لیں گے۔ مجھے محسوس ہورہاہے کہ کچھ پیش رفت ہے۔ عدالت نے سماعت2ہفتے کیلیے ملتوی کردی۔
سماعت کے بعد میڈیا سے بات کرتے ہوئے میئرکراچی وسیم اختر نے کہاکہ چیف جسٹس نے مجھے کہا تھا شہر سے کچرا اٹھانے کیلیے خود سے جو کرسکتے ہیں کریں۔ میں چیف جسٹس کے حکم پر فوری کام شروع کردیا تھا۔ کے ایم سی کی سڑکوں کو ہم نے صاف کرنا شروع کردیا ہے۔ وسیم اختر نے کہا کہ گلاس ٹاور کی صفائی تقریباً ہوچکی ہے۔ نہر خیام میں کام جاری ہے۔ میں نے ان کاموں کی رپورٹ چیف جسٹس کے سامنے پیش کردی ہے۔
عدالت کو بتایا ہے کہ کون کون سی سڑکیں صاف کی اور کے ایم سی کی کون کون سی مشینری استعمال کی۔ شہر میں صفائی کا کام ہورہا ہے لیکن یہ مستقل حل نہیں ہے۔ کراچی کی حالت بہتر بنانے کیلیے بہت زیادہ مشینری کی ضرورت ہے۔ کراچی کی بہت ساری جگہوں پر قبضہ ہے۔ قبضہ کرنے والوں نے ہائی کورٹ سے رجوع کرکے حکم امتناع لیا ہوا ہے۔
وسیم اختر نے کہا کہ کے ڈی اے اور پی سی ایچ ایس سوسائٹی کی قبضہ والی جگہ کی لیز موجود ہے۔ ہم نے بتایا کہ یہ قبضہ ہم ختم نہیں کراسکتے۔ ہم اب عدالت کو شہر کے 4 بڑے نالوں سے آگاہ کریں۔ ان نالوں پر مساجد ، مدرسے اور یونیورسٹی بنی ہوئی ہیں۔ ان انکروچمنٹ کے خلاف عدالت سے آرڈر لینے کی کوشش کریںگے۔ نالوں سے انکروچمنٹ ختم ہوئے بغیر صفائی ممکن نہیں۔ کراچی کو کھربوں روپے فنڈ کی ضرورت ہے۔
دریں اثنا سپریم کورٹ نے سول اسپتال مٹھی تھرپارکر میں 5 بچوں کی ہلاکت سے متعلق سیکریٹری صحت کی رپورٹ مسترد کرتے ہوئے آغا خان اسپتال کے چیف ایگزیکٹیو کو معاملے کی تحقیقات کرکے ایک ماہ رپورٹ پیش کرنے کا حکم دے دیا۔ چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ دیکھا جائے گا کہ بچوں کی اموات غفلت سے ہوئی یا قدرتی، اگر کوئی غفلت کا مرتکب پایا گیا تو سخت کارروائی کریںگے۔
سپریم کورٹ کراچی رجسٹری میں چیف جسٹس میاں ثاقب نثار کی سربراہی میں3 رکنی بینچ کے روبرو سول اسپتال مٹھی تھر پارکر میں 5 بچوں کی ہلاکت سے متعلق سماعت ہوئی۔ سیکریٹری صحت نے رپورٹ پیش کردی۔
رپورٹ کے مطابق زیادہ ہلاکتیں کم وزن، نمونیا اور ڈائریا سے ہوتی ہیں۔ کم عمر کی شادی اور زیادہ بچوں کی پیدائش بھی موت کی وجوہ میں شامل ہے۔ رپورٹ کے مطابق ڈاکٹرز مٹھی جیسے علاقوں میں ڈیوٹی کرنے کو تیار نہیں۔ عدالت نے رپورٹ مستردکردی۔ چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ یہ لکھ کر جان چھڑالی کہ کم وزن والے بچے مرجاتے ہیں۔
چیف جسٹس نے سیکریٹری صحت سے مکالمے میں کہا کہ سندھ میں صحت کے بہت مسائل نظر آتے ہیں۔ عدالت نے ریمارکس دیے کہ سیکریٹری صاحب آپ کسی اور محکمے میں خدمت کیلیے کیوں نہیں چلے جاتے۔ سیکریٹری صحت نے کہا کہ نمونیا کی ویکسینز پہنچا دی ہیں، روٹا وائرس کی دوائیںبھی جلد پہنچ جائیںگی۔ ایڈووکیٹ جنرل سندھ بیرسٹر ضمیرگھمرو نے کہا کہ بہترین اسپتال بنایا اور تھرپارکر میں مفت گندم تقسیم کیا جاتا ہے۔
جسٹس سجاد علی شاہ نے ریمارکس دیے کہ ہم سب جانتے ہیں کتنی گندم مفت تقسیم ہوئی، سب کرپشن کی نذر ہوگیا۔ چیف جسٹس نے ریمارکس میں کہاکہ ایک نہیں بار بار بچوں کی ہلاکت کے واقعات ہورہے ہیں۔ آپ کے اسپتالوں میں تو انسینریٹرز بھی نہیں تھے، عدالت کے کہنے پر لگا رہے ہیں۔ ہمیں انتظامیہ کے کاموں میں مجبوراً مداخلت کرنا پڑتی ہے۔ پھر کہتے ہیں ہم بے وقوف ہیں جو انتظامی کاموں میں مداخلت کرتے ہیں۔ لاڑکانہ اسپتال کی وڈیو دیکھی مجھے شرم آرہی تھی صورت حال دیکھ کر۔
چیف جسٹس ثاقب نثار نے ایڈووکیٹ جنرل سے مکالمہ میں کہاکہ لاڑکانہ کتنی دور ہے میں جانا چاہتا ہوں۔ چیف جسٹس نے کہاکہ سابق چیئرمین سینیٹ رضا ربانی بیٹھے ہیں ذرا آپ مدد کریں اور خود لاڑکانہ اسپتال دیکھ کر آئیں۔ عدالت نے ریمارکس دیے کہ پھول جیسے بچوں کی زندگی معمولی مسئلہ نہیں۔ والدین بچوں کو اسپتال میں داخل کرتے ہیں کچھ دیر بعد لاش تھمادی جاتی ہے۔ والدین کے پاس رونے کے سوا کچھ نہیں رہ جاتا ہے۔
ڈاکٹر نواز ملاح نے بتایا کہ ویکسین اور دوائیں زائد المعیاد ہوتی ہیں سارا فنڈ کرپشن کی نذر ہوجاتا ہے۔ محکمہ صحت میں کرپشن بے نقاب کرنے کیلیے جے آئی ٹی بنائی جائے۔ چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ ٹھیک ہے ہم اس پر سوچتے ہیں، تحقیقات ہونی چاہیے کہ بچے کیسے مرے۔ ان ہلاکتوں کا ذمے دار کون ہے، تعین ہونا ضروری ہے۔ کمرہ عدالت میں مرحوم بچوں کے والدین بھی پہنچ گئے۔
چیف جسٹس نے ریمارکس میں کہا کہ والدین سے تعزیت کرتا ہوں، بہت دکھ ہوا آپ کے بچے چلے گئے۔ والدین نے کہا کہ پولیس مقدمہ سی کلاس کرنے کیلیے دباؤ ڈال رہی ہے۔ چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ پہلے بچوں کی اموات کی تحقیقات کرائیںگے۔ دیکھا جائے گا کہ بچوں کی اموات غفلت سے ہوئی یا قدرتی۔ اگر کوئی غفلت کا مرتکب پایا گیا تو سخت کارروائی کریں گے۔
چیف جسٹس نے کہا کہ آغا خان اسپتال کے ڈاکٹر وسیم جعفری کو بلائیں۔ چیف جسٹس نے حکم دیاکہ ڈاکٹر وسیم جعفری ایک گھنٹے میںعدالت پہنچیں۔ وقفے کے بعد عدالت کے روبرو آغا خان اسپتال کے چیف ایگزیکٹو ڈاکٹر ہنس، آغا اسپتال کے ڈاکٹر بابر نقوی، سیکریٹری صحت فضل اللہ پیچوہو، ایڈووکیٹ جنرل سندھ ضمیر گھمرو، ڈپٹی اٹارنی جنرل عاصم منصور اور مرحوم بچوں کے والدین بھی کمرہ عدالت میں پیش ہوئے۔ چیف جسٹس نے ڈاکٹر ہنس سے مکالمے میں کہاکہ آپ کے آنے پر مشکور ہیں۔ آپ تحقیقات میں ہماری معاونت کریں۔
چیف جسٹس نے ریمارکس میں کہاکہ تحقیقات کی جائے کہ بچوں کی اموات کیسے ہوئیں۔ بچوں کے والدین کو بھی تحقیقات میں شامل کیا جائے۔ آپ کو کسی قسم کا ہم سے تعاون درکار ہو،ہم فراہم کریں گے۔ آپ کو مکمل سیکیورٹی بھی فراہم کریں گے۔ عدالت نے مٹھی اور نواب شاہ میں اموات پر تحقیقات کا حکم دیدیا۔ عدالت نے آغا خان اسپتال کے چیف ایگزیکٹو کو ایک ماہ میں تحقیقات مکمل کرکے رپورٹ پیش کرنے کا حکم دے دیا۔

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button