ایڈیٹرکاانتخاب

زرداری نے پارٹی قیادت سنبھالنے کے لئے نواز شریف سے مدد مانگی‘

کراچی (ٹی وی رپورٹ)جیوکے پروگرام ”آج شاہزیب خانزادہ کے ساتھ“میں گفتگو کرتے ہوئے سابق وزیرخارجہ خواجہ آصف نے کہا ہے کہ زرداری نے پارٹی قیادت سنبھالنے کے لئے مدد مانگی،نواز شریف اور میں بے نظیر کے پرسے کے لئے گئے تو ہماری منتیں کیں ،امین فہیم سے چھٹکارے کے لئے بھی ہم نےزرداری کی مدد کی،بلاول ،فاروق نائیک،اسفندیار ولی ،حامد میر اور زرداری کے والد گواہ ہیں،مشرف کے خلاف کارروائی کے لئے کہا تو زرداری نے کہا کہ ضامنوں کو گارنٹی دی ہوئی ہے۔ سابق وزیرخارجہ خواجہ آصف نے کہا کہ نواز شریف کے آصف زرداری پر بہت احسانات ہیں، بینظیر بھٹو کی شہادت کے بعد جب ہم پُرسے کیلئے لاڑکانہ گئے تو آصف زرداری مجھے اور نواز شریف کو ایک علیحدہ کمرے میں لے گئے جہاں انہوں نے ہماری منتیں کرنی شروع کردیں کہ میں پارٹی کی قیادت کو سنبھالنا چاہتا ہوں اس کیلئے میری مدد کریں، میں یہ بات اسی بوجھل دل کے ساتھ کہہ رہا ہوں جس بوجھل دل کے ساتھ میرے خلاف فیصلہ لکھا گیا ، اس کے بعد تسلسل سے واقعات ہوئے جس میں امین فہیم کو سیاسی طور پر ڈسپوز آف کردیا گیا، ہم نے امین
فہیم کو ڈسپوز آف کرنے میں آصف زرداری کی مدد کی اور پارٹی پر ان کا قبضہ ممکن بنایا، اس سب کیلئے میں خود کو بھی مجرم قراردیتا ہوں، اگر آصف زرداری اجازت دیں تو میں کسی پروگرام میں وہ پوری کہانی سنادیتا ہوں، اس تمام اسٹوری کا گواہ بلاول بھی ہے، آصف زرداری نے میری موجودگی میں بلاول کو بلا کر تمام باتوں کا اعتراف کیا، آصف زرداری نے میرے حوالے سے کہا کہ اس کے احسانات ہیں جس کی وجہ سے میں آج پیپلز پارٹی کا بلاشرکت غیر مالک بن گیا ہوں اس کو یاد رکھنا، آصف زرداری نے نہ مجھے یاد رکھا نہ نواز شریف کا احسان یاد رکھا، نواز شریف نے مجھے آصف زرداری کی مدد کرنے کی اجا ز ت دی تھی، میں نے نواز شریف سے اجازت لے کر آصف زرداری کی مدد کی، ہمارا خیال تھا کہ دو بڑی جماعتیں مل کر کام کریں تو جمہوریت کیلئے بہتر ہوگا، بینظیر بھٹو کے ساتھی اور ذوالفقار علی بھٹو کے وفادار آصف زرداری کے ساتھ نہیں ہیں۔ خواجہ آصف کا کہنا تھا کہ میں نے اس کے علاوہ بھی آصف زرداری کو ذاتی طور پر مدد کی ہوئی ہے، اس کے گواہ فاروق نائیک بھی ہیں، بینظیر بھٹو شہید نے بھی مجھے اس معاملہ پر اپروچ کیا تھا، آصف زرداری دروغ گوئی سے کام لے رہے ہیں، آصف زرداری ہم سے اپنی سیاسی قیادت خصوصاً خواتین سے متعلق جس قسم کی زبان استعمال کرتے رہے ہیں وہ بیان نہیں کرسکتا، ہم سیاستدانوں کا پہلے ہی تماشا لگا ہوا ہے میں نہیں چاہتا کہ مزید تماشا لگائیں۔ پرویز مشرف کو جانے دینے کے الزام پر خواجہ آصف کا کہنا تھا کہ 2008ء کے الیکشن کے بعد جب ہمارا پیپلز پارٹی کے ساتھ کولیشن حکومت کا معاہدہ ہوا تو ہم نے پرویز مشرف کے خلاف کارروائی کرنے کا کہا مگر انہوں نے جواب دیا کہ ابھی یہ بات رہنے دیں، ہم نے وعدہ کیا ہوا ہے کہ ان کے سات آٹھ سال کے اقدامات کو ہم نے indemnity دینی ہے ،لیکن ہم نے انکار کردیاکہ پرویز مشرف کے غیرقانونی اقدامات کو پارلیمنٹ سے تحفظ نہیں دیں گے، اسفند یار ولی اس تمام بات کے گواہ ہیں۔ خواجہ آصف نے مزید بتایا کہ ہم نے پرویز مشرف کیخلاف کارروائی پر بار بار اصرار کیا تو آصف زرداری نے کہا کہ ہم نے واشنگٹن، ابوظہبی اور برطانیہ کو کارروائی نہ کرنے کی گارنٹی دی ہے ، آصف زرداری نے ہلٹن ہوٹل جمیرا اور عرب امارات میں اپنے گھر میں بیٹھ کر کہا کہ جن ضامنوں کی مرضی پر ہم نے اقتدار سنبھالا ہے انہیں گارنٹی دی ہوئی ہے جس کی ہم خلاف ورزی نہیں کریں گے اور ہم مشرف کو ابھی ہاتھ نہیں لگاسکتے، آصف زرداری نے نواز شریف کو کہا کہ خواجہ آصف کو میرے ساتھ بھیجیں میں انہیں ضامنوں کے ساتھ ملادیتا ہوں یہ خود پوچھ لیں، آصف زرداری نے وہاں یہ بھی کہا کہ وہ رچرڈ باؤچر کے ساتھ گفتگو کرنے کے بعد ہی سوتے ہیں۔ خواجہ آصف نے کہا کہ آصف زرداری مجھ سے بات کرلیں یا فاروق نائیک کو بھیج دیں میں اس کے ساتھ بات کرلیتا ہوں وہ ویسے بھی میرا بڑا قریبی عزیز ہے، آصف زرداری کی اینٹ سے اینٹ بجانے کے بیان سے متعلق تاویل بالکل غلط ہے، آصف زرداری کو پچھتاوا ہے کہ انہوں نے پتا نہیں کس موڈ میں یہ بات کردی تھی جس کے بعد انہیں ڈیڑھ سال ملک سے باہر گزارنے پڑے،آصف زرداری بیرون ملک بیٹھ کر پاکستان میں معافی کی درخواستیں بھیجتے رہے، آصف زرداری جو زبان استعمال کررہے ہیں سیاستدانوں کو ایک دوسرے کے خلاف ایسی زبان استعمال نہیں کرنی چاہئے،سیاستدانوں کی بے قدری صرف اس لئے ہے کہ ہم خود ایک دوسرے کی قدر نہیں کرتے ہیں، آصف زرداری حادثاتی سیاستدان ہیں، بھٹو خاندان کی شہادتوں کی وجہ سے آصف زرداری کی لاٹری نکل آئی، پیپلز پارٹی کو ڈکٹیٹرز تباہ نہیں کرسکے لیکن ایک شخص آصف زرداری نے پارٹی تباہ کردی۔ ایک Omni نام کی کمپنی ہے جس کے پاور پلانٹ ہیں، وزیراعلیٰ سندھ مراد علی شاہ جب بھی ہمارے پاس آتے تو کہتے ان سے بجلی لینی شروع کردیں اور ان کے چار پانچ ارب جو آؤٹ اسٹینڈنگ ہیں اسے سیٹل کریں، ان کے مفادات صرف اپنی ذات کے ارد گرد گھومتے ہیں۔ خواجہ آصف کا کہنا تھاکہ میں جو باتیں بھی کررہا ہوں عینی شاہد کی حیثیت سے کررہا ہوں، میں نے آصف زرداری کی سیاسی باتوں کا سیاسی جواب دیا ہے، ان کی ذات سے متعلق آج بھی کوئی بات نہیں کررہا ہوں، میں انہیں صرف یہ تمام واقعات یاد دلارہا ہوں، فاروق نائیک ان باتوں کے گواہ ہیں جو میرے کزن بھی ہیں اور میری بیگم کے بڑے بھائی بھی ہیں، جیوڈیشری کے معاملات پر جتنے بھی مذاکرات ہوئے میں اور فاروق نائیک اس میں پل کا کردار ادا کرتے رہے، آصف زرداری ججمنٹ دے رہے ہیں تو ان کی مرضی میں نے آصف زرداری پر کوئی ججمنٹ نہیں دی، آصف زرداری کے مرحوم والد بھی بہت سی باتوں کے گواہ تھے۔ خواجہ آصف نے کہا کہ میں جس پٹیشن کے نتیجے میں نااہل ہوا ہوں، فاروق نائیک نے مجھ سے رابطہ کر کے میرا یہ کیس لڑنے کیلئے کہا ،مگر چند دن بعد فاروق نائیک نے مجھے کہا کہ آصف زرداری نے انہیں میرے کیس کی پیروی کرنے سے منع کردیا ہے اس لئے میں نہیں کرسکتا، میں نے فاروق نائیک سے وجہ پوچھی تو انہوں نے کہا تم آصف زرداری سے فون کر کے پوچھ لو، میں نے آصف زرداری کو تین چار دفعہ فون کیا تو انہوں نے اشتہار لگادیئے کہ خواجہ آصف مجھے فون کرتا ہے اور میں اس کے فون کا جواب نہیں دیتا، حامد میر بھی اس معاملہ میں گواہ ہیں، حامد میر نے مجھ سے پوچھا تو میں نے کہا ہاں میں ان کو فون کرتا رہا تاکہ ان سے پوچھوں کہ انہوں نے فاروق نائیک کو میری وکالت سے کیوں منع کیا ہے، میں انہیں نواز شریف کیلئے نہیں اپنی ذات کیلئے فون کررہا تھا، میں نے آصف زرداری کوکوئی ایسا دکھ نہیں پہنچایا تھا کہ وہ اپنے ساتھیوں کو میری وکالت سے بھی منع کردیں، میں نے آصف زرداری کے ساتھ نباہ کیا انہوں نے نباہ نہیں کیا، میرے ساتھ کوئی بات کرنا چاہتاہے تو فاروق نائیک کو بھیج دے۔ میزبان محمد جنید نےتجزیہ پیش کرتے ہوئے کہا کہ ن لیگ گزشتہ ایک سال سے قانونی و سیاسی میدان میں مشکلات کا شکار ہے، ن لیگ کو اپوزیشن جماعت پیپلز پارٹی سے بھی کوئی حمایت نہیں مل رہی ہے، ن لیگ کی جانب سے پیپلز پارٹی سے کیے گئے پس پردہ رابطے موثر ثابت نہیں ہورہے ہیں، آصف زرداری نے اس کی وجہ لاہور میں پارٹی کے سینئر قائدین کو بتائی کہ وہ نواز شریف کی باتوں میں آکر بہک گئے تھے، آصف زرداری نے نواز شریف پر موقع پرست ہونے کا الزام لگایا ہے۔محمد جنید کا کہنا تھا کہ آصف زرداری کے ترجمان عامر فداپراچہ کا کہنا ہے کہ میڈیا کا کوئی وفد آصف زرداری سے نہیں ملا ، بلاول ہاؤس سے آصف زرداری کا کوئی بیان بھی جاری نہیں ہوا ہے۔ محمد جنید نے مزید کہا کہ گزشتہ روز پیپلز پارٹی لاہور ایگزیکٹو اور ٹکٹ ہولڈرز کے اجلاس میں آصف زرداری نے یہاں تک کہہ دیا کہ وہ نواز شریف کے ساتھ جنت میں بھی نہیں جائیں گے، یہ بیان مزید واضح کرتا ہے کہ اختلافات کی نوعیت کتنی سنگین ہے، پہلے نواز شریف پیپلز پارٹی سے دور ہورہے تھے اب پیپلز پارٹی نواز شریف سے دور ہے، آصف زرداری نے اس دوری کی وجہ بھی بتادی ہے، موجودہ حالات سے لگتا ہے کہ آصف علی زرداری اور نواز شریف کے اختلافات اتنی شدت اختیار کرچکے ہیں کہ ختم نہیں ہوں گے لیکن اس بارے میں حتمی طور پر کچھ نہیں کہا جاسکتا کیونکہ جب ماضی میں دوستی ہوئی اس سے پہلے بھی سنگین اختلاف تھا لیکن پھر معاملات بدلے اور تعلقات میں بہتری آئی، اب جو حالات ہیں کیا وہ ایسے ہی سنگین رہیں گے یا الیکشن سے پہلے یا الیکشن کے بعد حالات بہتر ہو سکتے ہیں، اس کا فیصلہ پیپلز پارٹی اور ن لیگ کی قیادت کو کرنا ہے۔محمد جنید نے تجزیے میں مزید کہا کہ شریف خاندان کیخلاف ایون فیلڈ ریفرنس اختتامی مراحل میں داخل ہوگیا ہے، سپریم کورٹ کی طرف سے فیصلے کیلئے دی گئی ڈیڈ لائن میں صرف پندرہ دن رہ گئے ہیں، احتساب عدالت میں روزانہ کی بنیاد پر سماعتیں ہورہی ہیں، گواہ پیش ہورہے ہیں ، واجد ضیاء کے بعد ایون فیلڈ ریفرنس کے تفتیشی افسر اور آخری گواہ عمران ڈوگر نے بھی عدالت میں پیش ہوکر اپنا بیان ریکارڈ کرادیا ہے۔محمد جنید نے تجزیے میں مزید کہا کہ برطانیہ میں ایک اور پاکستانی نژاد شخص اہم ترین سرکاری عہدے پر فائز کردیا گیا ہے، تارکین وطن سے متعلق معلومات چھپانے کے معاملہ کے بعد مستعفی ہونے والے سابق برطانوی وزیرداخلہ امبر رڈ کی جگہ پاکستانی نژاد ساجد جاوید کو وزیرداخلہ بنادیا گیا ہے، ساجد جاوید برطانیہ کے وزیرداخلہ بننے والے پہلے ایشیائی نژاد شخص ہیں، سب سے اہم بات یہ ہے کہ ساجد جاوید برطانیہ میں بس ڈرائیور کے بیٹے ہیں، ان کا خاندان ساٹھ کی دہائی میں برطانیہ منتقل ہوا تھا، جب صادق خان لندن کے میئر بن کر تاریخ رقم کررہے تھے اس وقت ساجد جاوید نے صادق خان کو ٹوئٹ کے ذریعہ مبارکباد دیتے ہوئے کہا تھا کہ ایک بس ڈرائیور کے بیٹے کی طرف سے دوسرے بس ڈرائیور کے بیٹے کو اس بہت بڑی کامیابی پر مبارکباد۔ نمائندہ جیو نیوز مرتضیٰ علی شاہ نے کہا کہ ساجد جاوید نے 1947ء میں انڈیا سے پاکستان ہجرت کی تھی، 1960ء میں ساجد جاوید کے والد برطانیہ آگئے جہاں بس ڈرائیور کی حیثیت سے انہوں نے کام شروع کیا،ساجد جاوید کے والد نے بہت محنت سے اپنے بچوں کو پڑھایا، ساجد جاوید پڑھائی کے بعد بینکنگ کے شعبہ میں چلے گئے، انہیں پچیس سال کی عمر میں نیویارک کے بینک میں ایگزیکٹو رول ملا، ساجد جاوید نے مارگریٹ تھیچر سے متاثر ہو کر سیاست شروع کی، ساجد جاوید ہارڈ لائنر کے طور پر دیکھے جاتے ہیں، ساجد جاوید حکمراں جماعت کے رائٹ ونگ سے تعلق رکھتے ہیں،ساجد جاوید کو وزیرداخلہ بنانا برطانوی تاریخ کا بڑا لمحہ سمجھا جارہا ہے، برطانیہ میں وزیراعظم کے بعد دوسری اہم ترین سیٹ وزیرداخلہ کی ہوتی ہے، ساجد جاوید نے ایسے وقت میں وزیرداخلہ کا عہدہ سنبھالا ہے جب برطانیہ کو مقامی اور بین الاقوامی سطح پر بہت سے چیلنجز کا سامنا ہے، ساجد جاوید کی بطور وزیرداخلہ تقرری سے لگتا ہے کہ حکومت امیگرنٹس کے حوالے سے اپنی سخت پالیسی بدلنا چاہتی ہے، ساجد جاوید بریگزٹ پر وزیراعظم تھریسا مے کی لائن کو سپورٹ کررہے ہیں۔

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button