خطرناک روائت
کالم :- طارق حسین بٹ شان
پاکستانی سیاست ایک نیا موڑ مڑ چکی ہے اور سینیٹ انتخابات ایک نئے سیاسی کلچر کے آغاز کا عندیہ دے رہے ہیں کیونکہ ان انتخابات میں جس طرح ضمیر فروشی کیلئے پیسے کی طاقت کا بے دریغ استعمال ہوا ہے وہ بیان سے باہر ہے۔یہ ایک نئے پاکستان کا نیا بیانیہ ہے کہ جو چیز آرزو کا جامہ پہن لے اسے دولت کی میزان میں کھڑا کر و،اس کی قیمت لگاؤ اور اسے ہر قیمت پر حا صل کر لو۔اس خاص لمحے میں ہماری قیاد ت کو نہ تو قائدو اقبال کی یاد آتی ہے،نہ اسلامی فلاحی ریاست کے قیام کی غرض و غائت کا ا تصور ابھرتا ہے،نہ قربانیوں کا لہو نظر آتا ہے،نہ قومی ذمہ داری کی جھلک دکھائی دیتی ہے، نہ اخلاقی حدود کا کہیں نفاذ ہو تا ہے،نہ اقدار کی محبت دامن کھینچتی ہے، نہ معاشرتی ضابطے اپنا رنگ دکھاتے ہیں اور نہ ہی شرم و حیا کا کہیں گزر ہو تا ہے۔جیت کی دیوانگی ہر شہ کو نگل جاتی ہے اور قوم حیران و پریشان سارا منظر دیکھ کر سکتے میں آ جاتی ہے۔جھنیں بے شرمی کی لت لگ جائے انھیں کوئی نہیں سمجھا سکتا۔ان کیلئے جائز و نا جائز کی کوئی اہمیت نہیں رہتی لہذا اقتدار کی ہوس اور دیوانگی بھوکے ڈینا سور کی طرح ہر شہ کو ہڑپ کر جاتی ہے لیکن بھوک پھر بھی نہیں مٹتی۔یہ کیسی بھوک ہے جس کی کوئی انتہا نہیں ہے۔ ساری دنیا جانتی ہے کہ بلوچستان، سندھ،پنجاب اور خیبر پختونخواہ اسمبلیوں میں خریدو فروخت کا بازار کس جماعت نے سجایا تھا؟ نام لینے کی ضرورت نہیں لوگ بخوبی جانتے ہیں کہ وہ کون ہے جو اس کاروبار میں بے تاج بادشاہ ہے۔باعثِ حیرت ہے کہ جس جماعت نے دوسری جماعتوں کے ممبرانِ اسمبلی کی منڈی سجائی چیرمین سینیٹ کے انتخاب میں پی ٹی آئی نے اسی جماعت کے ساتھ اتحاد کا فیصلہ کر کے قومی شرمناکی کو جائز ہونے کا جواز بخش دیا۔شائد پی ٹی آئی کیلئے مسلم لیگ (ن) کی ہار ان اصولوں سے کہیں زیادہ قیمتی تھی جس کا ڈھونڈورا وہ سالہا سال سے پیٹ ر ہی تھی۔ انھوں نے آؤ دیکھا نہ تاؤ پی پی پی کا ہاتھ تھام کر چلتے بنے اس چیز سے بے نیاز کہ اس راہ میں انھیں کتنا نقصان ہونے والا ہے؟ میری ذاتی رائے ہے کہ پی ٹی آئی کی قیادت کا ذہنِ نا رسا نقصان کی گہرائی ماپنے سے قاصر ہے۔ آصف علی زرداری کی کرپشن کی داستانیں سنانے والے،انھیں ڈاکو کے لقب سے پکارنے والے اور انھیں سربازار سب سے بڑی بیماری کہنے والے آزمائش کی گھڑی میں ریت کی دیوار ثابت ہوئے۔اب عوام کس کا دامن پکڑیں کیونکہ عوام نے جس سے امیدیں وابستہ کی تھیں وہ تو نواز شریف دشمنی میں درِ سنجرانی پر سجدہ ریز ہوگیا۔ عوام کو اس سے اس طرح کے کردار کی قطعا کوئی امید نہیں تھی۔وہ تو اسے ایک فائٹر سمجھ کر اس کا دامن تھامے ہوئے تھے لیکن وہ تو مٹی کا مادھو نکلا۔یہ سجدہ کیا ہے؟ َ یہ جھکنا کیا ہے؟ یہ بکنا کیا ہے؟سن لو،اصولوں کا سودا کر دیا جائے،ضمیر کو مار دیا جائے، نظریے کو دفن کر دیا جائے تو اسے ہی جھکنا کہتے ہیں اور اسے ہی سجدہ کہتے ہیں۔کاش وہ بھی بولیں جو بکے اور جھکے ہیں۔چیف جسٹس ثا قب نثار کا یہ کہنا کہ ووٹ کی خریدو فروخت جرم ہے لیکن خریدنے اور بکنے والے ممبرانِ پارلیمنٹ ہیں۔کیا یہ پارلیمنٹ کی تحقیر نہیں ہے؟اگر ایسا ہے تو پھر اس کے ذمہ دار وہ سیاسی قائدین ہیں جو ذاتی مفاد کی خاطر عوام کی قسمت کا سودا کر دیتے ہیں۔ یہ ہمارے قائدین کا اصلی چہرہ ہے جن کے ہاتھوں میں ہم نے قوم کا مقدر تھمایا ہوا ہے۔ہر قائد دعوی کئے جارہا ہے کہ وہی قومی نا خدا بننے کا اہل ہے لیکن وقتِ آزمائش وہی ریت کی دیوار ثابت ہوتا ہے کیو نکہ دولت کی ہوس نے ہر شہ کو اپنی مٹھی میں بند کر لیا ہے۔ پی پی پی اور پی ٹی آئی کا خامو ش اتحاد ان آرزؤں کا خون ہے جھنیں عوام نے اس نظام کو بدلنے کیلئے پال رکھا ہے۔ سینیٹ انتخاب میں اسٹیبلشمنٹ ایک نئی قوت کے ساتھ سامنے آئی ہے اور اس کا دائرہ اختیار مزید بڑھا ہے۔اس کی وجہ یہ ہے کہ اسٹیبلشمنٹ کی سب سے بڑی حریف جماعت پی پی پی تھک چکی ہے اور مزید قربانیاں دینے کی سکت نہیں رکھتی۔ جیالوں کی وہ کھیپ جو ذولفقار علی بھٹو کی زیرِ تربیت پروان چڑھی تھی اب ناپید ہوتی جا رہی ہے لہذا اصول پرستی کی سیاست اپنی موت مر چکی ہے۔،۔
پاکستان کی تاریخ میں یہ پہلی دفعہ ہوا ہے کہ کوئی آزاد ممبر سینیٹ کا چیرمین منتخب ہوا ہے۔پاکستان میں جماعتی بنیادوں پر انتخابات ہوتے ہیں اور عوام اپنی من پسندیدہ جماعتوں کو ووٹ دے کر انھیں اقتدار کا حق دار ٹھہراتے ہیں۔ لیکن حالیہ انتخاب میں ایک خطرناک روائیت کی داغ بیل ڈال دی گئی ہے۔کمزور بنیادوں پر کھڑی عمارت ہمیشہ زمین بوس ہو جاتی ہے اور اس نئی روش کا انجام دیر یا بدیر ایسا ہی ہونا ہے۔پہلے آزاد ارا کین جماعتوں کا رخ کرتے تھے لیکن اب جماعتیں آزاد اراکین کے ہاتھوں بلیک میل ہو رہی ہیں کیونکہ کوئی اور ایسا چاہتا ہے۔ میری ذاتی رائے ہے کہ الیکشن ۸۱۰۲ میں اگلے وزیرِ اعظم کیلئے آزاد ارکان کو ہی ترجیح دی جائیگی تا کہ کٹھ پتلی وزیرِ اعظم نامزد کرنے کی آرزو حقیقت کا جامہ پہن لے۔اس دفعہ الیکشن ۸۱۰۲ میں بہت سے امیدوار آزاد حیثیت میں انتخاب میں قسمت آزمائی کریں گے اور پھر خریدو فروخت کی ایسی منڈہی سجے گی. جس سے جمہوری نظام مزید کمزور ہو گا۔اس بات کا سب سے زیادہ نقصان پی ٹی آئی کو ہوگا کیونکہ اس وقت عمران خان وزیرِ اعظم کے سب سے مضبوط امیدوار ہیں۔۳۷۹۱ کے آئین میں پہلی بار سینیٹ کا ادارہ وجود پذیر ہوا او رخان حبیب اللہ خان مروت اس کے پہلے چیرمین نامزد ہوئے تو اس وقت سے لے کر رضا ربانی تک سارے چیرمینوں کا تعلق کسی نہ سیاسی جماعت سے تھا۔ یہ کیسی جمہوریت ہے جس میں چیرمین کا تعلق کسی جماعت سے نہ ہو بلکہ ایک آزاد گروپ پورے نظام کو یرغمال بنا لے؟یہ تو جمہوریت کی نفی کرنے کی بات ہوئی۔جہاں ملک کی دونوں بڑی جماعتیں اپنا چیرمین نہیں لا سکتیں وہا ں جمہوری کلچر کی مضبوطی کا اندازہ بخوبی لگایا جا سکتا ہے۔عجیب دیوانگی ہے کہ کسی ایک جماعت کی شکست کی خاطر سب کچھ طاق ِ ِ نسیاں کر دیا گیا۔پی پی پی غیر جماعتی سیاست کی شروع سے ہی شدید مخالف رہی ہے اور یہی وجہ تھی کہ محترمہ بے نظیر بھٹو بلدیاتی انتخابات بھی جماعتی بنیادوں پر کروانے پر مصر تھی لیکن آج حالت یہ ہے کہ میاں نواز شریف کی دشمنی میں وہی جماعت غیر جماعتی سیاست کو فروغ دے رہی ہے اور ایک آزاد رکن کو چیرمین سینیٹ بنا کر اس نے جماعتی نظام کی دھجیاں بکھیر دی ہیں۔پی ٹی آئی کیلئے بہترین راہ یہ تھی کہ وہ ڈ پٹی چیرمین کے انتخاب میں پی پی پی کے امیدوار کو ووٹ دینے سے اجتناب کرتی لیکن اس نے پی پی پی کے امیدوار کو ووٹ دے کر ثابت کر دیا کہ اس کی نظر میں نظریے کی نہیں بلکہ نواز دشمنی کی اہمیت ہے۔ در اصل پی ٹی آئی کی اصلی اور پہلی حریف تو پی پی پی تھی کیونکہ ماضی میں عمران خان اور میاں محمد نواز شریف بھٹو دشمنی میں ایک ساتھ کھڑے تھے۔یہ بات اب معمہ بنی ہوئی ہے کہ عمران خان کو راتوں رات کیا سوجھی کہ انھوں نے اپنی ساری جدو جہد کو پسِ پشت ڈال کر پی پی پی کے ساتھ ہاتھ ملا لیا۔شائد انھوں نے آئینہ دیکھنا ترک کر دیا ہے؟انھیں احساس نہیں ہے کہ انھوں نے کتنا بڑا بلنڈر کیا ہے؟اب پی ٹی آئی اپنی حریف جماعت پی پی پی کو ووٹ دینے کے اپنے عمل کی وضاحتیں کر رہی ہے لیکن بات نہیں بن رہی کیونکہ جو کچھ ہواہے وہ خواب نہیں بلکہ ایک حقیقت ہے اور عوامی اذہان میں اضطراب پیدا کر رہا ہے۔۸۱۰۲ کے الیکشن تک پی ٹی آئی وضاحتیں دیتے دیتے تھک جائیگی لیکن بات پھر بھی نہیں بنے گی کیوکہ تیر کمان سے نکل چکا ہے۔پی پی پی کو ووٹ دینا اپنے پاؤں پر کلہاڑی چلا نے کے مترادف تھا اور پی ٹی آئی نے اسی روش کا اظہار کیا ہے۔ عمران خان وقتی مصلحتوں کی خاطر اپنے اصولی موقف سے ہٹ رہے ہیں تو عوام کی نظر میں ان کی اہمیت کم ہورہی ہے۔عوا م سچی،نڈر اور با جرات قیادت کے ساتھ کھڑ اہونا پسند کرتے ہیں لہذا عمران خان کو ذاتی مصلحتوں سے بالا تو ہو کر عوا می توقعات کی لاج رکھنی ہو گی کیونکہ کامیابی کا یہی واحد اور سیدھا راستہ ہے جبکہ باقی سارے راستے ناکامی اور رسوائی کے راستے ہیں۔،۔