سلطنت عثمانیہ کے حرم
زیر نظر پینٹنگ سلطنت عثمانیہ کے ایک حرم کی منظر کشی ہے جہاں ایک شہزادہ خوبصورت کنیزوں کے ساتھ داد عیش دے رہا ہے۔
سلطنت عثمانیہ یا خلافت عثمانیہ 1299ء سے 1922ء تک قائم رہنے والی ایک مسلم سلطنت تھی جس کے حکمران ترک تھے۔ اپنے عروج کے زمانے میں (16 ویں – 17 ویں صدی) یہ سلطنت تین براعظموں پر پھیلی ہوئی تھی اور جنوب مشرقی یورپ، مشرق وسطٰی اور شمالی افریقہ کا بیشتر حصہ اس کے زیر نگیں تھا۔ اس عظیم سلطنت کی سرحدیں مغرب میں آبنائے جبرالٹر، مشرق میں بحیرۂ قزوین اور خلیج فارس اور شمال میں آسٹریا کی سرحدوں، سلوواکیہ اور کریمیا (موجودہ یوکرین) سے جنوب میں سوڈان، صومالیہ اور یمن تک پھیلی ہوئی تھی۔ مالدووا، ٹرانسلوانیا اور ولاچیا کے باجگذار علاقوں کے علاوہ اس کے 29 صوبے تھے۔ سلطنت عثمانیہ کے دور میں مملکت کو شہزادوں کی بغاوت سے بچانے کے لئے یہ طریقہ اختیار کیا گیا کہ بہترین حرم تیار کئے گئے جہاں خوبصورت ترین دوشیزائیں اور طرح دار کنیزیں اپنی تمام تر حشر سامانیوں کے ساتھ موجود ہوتی تھیں۔ راگ رقص و موسیقی اور شراب و شباب سے بھرپور ان حرموں میں شہزادوں کی زندگے گزر جاتی تھی۔
قارئین کو یہ بتانا بہت ضروری ہے کہ عثمانی سلاطین کے دور می شہزادوں کے حرم میں زندگی گزارنے کا سب سے بڑا مقصد یہ ہوتا تھا کہ ان کو اقتدار سے دور رکھا جائے اسطرح وہ حرم کی رنگینیوں میں اس قدر گم ہوجائیں کہ ان کو بغاوت اور اقتدار پر قبضہ کرنے کا خیال تک نہ آئے – ان شہزادوں کو امور مملکت سے دور رکھا جاتا۔ پچھلے سلاطین نے شہزادوں کو بے دریغ قتل کرنے کی روایت قائم کی تھی – مگر اس کے بعد شہزادوں کو حرم کی زندگی تک محدود کرکے رکھ دیا جاتا تھا۔
کچھ تاریخ دانوں نے سلطنت عثمانیہ کے حرم کے بارے میں بالکل مختلف رائے کا اظہار کیا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ ان حرام سے منسوب تمام تر غلط داستانیں یورپ کو پروپیگنڈہ تھا۔ اس قسم کے فحش واقعات نہ صرف شاہی حرم سرا میں پیش نہیں آئے،بلکہ مالدار طبقے کے حرم سرا بھی ان سے محفوظ رہے ہیں،کیونکہ ہمارے ہاں حرم سرا نہ صرف پاکدامنی اور پاکیزگی کا نمونہ ہے،بلکہ وہ ہمارے ہاں عورت کے خصوصی مقام و مرتبے کی عکاسی بھی کرتاہے۔ہماری تاریخ کی خوبیوں کا انکار کرنے والوں نے ہمیں اپنی تاریخ کے درخشاں پہلوؤں کو دیکھنے سے محروم کر رکھا ہے۔درحقیقت عورتوں اور مردوں کی اجتماع گاہیں جدا رکھنا اور انہیں ناجائز میل جول کی اجازت نہ دینا مرد اور عورت میں موجود ضعف کے نتیجے میں توازن قائم کرنے کی ایک کوشش ہے۔حرم سرا نہ صرف تقدس و حرمت کی حامل جگہ تھی،بلکہ وہ خاندانی فساد اور نسبوں کے اختلاط کی راہ میں رکاوٹ اور ترکی کی اسلامی روایات کے حسن و جمال کا مظہر تھا۔
حرم سرا ایسا گلدستہ ہے،جس سے پھولوں کی مہک اور اخلاق واقدار کی خوشبو پھوٹتی ہے۔ہمارے ہاں خوابگاہ کی خصوصی حیثیت ہوتی ہے،کیونکہ یہ وہ جگہ ہے جہاں نسب کا تعین اور اس کی حفاظت ہوتی ہے اور جہاں پوری رازداری اور خصوصیت کے ساتھ خاندان کی داغ بیل پڑتی ہے،یہی وجہ ہے کہ اسے مہمانوں کے لیے کھولا جاتا ہے اور نہ ہی یہاں کسی کو بلایا جاتا ہے،نہ صرف اجنبی بلکہ خاندان کے دوسرے افرد بھی جب چاہیں وہاں نہیں جا سکتے۔خوابگاہ کو اس قدر رازداری (Privacy) حاصل ہوتی ہے کہ ہمیں تربیت دی گئی ہے کہ اگر کوئی شخص ہماری تکریم کی خاطرہمیں سونے کے لیے اپنی خوابگاہ پیش کرے تو ہم اس کی دعوت کو قبول نہ کریں۔خوابگاہ بھی دوسرے کمروں کی طرح ایک سادہ سا کمرہ ہوتا ہے،لیکن اس کے باوجود اس قدر رازداری برتنے میں کیا راز ہے؟ہمارے ہاں ہر چیز کا رنگ مختلف ہے۔ہم چھوٹی چھوٹی باتوں میں بھی آداب کا خیال رکھتے ہیں۔اس لحاظ سے حرم سرا صرف عثمانیوں کا ہی امتیاز نہیں،بلکہ ہم میں سے ہر ایک کے گھرمیں حرم سرا ہے۔جو لوگ اس بارے میں اپنے آباء واجداد پر تنقیدکرتے ہیں وہ دراصل اپنے اوپر تنقید کر رہے ہوتے ہیں۔
عثمانیوں کے ہاں حرم سرا کو اور بھی زیادہ رازداری (Privacy) حاصل ہوتی تھی اور ہر کسی کو حرم سرا میں جانے کی اجازت نہیں ہوتی تھی۔جیساکہ بعض محلات میں دیکھا گیا ہے حرم سرا کے گرد اونچی اونچی دیواریں کھڑی کی جاتی تھیں،مثلاً توپ کاپے کے محل میں حرم سرا کے حصے کو باقی محل سے جدا رکھنے میں بڑی احتیاط برتی گئی ہے، جہاں محل کی خواتین اور کنیزیں باغیچوں اور باغات میں شرعی حدود میں رہتے ہوئے سیر و تفریح اور آرام کرتی تھیں۔اس بندوبست سے خواتین اور کنیزوں کی کسی نامناسب چیز پر نظر پڑنے سے حفاظت کرنا مقصود ہوتا تھا۔ان خواتین اور کنیزوں کی عام زندگی اور سیر و تفریح شریعت کی حدود میں ہوتی تھی۔وہ باہر جھانکتیں تھیں اور نہ ہی ان کی نظر اپنے خاوندوں اور محرموں کے سوا کسی پر پڑتی تھی۔
دراصل محل سے وابستہ مرد بھی ایسی ہی زندگی بسر کرتے تھے اور یہ تمام پابندیاں ان پر بھی عائد تھیں۔ان کی زندگی بھی دیواروں کے پیچھے گزرتی اور وہ صرف حلال تفریح سے محظوظ ہوتے تھے۔اگر یہ زندگی محل کی قید سے عبارت ہے تو مرد بھی اس قید میں برابر کے شریک تھے۔اگر لوگ اس بات پر تنقید کرتے ہیں تو میرے خیال میں وہ ایسی چیز پر تنقید کر تے ہیں،جس کا انہیں علم ہی نہیں،تاہم اگر اس تنقید کا رخ محل میں خواتین کی کثرت کی طرف ہے تو اس کا جواب قدرے تفصیل طلب ہے۔
یہ درست ہے کہ بعض عثمانی سلاطین کی دو دو یا تین تین بیویاں تھیں،لیکن اس کے خلاف ہم کچھ کہہ سکتے ہیں اور نہ ہی ہمیں اس کی ضرورت ہے۔مغرب،اس کے نظریات اور آراء معیار ہیں اور نہ ہی سب کچھ ہیں۔ایک دور تھا جب اہل مغرب مختلف انداز سے سوچتے تھے۔آج وہ تعددِازواج پر اعتراض کرتے ہیں۔ہو سکتا ہے کل وہ آج کے طرزِفکر پر تنقید کرنے لگیں۔