خان سے ’’خفیہ‘‘ملاقات* (سہیل وڑائچ کا کالم)
خان سے ’’خفیہ‘‘ملاقات*
*سہیل وڑائچ، 26 نومبر ، 2024*
*(یہ کالم صرف آخر تک پڑھنے والوں کو ہی سمجھ آئے گا۔۔۔)*
رات کا اندھیرا تھا ہاتھ کو ہاتھ سجھائی نہ دیتا تھا مگر میں کسی نہ کسی طرح اڈیالہ پہنچ گیا جیلروں کی آنکھ میں دھول جھونکنا تو مجھے آتا ہے، میں نے انہیں باتوں میں لگا کر ایسا الجھایا کہ انہوں نے مجھ سے تعرض نہ کیا، میں پوچھتا پچھاتا خان کی بیرک میں جا پہنچا، وارڈ کے دروازے کو زور سے کھٹکھٹایا تو سویا ہوا خان ہربڑا کر اٹھ بیٹھا ۔ دروازے کے قریب آکر مجھے دیکھا، پہچاننے کی کوشش کی اور پھر کہا سہیل! تم بھی جیل پہنچ گئے؟ تمہیں بھی بند کر دیا؟ یہ تھوڑا سا سچ بھی برداشت نہیں کرتے، اب صحافیوں کو بھی جیل بھیجنا شروع کر دیا ہے۔
میں اس اچانک حملے سے گھبرا گیا مگر خان کے دو تین فقروں کے بعد میں نے کہا کہ میں جیل میں بند نہیں ہوا، آپ سے خفیہ ملاقات کیلئے آیا ہوں ۔ جیلروں سے جھوٹ سچ بول کر آپ کے پاس آ پہنچا ہوں تاکہ آپ سے ملک میں جاری بحران کے بارے میں بات کر سکوں۔ براہ راست گفتگو سے کئی لاینحل مسائل بھی منٹوں میں حل ہو سکتے ہیں ۔ خان نے کہا دیکھو 24 نومبر کو انہیں پورا ملک بند کرنا پڑا، یہ مجھ سے خوفزدہ ہیں، میں جو چاہتا تھا وہ ہو گیا ۔ تحریک انصاف جب چاہے پورا ملک بند کر سکتی ہے، ملک میں اور کونسی ایسی سیاسی قوت ہے جو یہ کام کر سکے۔
میں چپ رہا ۔ خان نے کہا تمہیں یاد ہے جب ہم اکٹھے میانوالی گئے تھے اور کالا باغ ڈیم کی سائٹ کا دورہ کیا تھا، پھر کہا کہ وہ ٹرک اڈے کا کھانا بھی یاد ہے؟ میں نے مسکرا کر کہا جی مجھے یاد ہے، اسی انٹرویو میں آپ نے پہلی بار جمائما خان سے اختلافات کا انکشاف کیا تھا۔ خان نے سرد آہ بھری، شاید اسے اپنی پہلی بیوی اور بچے یاد آ رہے ہوں، جیل کی تنہائی میں اکثر وہ کچھ یاد آتا ہے جو آپ اکثر چھپائے رکھتے ہیں۔ میں سلاخوں کے باہر کھڑا تھا، دور سے کہیں ملگجی ہلکی روشنی نظر آ رہی تھی، خان کی صحت ٹھیک ٹھاک تھی، شیو بنی ہوئی تھی ۔ اس نے بتایا کہ ابھی اس نے سخت ورزش کی ہے، اس لئے گہری نیند لے رہا تھا، پھر بتایا کہ تحریک زوروں پر ہے، قافلے روانہ ہو چکے ہیں، یہ تب تک نہیں اٹھیں گے جب تک میری اور تمام قیدیوں کی رہائی نہیں ہوتی۔ پھر مجھ سے پوچھا خیر تم بتاؤ یہاں کیسے آئے ہو؟ میں نے عرض کی کہ خان صاحب آپ کافی اندھیرے میں رکھے جا رہے ہیں، آپ کو غلط اطلاعات مل رہی ہیں، میں آپ کو الیکشن سے پہلے کہتا رہا کہ آپ کو مقبولیت تو حاصل ہے، قبولیت حاصل نہیں، میرا مذاق اڑایا گیا مگرتلخ حقیقت یہی تھی۔
آج میں آپ سے دست بستہ عرض کر رہا ہوں کہ آپ کی مقبولیت تو برقرار ہے مگر آپ کی اپنے چاہنے والوں پر گرفت نہیں ہے، پنجاب آپ کے حامیوں سے بھرا پڑا ہے، لاہور میں تحریک انصاف کا غلغلہ ہے مگر کوئی ایک جلوس، ایک بڑا جتھا یا کوئی مشتعل شخص باہر نہیں نکلا، جس سے پتہ چل رہا ہے آپ کے پاس ایسا ہجوم ہے جس کا کنٹرول آپ کے پاس نہیں ہے ۔ آپ کے پاس نہ تنظیم ہے، نہ ڈسپلن ہے، احتجاجی تحریک اس کے بغیر نہیں چلتی، پورے پنجاب میں صرف میانوالی سے ہتھیار بند سرفروش نکلے ہیں اور حفاظتی ناکوں کو توڑتے ہوئے اسلام آباد کے قریب پہنچے ہیں، ہزاروں کا جلوس صرف پختونخوا سے ہی آ رہا ہے، باقی سوائے اٹک اور میانوالی کے پنجاب میں مکمل سکوت ہے، اسے خوف، دبدبہ اور آمرانہ ہتھکنڈے کہنا درست ہو گا مگر یہ بھی ضرور کہا جائے گا کہ خوف کے باوجود لگن اور جذبے کی کمی ہے ۔
شیدائی تو بہت ہیں سوشل میڈیا پر مگر یہ گفتار کے غازی ہیں کردار کے نہیں، یہ محفوظ اننگز کھیلتے ہیں، چوکا چھکا مارنے کا حوصلہ نہیں کرپاتے، بس ٹک ٹک کرکے کھیلنا چاہتے ہیں۔ خان صاحب نے میرے سیل رواں کو رکنے کا اشارہ دیتے ہوئے کہا مجھے آپ کی باتوں کا یقین نہیں، آپ بھی لفافی ہو گئے ہو۔ ہر کسی کو میری فتح کا علم ہے، میں جیت گیا ہوں حکومت اور مقتدرہ اپنے اقدامات کی وجہ سے ہار گئی ہے، میری اخلاقی فتح ہوئی ہے۔
میں نے کہا جان کی امان پاؤں تو عرض کروں؟ انہوں نے اشارہ کیا ہاں تو میں بولا کہ اخلاقی فتح تو ہم مثالیت پسندوں کے باغ کی مولی ہے، آپ تو عملیت پسند ہیں، آپ کو مادی فتح نہ ملی تو اسے شکست ماننا پڑے گا، یہ تو ہم ہمیشہ سے ہارے ہوئے لوگوں کا نظریہ ہے کہ ہم ملامتی ہمیشہ ہار کر بھی جیتتے ہیں، ہماری ہر شکست میں فتح ہوتی ہے۔ آپ صوفی ضرور ہونگے مگر آپ تو مادی فتح والے سیاست دان بھی ہیں۔ خان نے کہا دیکھو سہیل حد ہو گئی ہے ۔ 2024ء میں دھاندلی کی انتہا ہو گئی عدالتوں کو ترمیم کے ذریعے انصاف دینے سے روک دیا گیا، فوج جانبدار ہو چکی ہے، حکومت میں بیٹھے سیاست دان بے غیرت ہیں، انہیں شرم نہیں آتی جعلی مینڈیٹ پر حکومت کرتے ہوئے ، میں نے ایک قدم پیچھے ہٹ کر ہاتھ باندھ لئے۔
عمران ایک لمحے کیلئے ششدر ہوئے، پھر مسکرا کر بولے کیا ہوا؟ میں نے عرض کیا جو آپ کہہ رہے ہیں 2018ء میں یہی بات آپ کے مخالف کہتے تھے، وہ کہتے تھے آپ سلیکٹڈ وزیر اعظم ہیں، وہ کہتے تھے فوج نے آپ کو جتوایا ہے، عدالتوں نے ن کیخلاف فیصلے دیئے تھے اور اس وقت فوج آپ کے ساتھ ایک صفحہ پر ہوتی تھی اور آپ اس کا فخریہ اعتراف بھی کرتے تھے ۔ ہوسکتا ہے کہ آپ کے ساتھ زیادہ زیادتی ہو گئی ہو مگر فرق تھوڑا بہت ہے جو کچھ ان کے ساتھ ہوا، وہی آپ کے ساتھ ہو رہا ہے، آپ کو درد زیادہ ہو رہا ہے۔ ناراض ہوتے ہوئے خان نے کہا کہ ہمارے ساتھ تو حد ہو گئی ہے، عورتوں تک کو بند کر دیا گیا ہے، گھر توڑ دیئے گئے، اتنا ظلم کبھی نہیں ہوا، میں نے پھر دست بستہ عرض کی کہ ایسا پہلی بار نہیں ہوا ۔ پاکستان بننے کے بعد کمیونسٹوں کے ساتھ کیا کیا ظلم نہ روا رکھے گئے 80ء کی دہائی میں اکثر کمیونسٹ سزائوں اور مشکلات، جاسوسی اور ظلم و ستم کے باعث آ دھے پاگل اور ابنار مل ہو چکے تھے، جو چند بچ گئے تھے وہ نفسیاتی بیماریوں کا شکار ہو گئے تھے، پھر تھوڑے عرصے کیلئے جماعت اسلامی کی باری آئی اور اگلے پندرہ بیس سال پیپلز پارٹی کوڑوں، جیلوں اور پھانسیوں کو بھگتتی رہی، یہاں تو یہ سلسلہ شروع سے ہی چل رہا ہے ۔ یہاں کبھی کوئی مظلوم ہوتا ہے تو کبھی وہی ظالم بن جاتا ہے ۔خان کو نہ میرے تجزیے سے اتفاق تھا اور نہ اسے میری باتیں پسند آ رہی تھیں۔
مگر اس نے یہ خیال کرتے ہوئے کہ میں اتنی دور سے پتہ نہیں کیسے جیل اس کے سیل تک پہنچا ہوں، مجھے ٹالنے کی خاطر سوال کیا کہ اچھا پھر بتاؤ کہ مسئلہ کا حل کیا ہے ؟ میں نے ترنت جواب دیا لچک دکھاتے ہوئے مصالحت کی طرف پیش قدمی ۔ خان نے کہا کہ یہ ہر بار مجھے دھوکہ دیتے ہیں، پچھلے دروازے سے مذاکرات شروع کرتے ہیں اور پھر اپنا کام نکلوا کر وعدے پورے نہیں کرتے۔ ان سے اب بات نہیں کرنی، اب معاملہ سڑکوں پر ہی طے ہو گا ۔ میں نے لجاجت سے عرض کی کہ نہیں آپ سب سے مقبول ہیں، راستہ نکلنا چاہئے ۔ خان نے فوراً پوچھا راستہ ہے کیا ؟
میں نے کہا وہی راستہ جو نون اور پیپل نے 2018ء میں اختیار کیا، وہی آپ اختیار کریں جیسے انہوں نے دھاندلی کے باوجود سسٹم کو مان لیا، آپ بھی مان لیں جس طرح انہوں نے آہستہ آہستہ مقتدرہ سے پینگیں بڑھائیں، آپ بھی بڑھالیں ۔ قومی حکومت میں شامل ہو کر آئندہ انتخابات کو منصفانہ اور غیر جانبدارانہ بنوالیں ۔ یہی آپ کی فتح ہو گی۔ حکومت روز بروز غیر مقبول ہو گی، آپ اسمبلی میں بیٹھ کر اس پر تنقید کریں ۔ ہڑتالیں، دھرنے اور لانگ مارچ چھوڑ یں، اسمبلی کی سیاست کریں، لیڈر آف دی اپوزیشن بنیں، آئندہ حکومت کیلئے تیاری کریں ۔ پہلے سے ماہرین کو بلا کر حکمت عملی طے کریں، نئے دور نئی سیاست کا آغاز کریں ۔ خان نے حیرت زدہ ہو کر میری طرف دیکھا ۔ ایک رنگ غصے کا تھا اور ایک رنگ حیرت کا ۔۔۔۔ پھر کہا قومی حکومت پر بات ہو سکتی ہے، میرا دل خوش ہو گیا ۔ میں نے آگے بڑھ کر خان سے وفور جذبات میں ہاتھ ملانا چاہا تو اچانک اپنی گردن پر ایک اجنبی ہاتھ کی گرفت محسوس ہوئی اور پھر زور سے میری کمر پر ڈنڈے کا وار ہوا، میں شدت تکلیف سے دوہرا ہو گیا، تکلیف میں گرفتار سمجھ نہیں آ رہی تھی کہ یہ وار کس کا ہے اچانک میں درد سے کراہتا ہوا اپنے بستر سے اٹھ بیٹھا….
[