سُلْطَان الفَقْر حَضْرَتْ سُلْطَان مُحَمَّدْ عَلِیْ صَاحِبْ کا سالانہ ملک گیر دورہ
اصلاحی جماعت وعالمی تنظیم العارفین
(مرحلہ دوّم)
زیرِ قِیَادَت: سَالارِِ عَارفِین ،وَارثِ مِیْراثِ سُلطَان العَارفِیْن
جَانَشِیْنِِ سُلْطَان الفَقْر حَضْرَتْ سُلْطَان مُحَمَّدْ عَلِیْ صَاحِبْ
سرپرستِ اعلیٰ: اصلاحی جماعت و عالمی تنظیم العارفین
دربارِ گوہر بار؛ سُلْطَان الْعَارِفِیْن حَضْرَتْ سلطان بَاھُوْ قدس اللہ سرّہٗ
ادارہ
یہ زمین جو انسانیت کا عروس ہے، جسے قُدرت نے انسان کے لئے ایک دُلہن کی طرح سجایا، جسے قدرت نے لہلہاتے ہوئے سبزوں کی پوشاک پہنائی، برف کی دلکش سفیدی کا روپ چڑھایا، باغات کے زیور پہنائے، آبشاروں کی نغمگی بخشی، اس کے سینے کی دھڑکن دریاؤں کا تلاطم بنایا، اِس کے چہرے پہ آفتاب کا نُور بکھیرا، اِس کے ماتھے پہ ماہتاب کا ٹیکہ سجایا، ستاروں سے اِس کی مانگ بھری، خوشنما اور دلکش پھولوں کی مالا سے اِسے آراستہ کیا، اِس زمین کا عروس آج نوحہ کناں ہے، اپنے سہاگ اپنے انسان کا لاشہ اٹھائے یہ پوچھتی ہے کہ کس مخلوق نے میرا سہاگ اُجاڑا؟ کس نے میرے چمن اُجاڑے اور کس نے میری پوشاک نوچی؟ کس نے میرے روپ کی سفیدی پہ خون بکھیرا؟ کس نے میرے زیور اور میرے نغمے چھینے؟ کس نے میری دھڑکنوں کو خون آشام کیا؟ کس نے میرا اُجالا لوٹا؟ کس نے میرا چاند گہنایا؟ کس نے میری مانگ کے ستارے چرائے؟ اور کس نے میری مالا توڑی؟
انسان آج حیران و پریشان ہے کہ مجھے اپنے خالق سے تو ’’اشرف المخلوقات‘‘ کا درجہ مِلا تھا مگر آج یہ کون ہے جس نے میری تمام آرزوئیں برباد کی ہیں؟ کس نے میری تمناؤں کا خُون کیا ہے؟ کس نے میری جستجوؤں کے نازک اور لطیف غنچے مَسَل کے رکھ دیئے؟ بیسیوں صدیوں کی اِس درد ناک تاریخ میں کون رہا ہے جس نے میرے گلشن اُجاڑے، میری نسلیں مٹائیں، میرے قبیلے نیست و نابود کئے، انسانی کھوپڑیوں کے مینار تعمیر کئے؟ انسان یہ جاننے کا آرزُو مند ہے کہ کون ہے جو تقدّسِ اِنسانیت کی قبا کو تار تار کرتا آیا ہے؟ کون ہے جس نے تقدیسِ اِنسانیت کی پامالی کو اپنی تسکین کا ذریعہ بنا رکھا ہے؟ کس کے ظلم نے آدم کے بیٹے سولیوں پہ لٹکائے؟ اور کس کی ہوس نے حوا کی بیٹیاں کوٹھوں پہ بٹھائیں؟ کِس نے میرے شرف و فضیلت کا تاج اور تکریم و کرامت کا سہرا چُرایا ہے؟
اِن سب سوالوں کا جواب ایک ہی ہے جو ان سے بھی زیادہ درد انگیز اور عبرتناک ہے کہ کسی بیرونی یا اجنبی مخلوق نے انسانیت کو یہ گزند نہیں پہنچائے-انسان خود ہی اس عروسِ زمین کی بربادی کرتا آیا ہے، خود انسان ہی انسانیت پہ ظلم ڈھاتا آیا ہے-پھر سوال اُٹھتا ہے کہ آخر کیوں؟ آخر کیوں انسان اپنا دُشمن بنا پھرتا ہے اور کیوں اپنی بستیاں اور شہر اُجاڑتا پھرتا ہے؟
اِس کے ہزاروں جوابات کا ایک مختصر جواب یہ ہے کہ اگر انسان اپنے وجود کی مٹی کی تاریکی کو اپنی رُوح کے نور سے منور اور روشن نہیں کرتا تب تک اِسے وہ روشنی نصیب نہیں ہوتی جو اس کا مقامِ انسانیت اِس پہ واضح کرتی ہے-اِس لئے ہر دور میں ایسا نصاب اِنسانیت کی اَوّلین ضرورت رہا ہے جو انسان کی درندگی اور ہوس کو ختم کرکے اسے اخلاق و اخلاص اور امن و مَحبّت کے راستے پہ گامزن کرے-اِسی مقصد کیلئے اللہ سُبحانہٗ و تعالیٰ نے اپنے رسولوں اور پیغمبروں (علیہم السلام) کو مبعوث فرمایا اور اپنی بارگاہِ خاص سے وحی کے ذریعے مخلوق کی راہنمائی عطا فرمائی-آقائے دوعالم(ﷺ )پہ سلسۂ نبوت کے اختتام پذیر ہونے کے بعد شریعت و وِلایت کے ذریعے اپنی مخلوق کو راہنمائی کا ذریعہ عطا فرمایا-
اِنسانیت کی اِسی خیر خواہی اور انہیں اِن مادی جِبِلّتوں کے جبر کی قید و درندگی سے نجات عطا کرنے کے لئے انسان پہ باطن کی پاکیزگی لازم کی گئی ہے تاکہ یہ اپنی اصلیت سے آگاہ ہو اور بنی نوعِ انسان کی قدر پہچانے اور احسان کا معاملہ کرے-آج کے اِس مادی و مادہ پرستانہ دور میں سُلطان العارفین حضرت سُلطان باھُو (قَدَّسَ اللہ سرّہٗ) کے آستانہ عالیہ سے ’’اِصلاحی جماعت و عالمی تنظیم العارفین‘‘ اِسی پیغامِ اِنسانیت و پیغامِ امن کو لے کر چلی ہے کہ اِنسان کو انسانیت کا محافظ و نگہبان بنایا جائے –
یہ وہ واحد پلیٹ فارم ہے جس کی آواز کو کسی تعصّب، تفریق اور تقسیم کے بغیرتمام مکاتبِ فکر،تمام مذاہبِ عالَم کے لوگ سنتے ہیں اور تسلیم کرتے ہیں کہ واقعتاً یہی وہ جماعت ہے جو قرآن و سُنّت کی صحیح ترجمان اور تعلیماتِ اَسلاف و اکابر کی حقیقی مُبلّغ ہے جس کا اَوّل و آخر مقصدِ انسانیت کی فلاح و بقا اور ظاہری و باطنی پاکیزگی ہے –
اِس تحریک کے بانی سُلطان الفقر حضرت سُلطان محمد اصغر علی صاحب (قَدَّسَ اللہ سرّہٗ) (۱۹۴۷ء-۲۰۰۳ء) ہر وقت دینی و روحانی خدمات کے جذبہ سے سرشار رہے- ہمہ وقت اَولیائے کاملین اور عارفین کی تعلیمات کے مطالعہ میں رہنا اور اسی ذکر و فکر میں وقت گزارنا آپ (قَدَّسَ اللہ سرّہٗ) کا معمول رہا -آپ (قَدَّسَ اللہ سرّہٗ)نے انسان کے ظاہر و باطن کی تطہیر کے لئے ہی ’’اِصلاحی جماعت و عالمی تنظیم العارفین ‘‘کی بنیاد رکھی-
اِس دردِ انسانیت کو عامۃ الناس کے دل و دماغ میں جاگزیں کرنے کے لئے ’’اصلاحی جماعت و عالمی تنظیم العارفین‘‘کے زیرِ اہتمام جانشین سلطان الفقر حضرت سلطان محمد علی صاحب (مُدّ ظِلُّہ الاقدس)، سرپرستِ اعلی ’’اصلاحی جماعت و عالمی تنظیم العارفین‘‘ کی قیادت میں علاقائی اور بین الاقوامی سطح پر محسنِ انسانیت فخرِ موجودات (ﷺ)کے اسمِ گرامی سے منسوب محافل میلادِ مصطفےٰ(ﷺ) اور حضرت سلطان باھُو (قَدَّسَ اللہ سرّہٗ) کانفرنسز (Conferences)کے سالانہ اجتماعات منعقد ہوتے ہیں-
یہ اجتماعات روایتی طریق کار کی طرح نہیں ہوتے بلکہ نہایت ہی منظّم اور بامقصد طریقے سے ہوتے ہیں-ہر پروگرام کی ترتیب اس طرح سے ہوتی ہے کہ پروگرام کا آغاز تلاوتِ قرآن پاک اور نعتِ رسول مقبول (ﷺ)سے ہوتا ہے-اس کے بعد نہایت ہی خوبصورت انداز میں حضرت سلطان باھو(قَدَّسَ اللہ سرّہٗ) کا عارفانہ کلام پیش کیا جاتا ہے- خصوصی و تحقیقی خطاب جنرل سیکریٹری ’’اصلاحی جماعت و عالمی تنظیم العارفین‘‘ ، صاحبزادہ سلطان احمد علی صاحب کا ہوتا ہے، صاحبزادہ صاحب کے خطابات تحقیقی و عِلمی نوعیّت کے ہوتے ہیں اور تقریباً تقریباً ہر مقام پہ ایک نئے موضوع پہ نئی تحقیق کے ساتھ خطاب ہوتا ہے-بعض دیگر تحریکی مصروفیات کی وجہ سے جہاں صاحبزادہ سُلطان احمد علی صاحب تشریف نہ لا سکیں وہاں پر ناظم اعلیٰ ’’اصلاحی جماعت‘‘ الحاج محمد نواز القادری صاحب خطاب کرتے ہیں-پروگرام میں ہزاروں کی تعداد میں لوگ شرکت کرتے ہیں -جو لوگ اِس دعوتِ بقائے اِنسانیت کو قبول کرتے ہیں اور بیعت ہونا چاہتے ہیں تو وہ پروگرام کے اختتام پر سرپرستِ اعلیٰ اصلاحی جماعت جانشین سلطان الفقر حضرت سلطان محمد علی صاحب (مُدّ ظِلُّہ الاقدس) کے دستِ مبارک پر بیعت ہونے کا شرف حاصل کرتے ہیں اور ’’اسم اللہ ذات‘‘ کی لازوال دولت سے سرفراز ہوتے ہیں-بیعت ہونے والوں کی تعداد بعض مقامات پر سینکڑوں اور بعض مقامات پر ہزاروں میں ہوتی ہے-پروگرام کےآخر میں صلوٰۃ و السلام کے بعد ملک و قوم اور اُمّتِ مسلمہ کی سلامتی کے لئے دعائے خیر کی جاتی ہے-
امسال انعقاد پذیر ہونے والے ان شاندار تربیّتی و اِصلاحی اجتماعات کے دوسرے راؤنڈ کی تفصیل اور خطابات کی مختصر رپورٹ ملاحظہ فرمائیں-
ڈیرہ اسماعیل خان: 2016-12-25 بمقام:اڈا گراؤنڈ پہاڑ پور،ڈیرہ اسماعیل خان
خطاب: ناظم اعلیٰ ’’اصلاحی جماعت و عالمی تنظیم العارفین‘‘، الحاج محمد نواز القادری صاحب-
’’آج ہماری کامیابی کا انحصار ذکر اللہ پر ہے-جیسا کہ اللہ رب العزت نے قرآن مجیدمیں ارشاد فرمایا کہ:
’’وَاذْ کُرُوا اللہَ کَثِیْرًا لَّعَلَّکُمْ تُفْلِحُوْنَ ‘‘
حوالہ:(الانفال:45)
’’اور اللہ کا ذکر کثرت سے کرو تاکہ تم کامیاب ہوجاؤ ‘‘-
حضور نبی کریم (ﷺ) نے ارشاد فرمایا کہ:
’’اِنَّ فِی الْجَسَدِ مُضْغَۃٌ فِاذَ صَلَحَتْ صَلَحَ الْجَسَدُ کُلُّہٗ وَاِذَا فَسَدَتْ فَسَدَ الْجَسَدُ کُلُّہٗ اَلَا وَھِیَ الْقَلْبُ ‘‘
حوالہ:(بخاری شریف)
’’بیشک انسان کے جسم کے اندر گوشت کا ایک لوتھڑا ہے اگر وہ صحیح ہے تو سارا جسم صحیح ہے اگر وہ خراب ہوجائے تو سارا جسم خراب ہو جاتا ہے خبردار! وہ دِل ہے‘‘-
اسی لئے انسان کو چاہیے کہ وہ ہروقت اللہ تعالیٰ کے ذکر سے اپنے دل کو پاک کرے تاکہ اُسے دونوں جہانوں کی کامیابی حاصل ہو-
خصوصی خطاب:مرکزی جنرل سیکرٹری ’’اصلاحی جماعت و عالمی تنظیم العارفین‘‘ صاحبزادہ سلطان احمد علی صاحب –
بذریعہ ’’ویڈیو لنک‘‘خطاب کرتے ہوئے،صاحبزادہ سلطان احمد علی صاحب نے فرمایا کہ ہمارے زوال کا سب سے بڑا سبب ہی باہمی افتراق و انتشار یعنی آپس کے اختلافات ہیں جس نے اُمّتِ اسلامیہ کو پارہ پارہ کر کے رکھ دیا ہے-
آج ہم ان چھوٹے چھوٹے اختلافات کو ہوا دے کر ایک دوسرے کے دستِ گریباں ہوگئے ہیں حالانکہ فقہی و فکری اختلافات کے باوجود ہمارے اَسلاف ایک دوسرے سے مَحبّت و عقیدت رکھتے تھے-آج ضرورت اس امر کی ہے کہ باہمی اِتّحاد و اِتّفاق کو فروغ دیا جائے تاکہ اُمّت کا شیرازہ نہ بکھرے، یہ اُمّت پارہ پارہ ہونے سے بچ سکے-اسی اِتّحاد و اِتّفاق میں ہماری کامیابی و کامرانی ہے- ہمیں یہ سمجھنا چاہئے کہ فرقہ واریت اور فرقہ وارانہ فسادات کا اِسلام کو نہیں بلکہ اِسلام کے دُشمنوں کو فائدہ پہنچ رہا ہے –
مظفر گڑھ: 02-01-2017 بمقام:سیال میرج ہال، مظفر گڑھ
صدارت: سرپرستِ اعلیٰ ’’اصلاحی جماعت و عالمی تنظیم العارفین‘‘ جانشین سلطان الفقر حضرت سلطان محمد علی صاحب (مُدّ ظِلُّہ الاقدس)-
خطاب: ناظم اعلیٰ ’’اصلاحی جماعت و عالمی تنظیم العارفین‘‘، الحاج محمد نواز القادری صاحب-
’’ دورِ حاضر میں زوال سے نکلنے کا واحد راستہ قرآن و سُنّت پر عمل ہے-جیسا کہ قرآن پاک میں اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا:
’’ھُدًیْ لِّلنَّاسِ ‘‘
حوالہ:العمران:4
’’(قرآن) پوری انسانیت کے لئے ہدایت کا ذریعہ ہے ‘‘-
مزید حدیث پاک میں رسول اللہ (ﷺ) نے ارشاد فرمایا:
’’خَیْرُ کُمْ مَنْ تَعَلَّمَ الْقُرْآنَ وَ عَلَّمَہٗ ‘‘
حوالہ:صحیح بخاری
’’تم میں سے بہتر وہ ہے جو خود قرآن سیکھے اور سکھائے ‘‘-
قرآن پاک کو سیکھنے کے لئے سب سے اہم تین درجے یہ ہیں:
1-قرآن پاک کو پڑھنا-
2- قرآن پاک کے معانی و مفہوم کو سمجھنا-
3- قرآن پاک کے مطالب کو سمجھنا-
اس کے بعد قرآن کریم پر عمل اور پریکٹیکل ہے جس کو ہم نے ترک کر دیا اور زوال پذیرہوگئے- اس لئے ہم قرآن و حدیث پر عمل کر کے ہی اپنے ظاہر و باطن کی کامیابی حاصل کرسکتےہیں‘‘-
راجن پور: 2017-01-03 بمقام:اسٹیڈیم گراؤنڈ، راجن پور
صدارت: سرپرستِ اعلیٰ ’’اصلاحی جماعت و عالمی تنظیم العارفین‘‘ جانشین سلطان الفقر حضرت سلطان محمد علی صاحب (مُدّ ظِلُّہ الاقدس)-
خطاب: الحاج محمد نواز القادری صاحب-
’’اگرآج ہم حضور نبی کریم (ﷺ) کی ذاتِ گرامی سے منسوب جس پروگرام میں شریک ہیں اس کو تین حصوں میں دیکھیں تو ہمارے لئے سمجھنے میں زیادہ آسانی ہوگی، مثلاً:
1-میلاد مصطفےٰ (ﷺ)
2- عظمت و شانِ مصطفےٰ (ﷺ)
3- پیغامِ مصطفےٰ (ﷺ)
آج! ہم صرف حضور پاک (ﷺ) کے حوالہ سے پہلی دو چیزوں کو بیان کرتے ہیں-لیکن آج ہمیں ان دو چیزوں کے ساتھ تیسری چیز ’’پیغامِ مصطفےٰ(ﷺ)‘‘کی بھی بے حد ضرورت ہے تا کہ انسان اپنی انسانیت سے آگاہ ہو کراپنے مالکِ حقیقی کی قربت حاصل کرسکے- جیسا کہ حضور علیہ الصلوٰۃ و السلام نے فرمایا:
’’مَنْ عَرَفَ نَفْسَہٗ فَقَدْ عَرَفَ رَبَّہ ‘‘
حوالہ:( ’’مرقاۃ المفاتیح شرح مشکوٰۃ المصابیح‘‘ ، کتاب الایمان :جلد ۱ :ص:۲۴۶)
’’جس نے اپنے آپ کو پہچان لیا پس تحقیق اُس نے اپنے رب کو پہچان لیا ‘‘-
یعنی اپنے رب کی پہچان ہی انسان کی تخلیق کا اصل مقصد ہے‘‘-
کندھ کوٹ(سندھ): 2017-01-04 بمقام: سکول گراؤنڈ، کندھ کوٹ
صدارت: سرپرستِ اعلیٰ ’’اصلاحی جماعت و عالمی تنظیم العارفین‘‘ جانشین سلطان الفقر حضرت سلطان محمد علی صاحب (مُدّ ظِلُّہ الاقدس)-
خطاب: الحاج محمد نواز القادری صاحب-
’’ انسان کی تکمیل کے لئے انسان کے دو پہلوؤں پر عمل کرنا ازحد ضروری ہے:
1-انسان کا ظاہری وجود
2- انسان کا باطنی وجود
انسان کے ان دو وجود کے بارے میں اللہ رب العزت نے قرآن مجید میں ارشاد فرمایا:
’’ فَاِذَا سَوَّیْتُہٗ وَنَفَخْتُ فِیْہِ مِنْ رُّوْحِیْ فَقَعُوْا لَـہٗ سٰجِدِیْنَ ‘‘
حوالہ:(ص:72)
’’پھر جب میں اس (کے ظاہر) کو درست کر لوں اور اس (کے باطن) میں اپنی (نورانی) روح پھونک دوں تو تم اس (کی تعظیم) کے لیے سجدہ کرتے ہوئے گر پڑنا ‘‘-
یعنی انسان کی تکمیل کا پہلا مرحلہ اس کا ظاہری وجود ہے جیسا کہ اللہ پاک نے فرمایا کہ جب مَیں اسے تیار کرلوں یعنی اس کے ظاہری وجود کی تکمیل کردوں -اس کے بعد دوسرا مرحلہ روح کو داخل کرنے کا ہے جیسا کہ اللہ پاک نے فرمایا کہ اس کے ظاہری وجود کو پیدا کرکے اس کے اندر اپنی نورانی روح کو داخل فرمادوں یعنی انسا ن کے باطن کی بھی تکمیل کردوں-جب انسان کی تکمیل یعنی انسان کے ظاہر و باطن مکمل ہو جائیں تو اے ملائکہ! تم فوراً سجدے میں گرجانا-
جس طرح آج ہمیں،ہمارے ظاہری وجود کو توانا و درست اور رہنے کے لئے ظاہری غذا کی ضرورت ہے اسی طرح اپنے باطن کے وجود توانا و درست رکھنے کے لئے اللہ پاک کے ذکر کی ازحد ضرورت ہے کیونکہ جب ظاہر و باطن دونوں توانا ہوتے ہیں تب جا کر انسان کی تکمیل ہوتی ہے‘‘-
جیکب آباد(سندھ): 2017-01-05 بمقام:حمیدیہ ہائی سکول گراؤنڈ، جیکب آباد
صدارت: سرپرستِ اعلیٰ ’’اصلاحی جماعت و عالمی تنظیم العارفین‘‘ جانشین سلطان الفقر حضرت سلطان محمد علی صاحب (مُدّ ظِلُّہ الاقدس)-
خطاب: الحاج محمد نواز القادری صاحب-
’’ اللہ تعالیٰ نے قرآن پاک کو انسانیت کی ہدایت کے لئے نازل فرمایا ہے،امام الانبیاء حضرت محمد رسول اللہ(ﷺ)،انبیاء کرام (علیہم السلام) اور اَولیاء کرام بھی انسانیت کی ہدایت کے لئے تشریف لائے-انسان نے ان سے راہنمائی و ہدایت حاصل کرنی ہے مگر آج! انسان اس سے دور نظر آتے ہیں -دور ہی نہیں بلکہ آج کا انسان مادیت پرستی میں کھو کر اس چیز سے بالکل بے ہوش و بے خبر ہے- اسی لئے حضرت علامہ اقبال صاحب (رحمۃ اللہ علیہ) فرماتے ہیں کہ:
ہر درد مند دل کو، رونا مِرا رُلا دے
بیہوش جو پڑے ہیں شاید انہیں جگا دے
حوالہ:بانگِ درا
یعنی جسم کے اندر جو روح مردہ ہے اسے زندگی نصیب ہو اور روح کی زندگی ذکر اللہ کے بغیر ممکن ہی نہیں ہے جیسا کہ حضور نبی کریم (ﷺ) نے ارشاد فرمایا:
’’لِکُلِّ شَیٍٔ صِقَالَۃٌ وَّ صِقَالَۃُ الْقُلُوْبِ ذِکْرُ اللہِ تَعَالٰی ‘‘
حوالہ:(مشکوٰۃ المصابیح ،کتاب الدعوات، ص:۲۰۱)
’’ ہر چیز کو صاف کرنے کےلئے کوئی نہ کوئی آلہ ہوتا ہے دل کو صاف کرنے کےلئے اللہ تعالیٰ کا ذکر ہے ‘‘-
آج! ’’اصلاحی جماعت‘‘ اسی اللہ پاک کے ذکر کو عام بھی کر رہی ہے اور اسے حاصل کرنے کی دعوت بھی دے رہی ہے تاکہ لوگ ذکراللہ کے ذریعے اپنی زندگی کا مقصد حاصل کرسکیں‘‘-
شہداد کوٹ(سندھ): 2017-01-06 بمقام:سٹی سٹیزن کلب، شہداد کوٹ
صدارت: سرپرستِ اعلیٰ ’’اصلاحی جماعت و عالمی تنظیم العارفین‘‘ جانشین سلطان الفقر حضرت سلطان محمد علی صاحب (مُدّ ظِلُّہ الاقدس)-
خطاب: الحاج محمد نواز القادری صاحب-
’’اے انسان! اللہ تعالیٰ نے تجھے اشرف المخلوق بنا کر تمام مخلوقات پر فضیلت و فوقیت اور برتری عطا فرما کر بھیجا ہے- جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے قرآنِ مجید فرقان الحمید میں ارشاد فرمایا:
’’وَ لَقَدْ كَرَّمْنَا بَنِي آدَمَ ‘‘
حوالہ: بنی اسرائیل:70
’’اور تحقیق ہم نے اولادِ آدم کو کراُمّت بخشی ‘‘-
پھر دوسرے مقام پر فرمایا:
’’لَقَدْ خَلَقْنَا الْاِنْسَانَ فِیْٓ اَحْسَنِ تَقْوِیْمٍ ‘‘
حوالہ:التین:4
’’بے شک ہم نے انسان کو بہترین (اعتدال اور توازن والی) ساخت میں پیدا فرمایا ہے ‘‘-
پہلے انسان کو ’’احسن تقویم‘‘ کا شرف عطا کیا پھر انسان کی آزمائش کے لئے ’’اسفل السافلین‘‘ میں بھیج دیا، کہ کیا انسان میری طرف رجوع کرتاہے یا مجھے بھُلا دیتا ہے-
اگر آج ہم غور کریں! تو ہم نے اللہ تعالیٰ کی ذات کے علاوہ باقی ہر چیز کو اہمیت دے کر اپنی ذات کو اس کی ذات سے دور اور غافل کر دیا ہے – اسی لئے اَولیاء کاملین نے آج ہمیں اس چیز کو یاد کرواتے ہوئے دعوت دی ہے کہ آؤ! ہم مل کر’’اسم اعظم‘‘ سے تعلق اور رشتہ جوڑ لیں تاکہ اللہ تعالیٰ کی ذات کا قرب حاصل کرسکیں-اپنی کھوئی ہوئی عظمت، وہ عظمت جس کو اللہ کے فرشتوں نے سجدہ کیا، اُس عظمت کو حاصل کرسکیں‘‘-
گھوٹگی(سندھ): 2017-01-07 بمقام: کونسل گراؤنڈ، گھوٹگی
صدارت: سرپرستِ اعلیٰ ‘’اصلاحی جماعت و عالمی تنظیم العارفین‘‘ جانشین سلطان الفقر حضرت سلطان محمد علی صاحب (مُدّ ظِلُّہ الاقدس)-
خطاب: ، الحاج محمد نواز القادری صاحب-
انسان اور قرآن کا آپس میں بہت گہرا تعلق ہے-لیکن افسوس! کہ آج ہم نے اس تعلق کو ترک کر دیا ہےکیونکہ یہ ایک اٹل قانون ہے کہ اللہ تعالیٰ جب بھی کسی قوم کو ترقی عطا فرماتا ہے تو قرآن پاک کے ذریعے ہی عطا فرماتا ہے-جو قومیں زوال پذیر ہیں ان کے زوال کا سب سے بڑا سبب ہی یہی ہے کہ ان قوموں نے قرآن کے اصول کو چھوڑ کر غیروں کے اصولوں کو اپنایا ہے-
یاد رکھیں! کل قیامت کے دن حضور رسالتِ مآب (ﷺ) اللہ تعالیٰ کی بارگاہِ عالیہ میں یہی عرض کریں گے کہ:
’’وَ قَالَ الرَّسُوْلُ یٰـرَبِّ اِنَّ قَوْمِیِ اتَّخَذُوْا ہٰذَا الْقُرْاٰنَ مَھْجُوْرًا ‘‘
حوالہ:الفرقان:30
’’اور رسولِ (اکرمﷺ) عرض کریں گے کہ: اے میرے رب! بے شک میری قوم نے اس قرآن کو بالکل ہی چھوڑ رکھا تھا‘‘-
اسی طرح ہی حضرت علامہ اقبال (رحمۃ اللہ علیہ) فرماتےہیں:
وہ زمانے میں معزّز تھے مسلماں ہو کر
اور تم خوار ہوئے تارکِ قرآں ہو کر
حوالہ: بانگِ درا
اگر آج ہم!دنیا و آخرت میں بلندی و کامیابی چاہتے ہیں تو ہمیں قرآن کے ساتھ پھر سے اپنا رشتہ قائم کرنا ہوگا‘‘-
رحیم یار خان(پنجاب) : 2017-01-08 بمقام:سکول گراؤنڈ،رحیم یار خان
صدارت: سرپرستِ اعلیٰ ’’اصلاحی جماعت و عالمی تنظیم العارفین‘‘ جانشین سلطان الفقر حضرت سلطان محمد علی صاحب (مُدّ ظِلُّہ الاقدس)-
خطاب: مرکزی جنرل سیکریٹری اصلاحی جماعت، صاحبزادہ سلطان احمد علی صاحب (مُدّ ظِلُّہ الاقدس)-
’’ہمیشہ یہ اصول رہا ہے کہ چھوٹا بڑے کے ادب کو خاطر میں لاتا ہے-جیسے شاگرد اپنے اُستاد کے اور مرید اپنے مرشد کے ادب کو بیان کرتا ہے مگر حضور نبی کریم (ﷺ) وہ ہستی ہیں جن کے آداب اُن کے صحابہ یا اُمّتیوں نے نہیں سِکھائے بلکہ خُدائے برتر و اعلیٰ نے خود قرآن مجید میں واضح فرمائے ہیں:
’’يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوْا لَا تَرْفَعُوْا أَصْوَاتَكُمْ فَوْقَ صَوْتِ النَّبِيِّ وَ لَا تَجْهَرُوْا لَهُ بِالْقَوْلِ كَجَهْرِ بَعْضِكُمْ لِبَعْضٍ أَنْ تَحْبَطَ أَعْمَالُكُمْ وَ أَنْتُمْ لَا تَشْعُرُونَ ‘‘
حوالہ: الحجرات:2
’’اے ایمان والو! تم اپنی آوازوں کو نبئ مکرّم (ﷺ) کی آواز سے بلند مت کیا کرو اور اُن کے ساتھ اِس طرح بلند آواز سے بات (بھی) نہ کیا کرو جیسے تم ایک دوسرے سے بلند آواز کے ساتھ کرتے ہو (ایسا نہ ہو) کہ تمہارے سارے اعمال ہی (ایمان سمیت) غارت ہوجائیں اور تمہیں (ایمان اور اعمال کے برباد ہوجانے کا) شعور تک بھی نہ ہو‘‘-
یعنی ہر ایک کے آداب اُن سے بعد والے بتاتے ہیں مگر بارگاہِ مُصطفےٰ (ﷺ)کے آداب خود اُن کے خالق نے ارشاد فرمائے ،اللہ تعالیٰ نے ہمیں آپ (ﷺ) کی بارگاہِ عالیہ میں بولنے کے آداب، دیکھنے کے آداب، چلنے کے آداب،پکارنے کے آداب اور زندگی گزارنے کے آداب سکھائیں ہیں-
اس ¬آیت مبارکہ کے نزول کے بعد صحابہ کرام ( رضی اللہ عنہم) کی یہ حالت تھی کہ آپ (ﷺ) کی بارگاہِ عالیہ میں اس طرح گفتگو کرتے تھے جیسے کہ سرگوشی کر رہے ہوں یہاں تک کہ صحابہ کرام ( رضی اللہ عنہم) نے اس عمل کو آپ(ﷺ) کے ظاہری پردہ فرما جانے کے بعد بھی جاری رکھا- صحابہ کرام (رضی اللہ عنہ ) کا یہ طریق کار ہوگیا کہ اگر کسی لکڑی کو کیل بھی لگانا ہوتا تھا تو وہ مدینہ منورہ سے تین (۳) میل کے فاصلہ پر جاکر لگاتے تھے-
آج ہم سب پر بھی یہ لازم ہے کہ ہم صحابہ کرام، تبع تابعین اور اَولیاء کرام ( رحمۃ اللہ علیہم) کے طریق کو لازم اپنائیں تاکہ حکمِ خداوندی کو پورا کیا جائے‘‘-
صاحبزادہ صاحب نے قرآن و سُنّت سے قوی دلائل کیساتھ بارگاہِ مصطفےٰ ﷺ کے آداب کو واضح کیا –
لودھراں(پنجاب): 2017-01-09 بمقام:یونین کونسل گراؤنڈ،لودھراں
صدارت: سرپرستِ اعلیٰ ’’اصلاحی جماعت و عالمی تنظیم العارفین‘‘ جانشین سلطان الفقر حضرت سلطان محمد علی صاحب (مُدّ ظِلُّہ الاقدس)-
خطاب:مرکزی جنرل سیکریٹری اصلاحی جماعت، صاحبزادہ سلطان احمد علی صاحب (مُدّ ظِلُّہ الاقدس)-
’’اس وقت فکری انتشار اور فکری افراتفری نے ہماری بنیادوں کو کھوکھلا اور اصل حقیقت کو دھندلا کر رکھ دیا ہے-
وہ اصول جن کا تعلق ایمان کے ساتھ ہےمثلاً
1-اللہ پر ایمان لانا
2-ملائکہ پر ایمان لانا
3- الہامی کتابوں پر ایمان لانا
4- رسولوں پر ایمان لانا
5- یوم آخرت پر ایمان لانا
پھر امام الانبیاء حضرت محمد رسول اللہ (ﷺ) سے جو ہماری نسبت ہے جن کے آداب کے بارے میں قرآن مجید نے بیشتر مقامات پر احکامات ذکر فرمائے ہیں، ان کو بجا لانا ہمارے ایمان کا اوّلین جز ہے-
آج! اسی ایمان کو ہمارے دلوں سے ختم کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے تقویٰ اور پرہیزگاری کا عمل بھی ماضی کا قصہ بنتا جا رہا ہے- صحابہ کرام ( رضی اللہ عنہم)کا حضور پاک(ﷺ)کے ادب میں یہ عالَم تھا کہ صحابہ کرام (رضی اللہ عنہم ) اپنی عبادات میں بھی رسول مقبول(ﷺ) کو ترجیح دیتے یہاں تک کہ نماز کی حالت میں بھی اُن کا محور و مرکز آقا علیہ الصلوٰۃ و السلام کی ذاتِ مبارکہ ہوتی-مثلاً: صحیحین کی متفق علیہ حدیث ہے کہ آقا علیہ السلام نے اپنی حیات پاک کے آخری دِن جب مسجد شریف میں جھانکا اس وقت نماز کی جماعت کھڑی تھی، کعبہ سامنے کی طرف ہے اور حُجرہ مبارک بائیں طرف تھا ، صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کی نظریں طریقِ عبادت کے اصول سے جانبِ قبلہ ہونی چاہئیں تھیں مگر حضرت انس بن مالک (رضی اللہ عنہ )فرماتے ہیں کہ ’’آقا پاک کا چہرہ مصحف کے ورق کی مانند چمک رہا تھا اور آپ(ﷺ) تبسم فرما رہے تھے ‘‘-ایک نمازی نے کیسے یہ جھانک لیا؟ اِس لئے کہ اُن کا مرکزِ نگاہ ذاتِ محمدی(ﷺ)تھی-یہ بات پھر سمجھ لینی چاہئے کہ بوقتِ قیام نمازی کی نگاہ کہاں ہونی چاہئے؟حضرت خباب(رضی اللہ عنہم ) کی روایت سے بخاری و مسلم شریف کی متفق علیہ حدیث پاک ہے کہ اُن سے عصر اور ظہر کی نماز میں قرأت سے متعلق پوچھا گیا تو انہوں نے کہا کہ آقا پاک قرأت فرماتے تھے ، جب پوچھا گیا کہ آپ نے کیسے جانا تو انہوں نے کہا ’’باضطراب لحیتہٖ‘‘ آقا علیہ السلام کی داڑھی مبارک کی جنبش سے-تو دورانِ قیام اُن کی نگاہیں جائے سجدہ کی بجائے آقا پاک (ﷺ) کے روئے زیبا پہ ہوتیں –
اس سے بڑھ کر ادب کی اور کیا مثال دی جاسکتی ہے کہ صحابہ کرام (رضی اللہ عنہم ) دورانِ عبادت بھی آقا علیہ الصلوٰۃ و السلام کے ادب کو اس قدر بجا لاتے تھے-آج! ضرورت اس امر کی ہے کہ ان آداب کو واضح کیا جائے تاکہ لوگوں کے دلوں میں ادب و مَحبّتِ مصطفےٰ (ﷺ) جاگزیں ہو-صحابہ کرام کے عقیدے کی رُو سے مسجدِ نبوی میں آواز آہستہ رکھنے کا حکم آج بھی اُسی طرح مؤثر ہے جیسے آقا (ﷺ)کی ظاہری حیات مبارکہ میں تھا ‘‘-
دورانِ خطاب صاحبزادہ سلطان احمد علی صاحب نے یہ بھی فرمایا کہ اس سے بڑھ کر دردناک اور ہلا دینے والی کونسی بات ہوسکتی ہے کہ’’خود کش حملہ‘‘ کی ایسی ناپاک جسارت جو آقا پاک (ﷺ) کے روضۂ اقدس اور حرمِ نبوی (ﷺ) پر کی گئی-مزید سب سے بڑا المیہ یہ ہوا کہ اس ناپاک جسارت پر پوری اُمّتِ مُسلمہ خاموش رہی-آج ضرورت صرف و صرف اس امر کی ہے کہ رسول اللہ (ﷺ) کے ساتھ اپنے تعلق کو مضبوط سے مضبوط ترین بنایا جائے‘‘-
ملتان(پنجاب): 2017-01-10 پرانا قلعہ ، قاسم باغ اسٹیڈیم،ملتان
صدارت: سرپرستِ اعلیٰ ’’اصلاحی جماعت و عالمی تنظیم العارفین‘‘ جانشین سلطان الفقر حضرت سلطان محمد علی صاحب (مُدّ ظِلُّہ الاقدس)-
خطاب: مرکزی جنرل سیکریٹری اصلاحی جماعت، صاحبزادہ سلطان احمد علی صاحب-
’’جس طرح اِتّفاق سے آج گیارہ (۱۱)’’ربیع الثانی ‘‘کا دن ہے جس کی بطورِ خاص نسبت پیرانِ پیر، مُحیِ الدّین،شیخ عبدالقادر جیلانی(قَدَّسَ اللہ سرّہٗ) سے ہے-جن سے ہم اپنی نسبت منسوب کرتے ہیں تو اس نسبت کو منسوب کرنے کا بنیادی مقصد کیا ہوتا ہے؟
آج! ہمارے ساتھ یہ بہت بڑا المیہ ہے کہ ہم ان ہستیوں کے ساتھ فقط نسبت منسوب کرتے ہیں لیکن ان کی تعلیمات پر عمل پیرا نہیں ہوتے – حضرت غوث الاعظم (قَدَّسَ اللہ سرّہٗ)جہاں بہت بڑے ولی اللہ تھے ،وہیں آپ(قَدَّسَ اللہ سرّہٗ) کے علمی و فقہی، تدبیر و بصیرت کا کوئی ثانی نہیں تھا-آپ (قَدَّسَ اللہ سرّہٗ)فرماتے ہیں کہ :
’’عَاھَدتَّنِیْ عَلَی الصِّدْقِ فِیْ کُلِّ اَحْوَالِیْ ‘‘
حوالہ: (غِبطۃ الناظر فی الترجمہ شیخ عبد القادر، از ، ابن حجر عسقلانی)
’’مَیں نےہر حال میں صدق کو ملحوظِ خاطر رکھا ‘‘
یعنی آپ(قَدَّسَ اللہ سرّہٗ) نے سچائی کو عملی جامہ پہنا کر یہ شرف حاصل کیا جو کہ آپ(قَدَّسَ اللہ سرّہٗ)کو اپنی والدہ ماجدہ(قَدَّسَ اللہ سرّہٗ) کی گود مبارک سے ملا-اسی لیے قرآن کریم میں اللہ رب العزت نے ارشاد فرمایا:
’’وَ کُوْنُوْا مَعَ الصَّادِقِیْن ‘‘
حوالہ: التوبہ:119
’’اور سچے لوگوں کے ساتھ ہوجاؤ ‘‘-
یعنی سچے لوگوں کی صحبت اختیار کرو تاکہ ان سے فیض یاب ہوجاؤ-اَولیاء اللہ کے ساتھ نسبت منسوب کرنے کا مقصد بھی یہی ہوتا ہے کہ ان کی تعلیمات کو عملی جامہ پہنایا جائے- اِسی طرح آپ (قَدَّسَ اللہ سرّہٗ) کے علمی فیوض و برکات سے بھی اِستفادہ کرنے کی ضرورت ہے جو آپ (قَدَّسَ اللہ سرّہٗ) کی تصانیفِ عالیہ کی صورت میں ہمارے پاس موجود ہیں – توحید کے مسائل اُس وقت تک کما حقہٗ سمجھ نہیں آتے جب تک ’’فتوح الغیب‘‘ اور ’’سِرُّ الاسرار‘‘ نظر سے نہ گزر جائیں – وقت کے بڑے بڑے محدثین و فقہا نے آپ کے مناقب و فضائل پہ کثیر کتب تحریر فرمائیں مثلاً ابن حجر عسقلانی ، شاہ عبد الحق محدث دہلوی ، علامہ شطنوفی ، ابن تیمیہ ، امام سیوطی و غیرھم، جس سے واضح ہوتا ہے کہ آپ (قَدَّسَ اللہ سرّہٗ) کا طریق اصُولِ کتاب و سُنّت پہ ہی قائم ہے ‘‘-
وہاڑی(پنجاب): 2017-01-11 بمقام:حق باھُو فٹ بال اسٹیڈیم،وہاڑی
صدارت: سرپرستِ اعلیٰ ’’اصلاحی جماعت و عالمی تنظیم العارفین‘‘ جانشین سلطان الفقر حضرت سلطان محمد علی صاحب (مُدّ ظِلُّہ الاقدس)-
خطاب: مرکزی جنرل سیکریٹری اصلاحی جماعت، صاحبزادہ سلطان احمد علی صاحب –
’’جس دین کی ابتداء حضرت آدم علیہ السلام سے ہوئی اور جس کی تکمیل حضور رسالتِ مآب(ﷺ) پر ہوئی وہ ’’دینِ مُبین‘‘ہے-
یہ ’’دینِ مُبین‘‘بنیادی طور پر ہماری معاشرت کی اصلاح کرتا ہے جبکہ یہ منبر و محراب کا مقصد بھی لوگوں کی اخلاقی ذمہ داریوں کو اُجاگر کرنا ہے-آج اگر ان تین چیزوں کو دیکھا جائے:
1-انسان کی ازدواجی زندگی
2-سچ بولنا
3-عدل و انصاف کی یقینی فراہمی
یہ تینوں بنیادی سماجی ضروریات ہیں مگر اللہ تعالیٰ نے ان کو سزا و جزا سے منسلک فرمایا اور اس سے یہ واضح ہوتا ہے کہ دین بنیادی طور پہ معاشرے اور معاشرت کی تطہیر کرتا ہے اور اس کی روایات و اقدار کو پاک بناتا ہے-اِس طرح کے کئی اَعمال ایسے ہیں جو بظاہر روحانی نہیں ہیں بلکہ دُنیاوی ہیں لیکن کتاب و سُنّت نے اُنہیں ہمارے ایما ن کے اور شریعت کے اجزا اور نشانی کی طور پہ لازم فرمایا ہے –
اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں ارشاد فرمایا:
’’ یٰـاَیُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوا اتَّقُوا اللہَ وَقُوْلُوْا قَوْلًا سَدِیْدًا ‘‘
حوالہ: الاحزاب:70
’’اے ایمان والو! اللہ سے ڈرا کرو اورصحیح اور سیدھی بات کہا کرو‘‘-
’’قَوْلًا سَدِیْدًا ‘‘کا انسان کی انفرادی اور اجتماعی زندگی دونوں پر اثر ہوتاہے-اگر انسان ان تینوں چیزوں کو عملی جامہ پہنائے تو معاشرے میں سدھار پیدا ہوسکتا ہے‘‘۔
صاحبزادہ صاحب نے اِسی ایک نکتہ یعنی ’’قَوْلًا سَدِیْدًا‘‘ کی وضاحت و اہمیت پہ تفصیلی و تحقیقی خطاب فرمایا (اللہ تعالیٰ ہم سب کو عمل کی توفیق عطا فرمائے ) –
آپ نے مزید سورہ ’’الحجرات‘‘ کے حوالے سے بھی وضاحت فرمائی کہ اللہ تعالیٰ نے چھ (۶) چیزوں سے بطورِ خاص منع فرما رکھا ہے: ’’۱- لایسخر‘‘ کسی کا تمسخر اڑانے اور تحقیر کرنے سے منع کیا ہے ، مگر یاد رہے کہ تبسم اور تمسخر میں فرق ہے۔ تبسم ایسا مذاق ہے جو کہ لفظِ ذوق سے نکلا ہے اسی طرح لطیفہ کا لفظ لطافت سے نکلا ہے یعنی ایسا مزاح جو ذوق اور لطافت پہ مبنی ہو جس سے تحقیر نہ ہو بلکہ ذوق و تبسم کا پہلو نکلے-
’’۲- ولاتلمزوا‘‘ اللہ تعالیٰ نے کسی پہ الزام تراشی،بہتان اور عیب لگانے سے منع فرمایا ہے –
’’۳- ولاتنابزوا بالالقاب‘‘ کسی کو بُرے القابات یا گالی سے مخاطب کرنے سے منع کیا ہے ، مگر سانحہ یہ ہے کہ ہمارے اخلاقی دیوالیہ پَن کی وجہ سے گالیاں بکنے والوں کو ’’بُلار‘‘ یعنی اچھا مقرر کہا جاتا ہے ، زبان درازی اور بیباکی میں زمین و آسمان کا فرق ہے مگر ہمارے معاشرے میں زبان دراز ہی کو بیباک سمجھا جاتا ہے-
’’۴- اجتنبوا کثیرا من الظن ‘‘ کسی کی بات پہ بد گمانیو ں سے بچنا چاہئے یعنی ایک دوسرے کی باتوں پہ اعتماد و اعتبار کا حکم فرمایا ہے-
’’۵- ولاتجسسوا ‘‘ ایک دوسرے کی ذاتی و نجی زندگی کی جاسوسیوں سے منع فرما یا ہے-
’’۶- و لایغتب ‘‘ غیبت اور گلہ گوئی سے منع فرمایا ہے –
خانیوال(پنجاب): 2017-01-12 بمقام:میونسپل اسٹیڈیم،خانیوال
صدارت: سرپرستِ اعلیٰ ’’اصلاحی جماعت و عالمی تنظیم العارفین‘‘ جانشین سلطان الفقر حضرت سلطان محمد علی صاحب (مُدّ ظِلُّہ الاقدس)-
خطاب: مرکزی جنرل سیکریٹری اصلاحی جماعت، صاحبزادہ سلطان احمد علی صاحب –
’’انسانیت کا شرف و فضیلت اس کی دولت کی وجہ سے نہیں بلکہ جو چیز انسان کو اللہ تعالیٰ نے ودیعت فرمائی ہے اس کی وجہ سے ہے-
قاضی ثناء اللہ پانی پتّی نے گیارہ چیزوں میں انسان کی عظمت و فضیلت کا ذکر کیا ہے جسے اللہ تعالیٰ نے بطورِ خاص نوازا ہے-
1-حسنِ صورت
2-معتدل مزاج
3-قد و قامت میں اعتدال
4-عقل, بولنے،اشارہ کرنے اور لکھنے کی صلاحیت
5- اپنے اسبابِ معاش کو خود پیدا کرنا
6-ہر چیز کو مسخر کرنے کی صلاحیت
7- اسباب کے استعما ل پر قدرت
8- جانوروں کے بر عکس اپنے ہاتھوں سے کھانا کھانا
9- عشقِ وحی اور قرب کا امتیاز
10-زمین میں ہر چیز کے اوپر تسلط قائم کرنا
امام بیضاوی(رحمۃ اللہ علیہ) فرماتے ہیں کہ:
’’فَاِنَّ شَرْفَ الْإِنْسَانِ وَ كَرَامَتَهٗ بِالْمَعْرِفَةِ وَ الطَّاعَةِ ‘‘
حوالہ: تفسیر بیضاوی
’’پس بیشک انسان کا شرف اور اس کی کرامت معرفت اور اطاعت کی وجہ سے ہے ‘‘-
یعنی اللہ تعالیٰ نے اپنی قربت کے لئے بھی انسان کو ہی بطورِ خاص منتخب کیا ہے- جس طرح کہ سیدنا غوث الثقلین ’’رسالۃ الغوثیہ‘‘ میں فرماتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے مجھے فرمایا کہ:
’’ما ظہرتُ فی شیئٍ کظھوری فی الانسان ‘‘
حوالہ: رسالہ غوثیہ
’’اے عبد القادر! میں کسی بھی شئے میں ایسے ظاہر نہیں ہوا جیسا کہ انسان میں ظاہر ہوا ہوں‘‘-
حدیثِ پاک میں ہے کہ آقا پاک شہِ لولاک (ﷺ )کعبہ پاک کا طواف فرما رہے تھے تو کعبہ پاک کو مخطاب ہوتے ہوئے فرمایا :
’’(اے کعبہ!) تو کتنا پاکیزہ ہے، تیری خوشبو کتنی عُمدہ ہے، تو خود کتنا عظیم ہے اور تیری حُرمت کتنی عظیم ہے (مگر) اُس ذات کی قسم جس کے قبضے میں محمد (ﷺ) کی جان ہے :
’’لحرمۃ المؤمن اعظم عند اللہ حرمۃ منکِ‘‘
اللہ تعالیٰ کے ہاں بندۂ مومن کی حُرمت تجھ سے زیادہ ہے ‘‘-
اِس لئے اِنسان کی عظمت اور اس کی شان ِ کرامت کا ہمیں احساس کرنا چاہئے اور اس کے احترام کو کسی بھی صُورت اپنے ہاتھ سے جانے نہیں دینا چاہئے –
جھنگ(پنجاب): 2017-01-13 بمقام:چرچی گراؤنڈ،جھنگ
صدارت: سرپرستِ اعلیٰ ’’اصلاحی جماعت و عالمی تنظیم العارفین‘‘ جانشین سلطان الفقر حضرت سلطان محمد علی صاحب (مُدّ ظِلُّہ الاقدس)-
خطاب: مرکزی جنرل سیکریٹری اصلاحی جماعت، صاحبزادہ سلطان احمد علی صاحب –
صاحبزادہ صاحب نے دو گھنٹے سے بھی طویل اپنا تحقیقی و علمی خطاب کرتے ہوئے فرمایا کہ مکاتبِ فکر بھی اور مکاتبِ فقہ بھی ایک سے زیادہ مثلاً فقہ حنفی، فقہ مالکی، فقہ شافعی ، فقہ حنبلی اور فقہ جعفری یہ پانچوں آئمہ بطریقِ روحانی اہل تصوف ہیں اور معتبر روایات کے مطابق مختلف صوفیاء کے حوالوں سے ان کا روحانیت سے رشتہ و ناطہ رہا ہے- اِس لئے جو طریقِ روحانی ہے وہ اِس اُمّت کا سوادِ اعظم ہے – سلاسلِ تصوف میں قادریہ ، چشتیہ ، نقشبندیہ، شاذلیہ اورسہروردیہ ہیں-ان سب سلاسل کا مرکز حضرت غوث الاعظم شیخ عبدالقادر جیلانی (قَدَّسَ اللہ سرّہٗ) کی ذاتِ گرامی ہے-
(نوٹ: اس خطاب کی مزید تفصیل ایک الگ مضمون’’صوفی کو کیسا ہونا چاہیے؟‘‘کی صورت میں ملاحظہ فرمائیں)
فیصل آباد(پنجاب): 2017-01-14 بمقام:پہاڑی والی گراؤنڈ،فیصل آباد
صدارت: سرپرستِ اعلیٰ ’’اصلاحی جماعت و عالمی تنظیم العارفین‘‘ جانشین سلطان الفقر حضرت سلطان محمد علی صاحب (مُدّ ظِلُّہ الاقدس)-
خطاب: مرکزی جنرل سیکریٹری اصلاحی جماعت، صاحبزادہ سلطان احمد علی صاحب (مُدّ ظِلُّہ الاقدس)-
’’ایمان اور دین کا آپس میں گہرا تعلق ہے اور مومن مسلمان کے جو اوصاف بیان کیے گئے ہیں وہ بے شمار ہیں جن کو بجا لانا ہر مومن مسلمان کا فریضہ ہے اور ان تمام مسلمانوں کا ایک دوسرے پر جو حقوق ہیں اگر ان کا جائزہ لیا جائے تو انسان حیران رہ جاتا ہے-
اِسلام اور مسلمان کی تعریف جو حدیث پاک میں بیان کی گئی ہے وہ قابلِ ذکر ہے-فرمان مصطفےٰ(ﷺ) سے ہے کہ:
’’اَلْمُسْلِمُ مَنْ سَلِمَ الْمُسْلِمُوْنَ مِنْ لِسَانِہٖ وَیَدِہ ‘‘
حوالہ:(صحیح بخاری، کتاب الرقاق)
’’مسلمان وہ ہے جس کی زبان اور ہاتھ سے دوسرے مسلمان محفوظ ہوں ‘‘ –
بلکہ یہاں تک فرما دیا کہ ایک مسلمان دوسرے مسلمان کو حقیر نہ جانے، نہ رسوا کرے، نہ تحقیر کرے اور نہ اس پر ظلم کرے-اللہ تعالیٰ بھی مسلمان کی مدد اس وقت کرتا ہے جب ایک مسلمان اپنے دوسرے مسلمان بھائی کی مدد کرتا ہے-جو مسلمان کسی کی پردہ پوشی کرتا ہے قیامت کے دن اللہ تعالیٰ اس کے عیوب کی پردہ پوشی فرمائے گا-اس لئے ایک دوسرے کا احترام لازم ہے کیونکہ جس دین میں جانور کو بھی ذبح کرتے وقت زیادہ تکلیف دینا منع ہہے تو