خالد خواجہ قتل کیس، حامد میر بھی میدان میں آگئے، ایسی بات کہہ دی کہ صحافیوں کی پریشانی کی حد نہ رہے گی
اسلام آباد (نہوز وی او سی آن لائن) سینئر صحافی حامد میر نے اپنے خلاف درج ہونے والے مقدمے کو صحافیوں کی آواز دبانے کی کوشش قرار دیا اور کہا ہے کہ وہ اس مقدمے میں 2010 میں عدالت سے بے گناہ قرار پاچکے ہیں، لیکن دوبارہ مقدمہ درج کرکے ان کی آواز دبانے کی کوشش کی جا رہی ہے لیکن وہ کہیں نہیں بھاگیں گے اور عدالتوں کا سامنا کریں گے۔
آئی ایس آئی کے ریٹائرڈ افسر خالد خواجہ کے اغوا کا مقدمہ درج ہونے کی خبریں سامنے آتے ہی حامد میر نے ٹوئٹر کا سہارا لیا اور کہا کہ ’یہ سات سال پرانا مقدمہ ہے، مجھے 2010 میں اسی مقدمے میں عدالت نے بے گناہ قرار دیا تھا اور اب 2017 میں وہی کیس صرف میری آواز دبانے کے لیے درج کیا گیا ہے لیکن جھوٹے مقدموں سے مجھے خاموش نہیں کیا جا سکتا۔‘
حامد میر نے اپنے ایک اور ٹویٹ میں کہا کہ مقدمے کی مدعی شمائما ملک نے اپنی کتاب شہید امن میںلکھا کہ 26 مارچ 2010 کو ان کے شوہر خالد خواجہ نے انہیں کوہاٹ سے فون کرکے بتایا کہ سب خیریت ہے۔بیگم خالد خواجہ نے اپنی کتاب میں لکھاکہ ان کے خاوند نے 26 مارچ کو کوہاٹ سے فون کیااور کہا سب ٹھیک ہے لیکن ایف آئی آر میں کہا کہ ان کے شوہر کو 24 مارچ کو اغواءکیا گیا۔
ایک اور ٹویٹ میں حامد میر نے کہا کہ پاکستانی میڈیا چاروں طرف سے حملوں کی زد میں ہے، غیر اعلانیہ سنسر شپ ایسے بزدلوں کا ہتھیار ہے جن کے پاس منطقی دلائل نہیں ہوتے۔
دریں اثناءحامد میر نے برطانوی نشریاتی ادارے بی بی سی سے گفتگو کرتے ہوئے خالد خواجہ کے قتل کے مقدمے کے حوالے سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ خالد خواجہ کے قتل کے بارے میں پہلے ان کے بیٹے نے اسلام آباد کی مقامی عدالت میں جون 2010 میں درخواست دی جو کہ رد کر دی گئی جس کے بعد ا±نہوں نے لاہور ہائی کورٹ راولپنڈی بینچ میں بھی درخواست دی لیکن جولائی 2010 میں لاہور ہائی کورٹ راولپنڈی بینچ نے مقتول کے بیٹے کی درخواست مسترد کر کے فیصلہ حامد میر کے حق میں دیا۔
سینئر صحافی حامد میر نے کہاکہ وہ سینئر صحافی مطیع اللہ جان پر ہونے والے حملے کے واقعے کی تحقیقاتی ٹیم کے سربراہ ہیں جبکہ اینکر پرسن ارشد شریف پر انٹیلی جنس بیورو کی طرف سے جاری کی گئی مبینہ فہرست کے بارے میں درج ہونے والے مقدمے کی تحقیقات کے لیے بنائی جانے والی صحافیوں کی ٹیم میں بھی شامل ہیں۔ ’ مجھے معلوم ہے کہ اس کارروائی کے پیچھے کون ہے‘۔