دھرنے کی سپلائی کاٹ دیں،پیچھے کون فائدہ کس کو ،فرد واحد کی رٹ ہے، سپریم کورٹ
اسلام آباد(نیوز ایجنسیز؍نیوز وی او سی) سپریم کورٹ کے جسٹس مشیر عالم اور جسٹس قاضی فائز عیسیٰ پر مشتمل دو رکنی بنچ نے وفاقی دارلحکومت میں فیض آباد میں 18روز سے جاری دھرنے پر ازخود نوٹس کی سماعت کی۔ دوران سماعت عدالت نے اٹارنی جنرل اشتر اوصاف کو دھرنے والوں کی کھانے پینے کی سپلائی لائن کاٹنے اور ان کے بینک اکائونٹس منجمد کرنے کی ہدایت کی جبکہ وفاقی وزارت داخلہ اور وفاقی وزارت دفاع نے اپنی اپنی رپورٹس عدالت میں جمع کرادی جس پر جسٹس مشیر عالم نے استفسار کیا کہ کیا آپ نے رپورٹس کا جائزہ لیا ہے؟۔ رپورٹس میں کہا گیا ہے کہ پنجاب حکومت کو دھرنے سے متعلق قبل از وقت آگاہ کردیا گیا تھا۔ عدالت نے آئی ایس آئی اور آئی بی کی رپورٹس مسترد کرتے ہوئے اعلی افسر کو طلب کرلیا ۔
جسٹس قاضی فائزعیسیٰ نے استفسار کیا کہ کیا یہ لوگ باہر سے آئے، آئی ایس آئی کو معلوم نہیں، آئی ایس آئی طاقتور ادارہ ہے، سنجیدگی دکھائیں، اس سے اچھی رپورٹ تو میڈیا دےسکتا ہے اٹارنی جنرل آپ میڈیا میں سے کسی کا انتخاب کریں وہ بہتر رپورٹ دیں گے۔ انہوں نے ریمارکس میں مزید کہا کہ میڈیا بھی دھرنے والوں کی تشہیر نہ کرے۔ عدالت نے معاملہ طویل ہونے پربرہمی کا اظہار کیا اور سماعت جمعرات تک ملتوی کردی۔ جسٹس مشیر عالم نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ اس سے پہلے بھی وعدہ خلافی ہوچکی ہے اور اب بھی وعدہ خلافی ہورہی ہے تو کیا پنجاب حکومت یرغمال بن چکی ہے؟۔ دوران سماعت جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے استفسار کیا کہ دھرنے والوں کا خرچ کون اٹھا رہا ہے اور حکومت دھرنے والوں کے اخراجات کی تحقیقات کیوں نہیں کر رہی؟، پیچھے کون ہے اور فائدہ کس کو ہورہا ہے۔ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے اٹارنی جنرل پاکستان سے سوال کیا کہ کل کو کوئی دشمن آکر سڑکوں پر قبضہ کرلے تو کیا حکومت ان سے مذاکرات کرے گی؟۔ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ ایک شخص نے اسلام آباد اور پنڈی کے سنگم کو بند کر رکھا ہے، فرد واحد کی رٹ قائم ہے لیکن ریاست کی نہیں۔جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے ریمارکس دیے کہ کیا اسلام میں کوئی ڈنڈا ہے.
اسلام امن سے پھیلا ہے ڈنڈے سے نہیں۔ آپ ﷺ نے فرمایا کسی کو دیکھ مسکرانا صدقہ ہے۔ مگر مجھے مسکراتی شخصیات نظر نہیں آتیں، گالی گلوچ کی زبان نظر آتی ہے، کیا معاشرہ ایسے چل سکتا ہے۔جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے ریمارکس دیے کہ سب سے غلطی ہوتی ہے، غلطی تو مجھ سے بھی ہو سکتی ہے لیکن بضد نہیں ہونا چاہیے۔ کوئی غیر شرعی بات ہے تو شرعی عدالت موجود ہے، کیا اسلام میں دو رائے ہو سکتی ہیں، کنٹینر کا خرچہ بھی عوام برداشت کر رہے ہیں جبکہ ایجنسیوں پر اتنا پیسہ خرچ ہوتا ہے، ان کا کردار کیا ہے، سمجھ نہیں آ رہا کیا کریں۔ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے ریمارکس دیے کہ دشمنوں کے لیے کام بہت آسان ہو گیا، وہ ہمارے گھر میں آگ لگائیں گے، کتنے دن سے لوگوں کو تکلیف ہو رہی ہے، جب ریاست ختم ہو جائے گی تو فیصلے سڑکوں پر ہوں گے۔ اٹارنی جنرل نے عدالت کو بتایا کہ کوشش ہے معاملہ تشدد کی طرف نہ جائے۔