کالم,انٹرویو

رحمت عالم ﷺ کی خاندانی شرافت و عظمت

حضورِاقدس صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کا نسب شریف والد ماجد کی طرف سے یہ ہے: بخاری شریف کی حدیث کے مطابق
(۱)حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم (۲) بن عبداللہ (۳) بن عبدالمطلب (۴) بن ہاشم (۵)بن عبد مناف(۶)بن قصی(۷)بن کلاب(۸)بن مرہ(۹)بن کعب (۱۰)بن لوی(۱۱)بن غالب(۱۲)بن فہر(۱۳)بن مالک(۱۴) بن نضر (۱۵) بن کنانہ(۱۶) بن خزیمہ(۱۷) بن مدرکہ(۱۸) بن الیاس (۱۹) بن مضر (۲۰) بن نزار(۲۱) بن معد(۲۲)بن عدنان ۔
(صحیح البخا ری،کتاب مناقب الانصا ر،باب مبعث النبی صلی اللہ علیہ وسلم،ج2،ص573)
اور والدہ ماجدہ کی طرف سے حضورصلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کا شجره نسب یہ ہے:
(1) حضرت محمد صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم(2) بن آمنہ(3)بنت وہب(4) بن عبد مناف(5) بن زہرہ(6) بن کلاب(7) بن مرہ۔
(السیرۃ النبویۃ لابن ہشام،اولاد عبد المطلب،ص48)
حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کے والدین کا نسب نامہ ”کلاب بن مرہ ” پر مل جاتا ہے اور آگے چل کردونوں سلسلے ایک ہو جاتے ہیں۔ ” عدنان” تک آپ کا نسب نامہ صحیح سندوں کے ساتھ باتفاق مؤرخین ثابت ہے اس کے بعد ناموں میں بہت کچھ اختلاف ہے اورحضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم جب بھی اپنا نسب نامہ بیان فرماتے تھے تو ”عدنان” ہی تک ذکر فرماتے تھے۔
(کرمانی بحوالہ حاشیہ بخاری ج 1، ص543)
مگر اس پر تمام مؤرخین کا اتفاق ہے کہ ”عدنان” حضرت اسمٰعیل علیہ السلام کی اولاد میں سے ہیں، اور حضرت اسمٰعیل علیہ السلام حضرت ابراہیم خلیل اللہ علیہ الصلوٰۃ والسلام کے فرزند ارجمند ہیں۔
خاندانی شرافت
حضورِاکرم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کا خاندان و نسب نجابت و شرافت میں تمام دنیا کے خاندانوں سے اشرف و اعلیٰ ہے اور یہ وہ حقیقت ہے کہ آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کے بدترین دشمن کفار مکہ بھی کبھی اس کا انکار نہ کر سکے۔ چنانچہ حضرت ابو سفیان نے جب وہ کفر کی حالت میں تھے بادشاہ روم ہر قل کے بھرے دربار میں اس حقیقت کا اقرار کیا کہ ”ھو فیناذونسب” یعنی نبی صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم ”عالی خاندان” ہیں۔
(بخاری ج1 ص4)
حالانکہ اس وقت وہ آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کے بدترین دشمن تھے اور چاہتے تھے کہ اگر ذرا بھی کوئی گنجائش ملے تو آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کی ذات پاک پر کوئی عیب لگا کر بادشاہ روم کی نظروں سے آپ کا وقار گرا دیں۔
مسلم شریف کی روایت ہے کہ اللہ تعالیٰ نے حضرت اسمٰعیل علیہ السلام کی اولاد میں سے ”کنانہ” کو برگزیدہ بنایا اور ”کنانہ” میں سے ”قریش” کو چنا ،اور ”قریش” میں سے ”بنی ہاشم” کو منتخب فرمایا،اور ”بنی ہاشم” میں سے مجھ کو چن لیا۔
(صحیح مسلم، کتاب الفضائل ، باب فضل نسب النبی صلی اللہ علیہ وسلم الحدیث:2276، ص1249)
بہر حال یہ ایک مسلمہ حقیقت ہے کہ حضورِانور صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کا خاندان اس قدر بلند مرتبہ ہے کہ کوئی بھی حسب و نسب والا اور نعمت و بزرگی والا آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کے مثل نہیں ہے۔
عرب ان کو ”قریش” کے لقب سے پکارنے لگے۔ چنانچہ اس بارے میں مشہور ہے کہ ”قریش” ایک جانور ہے جو سمندر میں رہتا ہے۔اسی کے نام پر قبیلۂ قریش کا نام ”قریش ” رکھ دیا گیا۔ (زرقانی علی المواہب ج 1 ص76)
حضرت ہاشم
حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کے پردادا ‘ ‘حضرت ہاشم” بڑی شان و شوکت کے مالک تھے۔ ان کا اصلی نام ”عمرو” تھا انتہائی بہادر ،بے حد سخی، اور اعلیٰ درجے کے مہمان نواز تھے۔ ایک سال عرب میں بہت سخت قحط پڑ گیااور لوگ دانے دانے کو محتاج ہو گئے تو یہ ملکِ شام سے خشک روٹیاں خرید کر حج کے دنوں میں مکہ پہنچے اور روٹیوں کا چورا کرکے اونٹ کے گوشت کے شوربے میں ثرید بنا کر تمام حاجیوں کو خوب پیٹ بھر کر کھلایا۔اس دن سے لوگ ان کو”ہاشم”(روٹیوں کاچورا کرنے والا)کہنے لگے۔ ( مدارج النبوۃ ج2 ص8)
چونکہ یہ ”عبدمناف” کے سب لڑکوں میں بڑے اور با صلاحیت تھے اس لئے عبد مناف کے بعد کعبہ کے متولی اور سجادہ نشین ہوئے بہت حسین و خوبصورت اور وجیہ تھے جب سن شعور کو پہنچے تو ان کی شادی مدینہ میں قبیلہ خزرج کے ایک سردار عمرو کی صاحبزادی سے ہوئی جن کا نام ”سلمیٰ” تھا۔اور ان کے صاحبزادے ”عبد المطلب” مدینہ ہی میں پیدا ہوئے چونکہ ہاشم پچیس سال کی عمر پاکر ملک شام کے راستہ میں بمقام ”غزہ” انتقال کر گئے۔ اس لئے عبدالمطلب مدینہ ہی میں اپنے نانا کے گھر پلے بڑھے،اور جب سات یا آٹھ سال کے ہو گئے تو مکہ آکر اپنے خاندان والوں کے ساتھ رہنے لگے۔
حضرت عبدالمطلب
حضوراقدس صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کے دادا ”عبدالمطلب”کااصلی نام ”شیبہ” ہے۔ یہ بڑے ہی نیک نفس اور عابد و زاہد تھے۔ ”غار حرا” میں کھانا پانی ساتھ لے کر جاتے اور کئی کئی دنوں تک لگاتار خداعزوجل کی عبادت میں مصروف رہتے۔ رمضان شریف کے مہینے میں اکثر غارِ حرا میں اعتکاف کیا کرتے تھے، اور خداعزوجل کے دھیان میں گوشہ نشین رہا کرتے تھے۔ رسول اللہ عزوجل و صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کا نورِ نبوت ان کی پیشانی میں چمکتا تھااور ان کے بدن سے مشک کی خوشبو آتی تھی۔ اہل عرب خصوصاً قریش کو ان سے بڑی عقیدت تھی۔ مکہ والوں پر جب کوئی مصیبت آتی یا قحط پڑ جاتا تو لوگ حضرت عبدالمطلب کو ساتھ لے کر پہاڑ پر چڑھ جاتے اور بارگاہِ خداوندی میں ان کو وسیلہ بنا کر دعا مانگتے تھے تو دعا مقبول ہو جاتی تھی۔ یہ لڑکیوں کو زندہ درگور کرنے سے لوگوں کو بڑی سختی کے ساتھ روکتے تھے اور چور کا ہاتھ کاٹ ڈالتے تھے۔ اپنے دسترخوان سے پرندوں کو بھی کھلایا کرتے تھے اس لئے ان کا لقب ”مطعم الطیر”(پرندوں کو کھلانے والا) ہے۔ شراب اور زنا کو حرام جانتے تھے اور عقیدہ کے لحاظ سے ”موحد” تھے۔ ”زمزم شریف” کا کنواں جو بالکل پٹ گیا تھا آپ ہی نے اس کو نئے سرے سے کھدوا کر درست کیا، اور لوگوں کو آب زمزم سے سیراب کیا۔ آپ بھی کعبہ کے متولی اور سجادہ نشین ہوئے۔اصحاب فیل کا واقعہ آپ ہی کے وقت میں پیش آیا۔ جس کا تذکرہ بڑی تفصیل سے ایک پوسٹ میں گزر چکا ہے۔ایک سو بیس برس کی عمر میں آپ کی وفات ہوئی۔
نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد گرامی ہے کہ۔ اللہ تعالٰی نے مخلوق پید اکی تو مجھے بہترین مخلوقات میں رکھا۔ پھر ان کے دو گروہ کئے تو مجھے بہتر گروہ میں رکھا۔ پھران کے خاندان بنائے تو مجھے بہتر خاندان میں رکھا۔ پس میں تمام مخلوق الہٰی سے خود بھی بہتر اور میرا خاندان بھی سب خاندانوں سے افضل ۔
(سنن الترمذی کتاب الدعوات حدیث ۳۵۴۳ دارالفکر بیروت۵ /۳۱۴)
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان معظم ہے کہ۔ اللہ تعالٰی نے خلق کی دو قسمیں کیں تو مجھے بہتر قسم میں رکھا ۔ اوریہ وہ بات ہے جو خدا تعالٰی نے فرمائی ۔ دہنے ہاتھ والے اوربائیں ہاتھ والے ، تو میں دہنے ہاتھ والوں سے ہوں ، اور میں سب دہنے ہاتھ والوں سے بہتر ہوں ۔ اوریہ خدائے تعالٰی کا وہ ارشاد ہے کہ دہنے ہاتھ والے اوربائیں ہاتھ والے ۔اورسابقین ، تو میں سابقین میں سے ہوں ، اور میں سب سابقین سے بہترہوں ۔ پھر ان حصوں کے قبیلے بنائے تو مجھے بہتر قبیلے میں رکھا ۔ اوریہ خدائے تعالٰی کا وہ فرمان ہے کہ ہم نے کیا تمہیں شاخیں اورقبیلے ۔(یعنی الی قولہ تعالٰی ان اکرمکم عنداللہ اتقٰکم بیشک تم سب میں زیادہ عزت والا خدا کے یہاں وہ ہے جو تم سب میں زیادہ پرہیزگار ہے ) تو میں سب آدمیوں سے زیادہ پرہیز گار ہوں ، اورسب سے زیادہ اللہ کے یہاں عزت والا ، اورکچھ فخر مراد نہیں ۔پھر ان قبیلوں کے خاندان کئے تو مجھے بہتر خاندان میں رکھا۔ اوریہ اللہ تعالٰی کا وہ کلام ہے کہ خدائے تعالٰی یہی چاہتاہے کہ تم سے ناپاکی دورکرے اے نبی کے گھروالو!اورتمہیں خوب پاک کردے ستھرا کر کے۔
( المعجم الکبیر حدیث۱۲۶۰۴ المکتبۃ الفیصلیۃ بیروت ۱۲ /۱۰۴)
ان جیسی احادیث کی شرح میں بہت سے محدثین نے لکھا ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے آباؤ اجداد میں سے کوئی بھی بت پرست نہیں تھا۔ بلکہ وہ دین ابراہیم پر ہی قائم تھے۔ اور سارے مطاہر وموحد یعنی ایک خدا کو ماننے والے تھے۔
( واللہ اعلم ورسولہ اعلم)
(زرقانی علی المواہب ج1 ص72)

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Check Also
Close
Back to top button