سوزی کو کھال سمیت ہی اس کے انکلوژر میں دفنا دیا گیا ہے
17 مئ 2017
لاہور حنا سید سے (نیوز وائس آف کینیڈا)
لاہور کے چڑیا گھر جانے والا ہر شخص، چاہے وہ بچہ ہو یا بڑا، سب کی سوزی کے ساتھ بے شمار یادیں جڑی ہیں۔
کسی کو سوزی کا باجا بجانا یاد ہے تو کسی نے اس کے ساتھ تصویر بنوا کر وہ لمحہ قید کر لیا۔ کچھ خوش نصیبوں نے تو سوزی کی سواری بھی کی ہوئی ہے۔ افسوس کہ اب صرف یہ یادیں ہی رہ گئی ہیں۔
35 سالہ ہتھنی سوزی 13 مئی کی صبح چھ بجے زندگی کی بازی ہار گئی۔ اسے اتفاق کہیں یا قسمت، وہ مئی کا ہی مہینہ تھا جب 1988 میں پانچ سال کی سوزی کو لاہور کے چڑیا گھر میں لایا گیا۔ اس وقت اس ننھی ہتھنی کا وزن چھ سو کلو اور قد پانچ فٹ پانچ انچ تھا۔
سوزی کے مہاوت شان محمد نے بتایا کہ چڑیا گھر میں آتے ہی سوزی سب کی آنکھ کا تارا بن گئی تھی۔
سوزی چھوٹی سی تھی جب سے میں نے اس کو پالا، نہلایا دھلایا، اس کے نخرے اٹھائے، 30 سال تک اس کی پرورش کی ۔ چڑیا گھرمیں آنے والی عوام اور خاص طور پر بچے سوزی کے دیوانے تھے۔ اب سوزی نہیں ہے تو ہمیں بھی پریشانی ہوتی ہے، ہاتھی گھر میں آ کر بہت عجیب لگتا ہے۔ بچے بھی اداس ہیں کہ ہتھنی دیکھنی ہے، آخر کہاں گئی؟
شان محمد نے بتایا کہ سوزی کو بچوں کے ساتھ کھیلنا بہت پسند تھا، میوزک پر ناچتی اور بہت شوق سے باجا بجاتی تھی۔ اس کو اپنے تالاب میں پانی سے کھیلنا اور نہانا بہت پسند تھا۔ لیکن اگر کوئی تنگ کرتا یا گرمی زیادہ ہوتی تو سوزی چڑ جاتی۔
عمر بڑھنے کے ساتھ سوزی کا موٹاپا بھی بڑھ گیا۔ مہاوت کے مطابق ہتھنی کی سواری بند ہونے سے وہ سست ہو گئی۔ سوزی نے دس، پندرہ سال بچوں کوسواری کروائی ، پھر یہ سلسلہ روک دیا گیا۔ اگر سیر کرواتی رہتی تو اس کا وزن نہ بڑھتا، اور شاید یہ نوبت بھی نہ آتی۔
چڑیا گھر کی ڈاکٹر مدیحہ اشرف کا کہنا ہے کہ سوزی صحت مند تھی اور اس کے باقاعدگی سے ٹیسٹ کروائے جاتے تھے۔ البتہ قید میں جانوروں کی جسمانی ورزش یا حرکات محدود ہو جاتی ہیں جس کے باعث ان کا وزن بڑھ سکتا ہے۔ البتہ سوزی کے وزن کو برقرار رکھنے کے لیے اس کی خوراک میں آہستہ آہستہ تبدیلی لائی گئی تھی۔
ڈاکٹرمدیحہ اشرف کے مطابق سوزی کی روزانہ خوراک تھی: 100 کلو گنا، 100 کلو لوسن (چارہ)، 20 کلو سیب، تین کلو چنے، تین کلو چوکر، تین کلو جو کا بیج اورتین کلو روٹی۔
سوزی کا پوسٹ مارٹم یونیورسٹی آف ویٹرینیری اینڈ اینیمل سائنسز سے کروایا گیا جس کے مطابق دل کا دورہ موت کی وجہ بنی۔
لاہور کے چڑیا گھر کے ڈپٹی ڈائریکٹر تنویر احمد نے بتایا کہ پوسٹ مارٹم کے دوران سوزی کی کھال الگ کرنے کی کوشش کی گئی البتہ کھال اتنی موٹی تھی کہ یہ ممکن نہ ہو سکا۔
سوزی کو کھال سمیت ہی اس کے انکلوژر میں دفنا دیا گیا ہے۔ دو مہینے کے بعد ڈھانچے کو نکال کریونیورسٹی آف ویٹرینیری اینڈ اینیمل سائنسزمیں رکھا جائے گا۔ سوزی کے دانت اسلام آباد کے نیشنل ہسٹری میوزیم نے مانگے ہیں لیکن ابھی فیصلہ نہیں کیا گیا کہ انھیں دیں یا لاہور کے چڑیا گھرکے اپنے میوزیم میں رکھیں۔`
عمر بڑھنے کے ساتھ سوزی کا موٹاپا بھی بڑھ گیا
سوزی کی موت کے بعد لاہور کے چڑیا گھر کے ڈائریکٹر شفقت علی کو غفلت کی بنا پر معطل کر دیا گیاـ سوزی کے پوسٹ مارٹم کے نتیجے کی بنیاد پر انکوائری کمیٹی اپنا فیصلہ سنائے گی۔
دوسری جانب چڑیا گھر انتظامیہ کے مطابق نئے ہاتھی لانے میں کم سے کم سات آٹھ مہینے لگ جائیں گےـ نگراں ڈائریکٹر حسن علی سکھیرا نے بی بی سی کو بتایا کہ اس حوالے سے دو کمیٹیاں بنائی گئی ہیں۔
ایک کمیٹی ہاتھی خریدنے کا کام دیکھے گی اور دوسری ہاتھی گھر کا معائنہ کرے گی کہ کیا اس میں ایک یا دو ہاتھی رکھے جا سکتے ہیں بین الاقوامی ضوابط کے مطابق یا نئے انتظامات کے ضرورت ہے۔
حسن علی سکھیرا کا کہنا تھا کہ لاہور کہ چڑیا گھر میں اب ایک نہیں بلکہ دو ہتھنیاں لائی جائیں گی۔