سائنس و ٹیکنالوجی

دماغ محفوظ کروائیں، حیات ابدی پائیں

دنیا کے تمام مذاہب اس بات پر متفق ہیں کہ ابن آدم فانی ہے اور ایک نہ ایک دن ہر انسان کو موت کا ذائقہ ضرور چکھنا ہے۔ بعض مذاہب حیات بعد از مرگ کو تسلیم نہیں کرتے جب کہ کچھ انسان کو ایک سے زائد بار جیون ملنے کا پرچار کرتے ہیں۔
فراعنہ مصر کے ادوار میں بھی یہی عقیدہ پایا جاتا تھا۔ اسی لیے ان کی ممیوں کے ساتھ زروجواہر اور ان کے پالتو جانوروں کی ممیاں بھی دریافت ہوئی ہیں۔ بہرحال حیات جاودوانی یعنی ہمیشہ ہمیشہ کی زندگی پانے کی خواہش ہر دور میں دنیا کے کسی نہ کسی حصے میں بسنے والے لوگ کرتے رہے ہیں۔ ابدی زندگی پانے کے لیے اپنے اپنے عقائد اور سمجھ بوجھ کے مطابق کوششیں بھی ہوتی رہی ہیں۔
سائنس و ٹیکنالوجی کے اس دور میں حیات جاودانی کا تصور بدل گیا ہے۔ ٹیکنالوجی اور انسان کے مابین تعامل ( انٹرایکشن) بڑھتا جارہا ہے۔ ٹیکنالوجی انسانی سوچ کو پڑھنے کے قابل ہوچکی ہے۔ انسان کی سوچ سے متحرک ہونے والے مصنوعی اعضا، ویڈیوگیم اور دیگر الات اس کی مثال ہیں۔
یہ تصور کئی برس پہلے سامنے آچکا تھا کہ اگر انسان کی سوچ کو دماغ سے کمپیوٹر یا ایسی ہی کسی مشین میں منتقل کیا جاسکے تو پھر ابدی حیات ممکن ہوسکتی ہے کیوں کہ بنیادی طور پر انسان سوچ ، شعور اور احساسات ہی کا دوسرا نام ہے۔ اگر جسم میں دماغ نہ ہو یا دماغ میں خیالات پیدا نہ ہوں، کوئی سوچ نہ اُبھرے تو پھر انسان کا زندہ یا مُردہ ہونا برابر ہے۔ اگر انسان کی سوچ اور خیالات، بہ الفاظ دیگر دماغ کو کمپیوٹر میں منتقل کیا جاسکے تو پھر انسان اپنی سوچ کے ذریعے اس مشین کی صورت میں زندہ رہ سکتا ہے۔
اگرچہ ابھی تک ٹیکنالوجی اس نہج پر نہیں پہنچ سکی جہاں دماغ اور اس میں جاری افعال کو پوری طرح پڑھا اور سمجھا سکے، تاہم سائنس دانوں اور بہت سے عام لوگوں کو یقین ہے کہ مستقبل میں ٹیکنالوجی اس قابل ہوجائے گی۔ بہ الفاظ دیگر انسانی دماغ اور سوچ کو مشین میں منتقل کیا جاسکے گا۔ اسی بنیاد پرکیلے فورنیا میں ایک کمپنی قائم کی جاچکی ہے، جو اپنے گاہکوں کو ان کے دماغ محفوظ بنانے کی پیش کش کررہی ہے تاکہ مستقبل میں ان کے دماغ میں ذخیرہ شُدہ معلومات کمپیوٹر میں منتقل کی جاسکیں۔
نیکٹوم نامی کمپنی کا دعویٰ ہے کہ ایک روز دماغ کے ’ کنیکٹوم‘ ( دماغ کے اندر اعصابی روابط یا جوڑ ) کو اس قدر تفصیلی طور پر پڑھنے میں کام یابی حاصل کرلی جائے گی کہ ایک فرد کی موت کے طویل عرصے کے بعد بھی اس کی یادداشتوں کو ازسرنو تشکیل دیا جاسکے گا۔ یادداشتیں ’ زندہ‘ ہوتے ہی اس فرد کو دوبارہ اور ہمیشہ ہمیشہ کی زندگی مل جائے گی۔
سائنس دانوں کے مطابق ابھی وہ دن بہت دور ہے مگر نیکٹوم اس امید پر لوگوں کو ان کے دماغ محفوظ بنانے کی پیش کش کررہی ہے کہ بالآخر ایک روز ٹیکنالوجی ترقی کرتے کرتے اس مقام تک پہنچ جائے گی جہاں دماغ میں ذخیرہ شدہ یادداشتوں، خیالات، سوچ اور احساسات کو کمپیوٹر پروگرام یا پھر ایسی ہی کوئی اور شکل دی جاسکے۔
نیکٹوم کی پیش کش کی بنیاد مستقل میں ٹیکنالوجی کے انسانی دماغ کی ساخت کو مکمل طور پر پڑھ لینے کے قابل ہوجانے کے علاوہ اس نکتے پر بھی ہے کہ انسانی جسم کے ختم ہوجانے کے باوجود ضروری نہیں کہ دماغ میں محفوظ شدہ یادداشتیں بھی مٹ جائیں، یہ اس عضو کے اندر موجود رہتی ہیں۔
برین پریزرویشن فاؤنڈیشن کے صدر اور نیوروسائنٹسٹ کین ہیورتھ دماغ کو کمپیوٹر سے تشبیہہ دیتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ جیسے کمپیوٹر کو آف کرنے کے بعد تمام ڈیٹا ہارڈ ڈسک میں موجود رہتا ہے، بالکل اسی طرح انسان کی موت کے بعد دماغ میں یادداشتیں محفوظ رہتی ہیں۔
نیکٹوم کی پیش کش سے مستفید ہونے اور ’ حیات ابدی‘ حاصل کرنے کے خواہش مندوں کو اپنی زندگی سے محروم ہونا پڑے گا۔ ظاہر ہے دماغ کو اسی صورت میں محفوظ کیا جاسکتا ہے جب روح اور جسم کا رشتہ ٹوٹ جائے۔ بہ الفاظ دیگر’ ڈیجیٹل‘ صورت میں زندہ رہنے کے خواہش مندوں کو خودکشی کرنی ہوگی اور یہ پورا عمل کمپنی کے ماہرین کی زیرنگرانی ہوگا۔ خودکشی کے بعد اس فرد کا دماغ کھوپڑی میں سے نکال کر کیمیکلوں سے بھرے جار میں رکھ کر محفوظ کردیا جائے گا۔
امریکی کمپنی تجرباتی طور پر ایک سور کا دماغ محفوظ کرچکی ہے۔ اس کا دعویٰ ہے کہ جانور کا دماغ اس کاملیت کے ساتھ محفوظ کیا گیا ہے کہ الیکٹرانی خردبین کے ذریعے ہر عصبیے کا مشاہدہ کیا جاسکتا ہے۔
کمپنی اس بات کی کوئی ضمانت نہیں دیتی کہ دماغ کو محفوظ کیے جانے کے بعد اس میں سے یادداشتوں کی کمپیوٹر میں منتقلی ہوسکے گی، اس کے باوجود لوگ حیات ابدی پانے کے لیے بے چین ہورہے ہیں اور اپنی موت سے لے کر دماغ کو محفوظ بنائے جانے تک کے پورے عمل کی مقررہ فیس، دس ہزار ڈالر ادا کرنے کے لیے تیار ہیں۔ نیکٹوم کی یہ سروس کچھ سال کے بعد دست یاب ہوگی، لیکن کم از کم پچیس افراد اب تک اپنے دماغوں کو محفوظ کروانے کے لیے درخواست دے چکے ہیں۔
امریکی کمپنی کی دماغ محفوظ بنانے والی سروس اور حیات جاودانی کے دعوے سے کئی نیوروسائنٹسٹ متفق نہیں ہیں۔ ہارورڈ یونی ورسٹی میں کمپیوٹیشنل نیوروسائنٹسٹ سام گرشمین کہتے ہیں ممکن ہے جزوی طور پر دماغ میں محفوظ یادداشتوں کو ڈی کوڈ کیا جاسکے مگر کُلی طور پر ایسا کرنا ممکن نہیں ہوگا۔ کئی سائنس دانوں کا یہ بھی کہا ہے کہ اس بات کا کوئی ثبوت نہیں کہ مُردہ دماغ میں یادداشتیں محفوظ اور موجود رہتی ہیں۔

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button