سب برابر ہیں پھر بھی ذات باری تعالیٰ نے تقویٰ کو اولین شرط قرار دیا ہے
معذوری اور مجبوری میں فرق کو واضح کرتی ایک معذور مگر باہمت خاتون آسیہ پروین کی تحریر
آس امید ۔
تحریر۔آسیہ پروین (سپیشل پرسن)گوجرانوالہ
اللہ تعالیٰ نے سب انسانوں کو برابر پیدا کیاہے ۔ فرمان باری تعالیٰ ہے کہ افضل بس بنیاد ہے تقویٰ کی ۔جب سب برابر ہیں پھر بھی ذات باری تعالیٰ نے تقویٰ کو اولین شرط قرار دے دیا ہے ۔ تو یہ سبق ہمیں سمجھنے میں مدد دیتا ہے کہ سب برابر ہیں ۔
پھر معذور اور نارمل انسان کیسے ایک دوسرے سے الگ ہو سکتے ہیں ۔ ایک معذور اس مکمل انسان سے ہر لحاظ سے برتر ہے جو شرف انسانیت پر فائز ہے ۔ جو حق نہیں مارتا ۔منہ سے نوالہ نہیں چھینتا ۔ لالچ اور حوس میں گھرا ہوا نہیں ہے ۔ اسکی ذات دوسروں کے لیے تعفن نہیں تو پھر وہ کیسے معذور ہو سکتا ہے ۔
معذوری مردہ ضمیر کی ہوتی ہے جو زندہ لاش بنا دیتی ہے ۔ بلند مقام پر پہنچ کر ہاتھ تو خالی ہی ہوتے ہیں ۔جن میں دوسروں کے دکھ ، درد،تکالیف،جذبت اور احساسات تک کچلے ہوئے ہوتے ہیں ۔
منزل کو پالینا ،اوروں کو پیروں تلے روند کے
ان سے اچھے ہیں وہ جن کے پائوں نہیں ہوتے۔۔
معذوری کو ہمارے معاشرے نے ایک ایسا مقام عطا کر دیا ہےکہ جیسے ہم ایک زندہ لاش ہیں ۔ جب سانس نکلے ۔اور کب مٹی ڈال کر اس بوجھ سے آزد ہو جائیں ۔بنایا تو ہم اللہ کریم نے سب کو ایک ہی مٹی سے ہے ۔ ایک جیسا دل ۔ ایک جیسا دماغ ۔ ذہن اور سوچ بھی ایک جیسی۔جذبات،احساسات اور باتیں بھی ایک جیسی ۔ لیکن جب بات آتی ہے جسمانی کمی کی تو پھر سب چیزیں مختلف ہو جاتی ہیں ۔ بظاہر نہ نظر آنے والے فرق اتنے لمبے فاصلے طے کر جاتا ہے کہ ندی کے کبھی نہ ملنے والے دو کناروں کی طرح کا فرق بلکہ واضح فرق پیدا ہو جاتا ہے ۔
جسمانی معذور کو اتنا بڑا جرم سمجھ لیا جاتا ہے کہ معذور انسان خود کو کسی اور ہی دنیا کی مخلوق سمجھنے لگ جاتا ہے ۔ احساس ہمدردی کے پیچھے بے حسی میں لپٹے ہوئے روئے اور آنکھوں میں نظر انداز کرنے والے لمحے کسی بھی معذور انسان کو جیتے جی مار دیتے ہیں ۔
گر بانٹ نہیں سکتے ہیں دکھ درد ہمارے تم۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
پھر لہراتی نمی کو آنسوئوں میں بدلنے کا حق نہیں رکھتےتم
ذرا سوچئے ! کیا کبھی کسی نے کوشش کی ہے کسی معذور کے دل میں جھانکنے کی ؟
آس امید کی کرن کسی معذور کے دل میں جگانے کی ؟
کسی معذور کی حالت بدلنے کی ۔ کوئی نارمل سہارا دینے کی ؟
بلکہ المیہ تو یہ ہے کہ ! ہم آج اپنی واہ واہ اور لوگوں کی ہمدردیاں سمیٹنے اور عزتیں بڑھانے کے لیے معذوروں کو استعمال کرنا بھی اپنا حق سمجھتے ہیں ۔ اور آج کے اس زنگ آلود معاشرے میں تو یہ فیشن سمجھا جا رہا ہے ۔ کسی بھی پروگرام میں جب معذور افراد کو بلوایا جاتا ہے تو عوامی نمائندوں ،سماجی خدمتگاروںسمیت معاشرے کے کئی اہم ارکان پروگرام کی حد تک کئی امیدئیں جگاتے ہیں ۔ان شکستہ دلوں میں آس امید کے کئی دیپ جلا کے روشنی میں لاتے ہیں ۔ لیکن جیسے اس پروگرام کی لائٹیں بند کی جاتی ہیں ۔یہ سیاسی،سماجی اور معاشرتی خدمتگار پھر پلٹ کر دیکھنا بھی گناہ سمجھتے ہیں ۔
بے سماں سمجھ کر رکھ دیتے ہیں کسی کونے میں
استعمال کر کے ایک بیکار چیز کی طرح۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اب میری اپنی طرح کے معذو ر،باہمت افراد کی خدمت میں یہ شعر پیش کرنا چاہوں گی کہ۔۔۔
آئو نہ اب عزم کریں ، جینا ہے یا مر جانا ہے
یوں بھی گھٹ گھٹ کے جینا تو برا لگتا ہے ۔۔۔
ہمیں اب فیصلہ کرنا ہوگا۔ خود کو سمبھالنا ہوگا ۔ کسی کے ہاتھوں کھونا نہیں بننا ۔ تاکہ اب پھر سے کوئی ہمیں پلیٹ میں سجا کر اپنے مفادات پورے نہ کر سکے ۔ اگر کسی کو ہمارے لئے کچھ کرنا ہے تو اسے ہمارے ساتھ آ کر کھڑا ہونا پڑے گا ۔ اور ہمیں برابری کی سطح پر معاشرے میں ہمارا مقام دینا ہوگا ۔
اب ایسے نہیں چلے گا کہ کوئی بھی ہمیں بوقت ضرورت استعمال کر ے اور بعد کوڑے کے ڈھیر پر پھینکے اور اپنی راہوں پر گامز ن ہو جائے ۔ ہمیں صرف ہمت کرنی ہے ۔ یقین جانئے صرف پہلا قدم مشکل ہوتا ہے دوسرے قدم کے بعد تما م دروازے اللہ کریم کے حکم سے خود بخود کھلتے چلے جاتے ہیں ۔ ہمیں کوئی بہت ذیادہ امداد ، ہمدردیاں نہیں چاہئیں۔ بس صرف چند افراد جو حقیقت میں ہمارے لئے کچھ کرنا چاہتے ہیں ۔ اور ہمارے ساتھ کھڑے ہو سکیں ۔
کیا ہوا اگر کمی ہے ہمارے وجود میں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
عزم سے ہر منزل کو پار کرنا مشکل نہیں ہوتا
جانئے مصنف کے بارے میں۔ آسیہ پروین ایک سپیشل پرسن ہے ۔ جو ٹانگوں سے محروم ہے ۔ اعلیٰ تعلیم یافتہ اور درد رکھنے کے باعث وہ معذور افراد کے مسائل کو بڑی باریکی کے ساتھ محسوس کرتی ہیں اور بعد ازاں ان مسائل کو اپنے الفاظ کی صورت دے کر معاشرے کے حوالے کر دیتی ہیں۔ ان کی تحریروں میں معذوری اور مجبوری کے درمیان فرق کا واضح پتہ چلتا ہے ۔ آسیہ پروین ایک کالم نگاری کےساتھ ساتھ نثر نگاری اور شعر و شاعری بھی کرتی ہیں ۔ اور ان کا ہر شعر ان کےدکھ درد اور معاشرے کے ظلم و ستم کی عکاسی کرتا ہے ۔ وہ ایک معلمہ بھی ہیں اور خصوصی بچوں کے سکول میں پڑھانے کا فریضہ بھی سر انجام دے رہی ہیں۔
نوٹ۔ کسی بھی لکھاری کی تحریر کے ساتھ ادارہ کا متفق ہونا ضروری نہیں ۔ تمام تحریریں لکھنے والے کی اپنی سوچ اور احساسات کی آئنہ دار ہوتی ہیں ۔ ادارہ کسی بھی تحریر کی ذمہ داری قبول نہیں کرے گا