سابق صدر پرویز مشرف نے ڈاکٹر عبد القدیر خان کی نظر بندی سے متعلق اہم انکشاف کر دیا
لاہور 30 اگست 2017
(بشیر باجوہ بیورو چیف پاکستان نیوز وائس آف کینیڈا)
سابق صدر پرویز مشرف نے پاکستان کے مشہور سائنسدان ڈاکٹر عبد القدیر خان کی گھر میں نظر بندی سے متعلق اہم انکشاف کر دیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ ڈاکٹر عبد القدیر خان کی نظر بندی اور دیگر امور سے متعلق سب سے پہلے میں نے ہی نواز شریف کو جی ایچ کیو میں پریزنٹیشن دی تھی۔ ان کا کہنا تھا کہ میں نے ڈاکٹر عبد القدیر خان کو ہٹوایا تھا۔
میں نے نواز شریف کو آگاہ کیا تھا کہ اس زمانے میں جاسوسیاں ہو رہی تھیں۔ پرویز مشرف نے بتایا کہ ایک مرتبہ ڈاکٹر اے کیو خان نے دبئی جانے کے لیے مجھ سے اجازت لی اور بعد میں پتہ چلا کہ وہ دبئی بھی چلے گئے اور بعد میں وہاں سے سوڈان بھی چلے گئے جس پر میں نے انہیں بُلا کر کہا کہ ڈاکٹر صاحب آپ ادھر اُدھر کیوں جاتے ہیں ؟ آپ نے جہاں جانا ہوتا ہے وہاں کا بتایا کریں۔
یہ اس سے پہلے کا واقعہ ہے جب تک ڈاکٹر ایک کیو خان نے معافی نہیں مانگی تھی اور اس حوالے سے ثبوت امریکہ نے فراہم کیے تھے۔ اگر کوئی مجھ سے یہ پوچھے کہ زندگی میں سب سے زیادہ شرمندگی کا سامنا کب کرنا پڑا تو میں یہی کہوں گا کہ سب سے زیادہ شرمندگی مجھے تب ہوئی تھی جب میں نیویارک گیا ہوا تھا اورمیں نے امریکی صدر جارج بُش سے ملاقات کی۔ انہوں نے مجھے کہا کہ اگر آپ اعتراض نہ کریں تو کل صبح سی آئی اے کے باس سے ملاقات کرنی ہے۔
میں نے بُش کو بتایا کہ میں تو کل صبح واپس جا رہا ہوں اگر زیادہ اہم ہے تو میں رُک جاتا ہوں جس پر جارج بُش نے کہا کہ جی ہاں یہ بہت اہم ہے۔ سی آئی اے کے باس صبح سویرے میرے ہوٹل آئے ۔ انہوں نے مجھے proliferationکے بارے میں بتایا جس پر میں نے انہیں کہا کہ ایسا کچھ نہیں ہے سب کچھ کنٹرول میں ہے۔ انہوں نے اپنا بریف کیس کھولا اور اس میں سے ایک فائل نکالی اور مجھے دے دی۔
میں نے اس فائل کو دیکھا تو اس میں کچھ تصاویر ، دستخط اور دستاویزات موجود تھیں۔ ڈاکٹر عبد القدیر خان کا ایک سری لنکن خاص آدمی تھا جسے وہ بطور فرنٹ مین استعمال کرتے تھے۔ وہ ڈبل ایجنٹ تھا جو امریکہ کو بھی ساری باتیں بتا رہا تھا ۔ میں وہ ثبوت دیکھ کر شرمندہ ہو گیا اور میں نے سوچا کہ میں اسے کیا بتاﺅں۔ کیونکہ وہ سو فیصد حقیقت پر مبنی ثبوت تھے ۔ جس پر میں نے سی آئی اے کے چیف سے کہا کہ مجھے علم نہیں ہے ۔ میں واپس جا کر اس کی تحقیقات کرتا ہوں۔ انہوں نے بتایا کہ ان تصاویر میں ڈاکٹر قدیر خان کی اپنے فرنٹ مین کے ساتھ تصاویر بھی تھیں اور یہ لوگ ایران وغیرہ کے ساتھ معاہدے کرتے پھر رہے تھے۔جس میں وہ نیوکلئیر پاور کے فارمولاز وغیرہ کا بھی تبادلہ کر رہے تھے۔