پاکستان

سابق ایس ایس پی ملیر راؤ انوار کمرہ عدالت کے باہر سے گرفتار

کراچی(رپوٹ ہارون رشید) سپریم کورٹ کے حکم پر سابق ایس ایس پی ملیر راؤ انوار کمرہ عدالت کے باہر سے گرفتار, راؤ انوار کو سندھ پولیس کے حوالے کر دیا گیا۔* تفصیلات کے مطابق نقیب اللہ قتل کیس میں معطل ایس ایس پی ملیر راؤ انوار سپریم کورٹ میں پیش ہوگئے، وہ عدالت میں چہرہ چھپا کر پیش ہوئے جب کہ انہیں سفید رنگ کی کار میں سپریم کورٹ کے عقبی دروازے سے لایا گیا۔ *چیف جسٹس نے نقیب اللہ قتل کیس کی سماعت کے دوران ریمارکس میں کہا کہ راؤ انوار آپ نے عدالت کو خط لکھنے کا جو طریقہ کار اپنایا وہ ٹھیک نہیں* جس پر وکیل راؤ انوار کا کہنا تھا کہ راؤ انوار نے خود کو عدالت کے سامنے پیش کر دیا، *چیف جسٹس نے ریمارکس میں کہا کہ آپ نے کوئی احسان نہیں کیا، بڑے دلیر بنتے تھے اور اتنے دن کہاں رہے، چھپ کر بیٹھے رہے اور کہاں بھاگتے پھرتے رہے، آپ نے عدالت پر اعتبار کیوں نہیں کیا، آپ تو خود مجرموں کو گرفتار کرنے والوں میں سے تھے عدالت نے راؤ انوار کے بینک اکاؤنٹس کھولنے کا حکم بھی دیا* جب کہ چیف جسٹس نے ریمارکس میں کہا کہ ہم جے آئی ٹی بنا رہے ہیں اور *توہین عدالت کا چارج واپس لے رہے ہیں تاہم راؤ انوار کی حفاظت کی جائے جب کہ آئی جی سندھ راؤ انوار کی حفاظت کے ذمہ دار ہوں گے۔ وکیل راؤ انوار کا کہنا تھا کہ پولیس راؤ انوار کے خلاف ہے جب کہ سندھ پولیس کے علاوہ دیگر ایجنسیوں کو تحقیقاتی ٹیم میں شامل کیا جائے جس پر چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ ایجنسیوں کا قتل کیس سے کیاتعلق ہے،آپ خود اسی پولیس میں شامل رہے ہیں۔* چیف جسٹس نے آئی جی سندھ سے استفسار کیا کہ اب تک تحقیقات کون کر رہا تھا جس پر آئی جی سندھ کا کہنا تھا کہ معاملے پر انکوائری کمیٹی اور ایک جے آئی ٹی تشکیل دی گئی تھی، چیف جسٹس نے ریمارکس میں کہا کہ 10 منٹ بعد ہم جے آئی ٹی کا اعلان کریں گے، آپس میں مشورہ کرنے جا رہے ہیں تاہم مت سوچیں ہم نے کسی اور سے مشورہ کرنا ہے۔ دو ماہ کی مفروری کے بعد سابق ایس ایس پی ملیر سپریم کورٹ میں پیش ہوئے تو چیف جسٹس نے راؤ انوار کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ آُپ تو بہادر ہیں اتنے دن کہاں تھے؟ ہم نے موقع فراہم کیا تو کیوں نہیں سرنڈر کیا،اس پر راؤ انوار عدالت کے سامنے خاموش کھڑے رہے اور کوئی جواب نہیں دیا۔ راؤ انوار کے وکیل نے جواب دیا کہ ان کے مؤکل حفاظتی ضمانت چاہتے ہیں جس پر چیف جسٹس نے کہا کہ ہم کوئی حفاظتی ضمانت نہیں دے رہے اور گرفتاری کے احکامات جاری کررہے ہیں۔ جسٹس ثاقب نثار نے کہا کہ ہم کمیٹی بنارہے ہیں، راؤ انوار کو جوکچھ کہنا ہے وہ اس کے سامنے جاکر کہیں۔چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ کس طرح آپ کی پولیس آپ کے مخالف ہوگئی، آپ اس پولیس کے ملازم ہیں اور وہی پولیس آپ کے مخالف ہوگئی۔ معطل ایس ایس پی کے وکیل نے استدعا کی کہ کمیٹی میں ایجنسیز کو شامل کیا جائے، اس پر چیف جسٹس نے سوال کیا کہ کون سی ایجنسی کو شامل کیا جائے؟راؤ انوار کے وکیل نے کہا کہ آئی ایس آئی اور آئی بی کو کمیٹی میں شامل کیا جائے، اس پر چیف جسٹس نے کہا کہ یہ کیس سیدھا سیدھا ہے ان کا تفتیش سے کیا تعلق؟ مجھے معلوم ہے آپ یہ کس وجہ سے کہہ رہے ہیں۔ چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ عدالتیں آزاد ہیں اور کسی کا اثر نہیں لیتی۔ عدالت نے کیس کی سماعت میں 10 منٹ کا وقفہ کیا اور وقفے کے بعد ایک بار پھر سماعت کا آغاز کرتے ہوئے راؤ انوار کے بینک اکاؤنٹس غیر منجمد کرنے کا حکم دیا۔ عدالت نے راؤ انوار سے تفتیش کے لیے ایڈیشنل آئی جی سندھ آفتاب پٹھان کی سربراہی میں جے آئی ٹی بھی تشکیل دے دی جس میں چار اعلیٰ پولیس افسران ولی اللہ دل، آزاد خان، ذوالفقار لاڑک اور ڈاکٹر رضوان کو شامل کیا گیا ہے۔اس سے قبل سپریم کورٹ نے کراچی میں ماؤرائے عدالت قتل کئے جانے والے نقیب اللہ سمیت دیگر دو کیسز میں سابق ایس ایس پی ملیر راؤ انوار کو گرفتار کرنے کا حکم دیتے ہوئے ان کی سیکیورٹی فراہم کرنے کی ہدایت کی ۔ تھوڑی دیر قبل نقیب اللہ قتل کیس میں مفرور سابق ایس ایس پی ملیر اچانک سپریم کورٹ پہنچے اور عدالت عظمیٰ کے سامنے پہنچتے ہی انہوں نے اپنے چہرے سے نقاب اتارا ، راؤ انوار سفید رنگ کی کرولا میں عدالت پہنچے تھے اور انکی گاڑی احاطہ عدالت تک گئی۔راؤ انوار گزشتہ کئی ماہ سے عدالت کو مطلوب تھے، ان پر کراچی میں ماورائے عدالت قتل کئے جانے والے نقیب اللہ کو قتل کرنے کا الزام ہے ۔ انیس مارچ کو ہونے والی سماعت میں چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس ثاقب نثار نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا تھا کہ راؤ انوار عدالت آجائے گا تو انہیں تحفظ مل جائے گا اور وہ بچ جائے گا، مگر ہم اس کے سہولت کاروں کو جان کر رہیں گے۔ جبکہ سولہ مارچ کو ہی انسداد دہشتگردی منتظم عدالت میں نقیب اللہ قتل کیس میں پولیس کی جانب سے حتمی چالان جمع کرایا گیا تھا،جس میں سابق ایس ایس پی راؤانوار، امان اللہ مروت، گداحسین اور شعیب عرف شوٹر سمیت 15 سے زائد ملزمان کو مفرور قرار دے دیا گیا تھا-

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button