خارجہ پالیسی بنتی دہشت گردی کے الزامات، نشانہ قطر کیوں؟
قطر 14جون 2017
(بشیر باجوہ نیوز وائس آف کینیڈ)
امریکہ نے قطر کے امیر شیخ تمیم بن حماد الثانی سے کہا ہے کہ وہ دہشت گردی کے خلاف اقدام کریں
قطر پر شدت پسند تنظیموں کی معاونت کرنے کے الزام نے اتنا طول پکڑا کہ سعودی عرب اور خلیج کے دوسرے کئی ممالک نے اس سے اپنے سارے تعلقات توڑ لیے۔
یہ پہلی بار نہیں ہے کہ قطر کے پڑوسی ممالک نے اس کی خارجہ پالیسی پر ناراضی کا اظہار کیا ہے۔ سنہ 2014 میں ان کے درمیان نو ماہ تک سفارتی تعلقات منقطع رہے تھے۔
کشیدگی کی ابتدا اسلام پسند تنظیم اخوان المسلمون کو قطر کی جانب سے دی جانے والی حمایت سے ہوئی۔
اس کے علاوہ طالبان اور القاعدہ سے منسلک چند تنظیموں سے اس کے قریبی تعلقات اور ایران کے ساتھ اس کے تعلقات بھی اس تازہ بحران کے پس پشت ہیں۔
ابھی حال ہی میں سعودی عرب نے ایران پر الزام لگایا تھا کہ سرکاری خزانے سے چلنے والا الجزیرہ نیوز چینل یمن میں حوثی باغیوں کی حمایت کر رہا ہے۔ خیال رہے کہ حوثی سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات کی حمایت والی یمن سرکاری فوج سے ایک عرصے سے برسرِ پیکار ہیں۔
دوحہ نے ریاض کے ان الزامات کو پوری طرح مسترد کر دیا ہے تاہم موجودہ کشیدگی گیس کے ذخائر سے مالامال امیر ملک قطر کی فنڈنگ پر روشنی ڈالتی ہے۔
مبینہ طور پر اپریل میں قطر نے شام میں قطری شاہی خاندان کے 26 یرغمال اراکین کی رہائی کے لیے القاعدہ کے ایک سابق رکن اور ایرانی سیکورٹی حکام کو ایک ارب ڈالر کا تاوان دیا تھا۔ انھیں مبینہ طور پر ایران کی حمایت والے عراقی شیعہ شدت پسندوں نے اغوا کیا تھا۔
اس کے علاوہ اس معاہدے میں ان درجنوں شیعہ جنگجوؤں کو بھی چھوڑا گیا جنھیں شام میں جہادیوں نے پکڑ رکھا تھا۔
اس پابندی سے قطر میں اشیائے خوردنی کی کمی کا خطرہ ہے
سنہ 2012 میں قطر کے اس وقت کے امیر شیخ حماد نے حماس کے گڑھ غزہ کی پٹی کا دورہ کیا تھا۔
لہذا قطر کا مبینہ طور پر شدت پسند نظریات کو اقتصادی مدد دینا جاری رکھنا بظاہر موجودہ بحران کی اصل وجہ نظر آتا ہے۔
نائن الیون کے حملے کے بعد سے امریکی قیادت والے عالمی اتحاد کی جانب سے شدت پسندوں کی مالی مدد کو ختم کرنے کی مسلسل کوشش ہو رہی ہے۔
بہت سے نئے قانون بنا کر شدت پسندوں کی فنڈنگ کو روکنے کے لیے فرضی کمپنیوں، اداروں کی اقتصادی سرگرمیوں پر پابندی کے ساتھ ان سے منسلک املاک اور افراد پر بھی پابندی عائد کی گئی۔
لیکن اس کے باوجود، قطر کی طرح کچھ اہم ممالک کے نیت پر سوال کھڑے کیے جاتے رہے ہیں۔
قطر نے سعودی اور متحدہ عرب امارات کے الزامات کو مسترد کر دیا ہے
سنہ 2014 میں امریکہ میں اس وقت کے ٹیررزم اینڈ فائنانشیئل انٹیلیجنس کے نائب وزیر خزانہ ڈیوڈ کوہن نے کہا تھا کہ ‘امریکہ کے طویل عرصے کے ساتھی قطر نے برسوں تک کھلے طور پر حماس کی مدد کی۔ میڈیا میں آنے والی خبروں سے ظاہر ہوتا ہے کہ قطر کی حکومت شام میں شدت پسند گروہوں کی بھی مدد کر رہی ہے۔’
گذشتہ ماہ امریکی صدر ٹرمپ نے ریاض میں سعودی عرب کے شاہ سلمان سے ملاقات کی تھی۔
انھوں نے اس بات کا بھی ذکر کیا کہ قطر ملک میں القاعدہ اور نام نہاد جنگجو تنظیم دولت اسلامیہ جیسے شدت پسند گروہوں کے لیے فنڈز جمع کرنے کی اجازت دیتا ہے۔
سنہ 2016 میں کوہن کی جگہ یہ عہدہ سنبھالنے والے ایڈم شوبين نے کہا کہ انتہا پسندی کو اقتصادی مدد دینے والوں کے خلاف کارروائی کی رضامندی ظاہر کرنے کے باوجود قطر کو ابھی بہت کچھ کرنا ہے اور اس کے پاس انسدادِ دہشت گردی کے قوانین دہشت گرد خطرات کے خلاف موثر طریقے سے لاگو کرنے کے لیے ضروری سیاسی عزم کی کمی ہے۔‘
امریکہ نے مبینہ طور پر انتہا پسندی کو فنڈ کرنے والے قطر کے کئی شہریوں پر پابندی بھی لگائی ہے۔
قطر کی اقتصادی سرگرمیوں کی مخالفت کرنے اور حال ہی میں امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے ریاض کے دورے کے باوجود سعودی عرب پر بھی اسی قسم کی تنقید ہوتی رہی ہے۔
نائن الیون کے طیاروں کے اغوا کاروں میں 19 میں سے 15 سعودی باشندے تھے۔
ٹرمپ کے حالیہ سعودی دورے کے بعد قطر سے تعلقات منقطع کرنے کا سلسلہ سامنے آيا ہے
سنہ 2009 میں وکی لیکس کی جانب سے پوسٹ کیے جانے والے سفارتی پیغامات سے پتہ چلتا ہے کہ انتہا پسندی کو اقتصادی مدد دینے کے معاملے میں سختی سے نمٹنے کے لیے سعودی عرب کو منانے میں امریکہ کو مسلسل مایوسی ہوئی تھی۔
سعودی عرب نے ہائیڈروکاربن سے حاصل ہونے والی دولت کو پوری دنیا میں سکولوں اور مساجد کے توسط سے سخت گیر وہابی نظریات کے فروغ میں خوب استعمال کیا۔
کچھ لوگ الزام لگاتے ہیں کہ وہابی مکتبۂ فکر انتہا پسندی کا منبع ہے۔
اگرچہ سعودی عرب کے چند افراد اور اداروں پر شدت پسندی کے معاونت کے الزامات لگے ہیں لیکن پھر بھی وہ قطر کے مقابلے میں انتہا پسندوں کے خلاف کارروائیوں میں زیادہ مددگار ثابت ہوا ہے۔
صدر ٹرمپ کے دورے کے دوران شدت پسندی کے لیے مالی مدد دینے کے سلسلے میں آنے والے نئے خطرات سے نمٹنے کے لیے امریکہ اور سعودی حکومت نے ایک مشترکہ علاقائی انسدادِ دہشت گردی سینٹر قائم کرنے کا اعلان کیا تھا۔
حال ہی میں ان لوگوں اور اداروں کو بھی انتہا پسند مخالف پالیسی میں شامل کیا گیا ہے جو شدت پسند نظریات کی نشرو اشاعت میں شامل ہیں۔
ماضی کی طرح شاید یہ بحران بھی جلد گزر جائے لیکن انتہا پسند نظریات کو مالی امداد مہیا کرنے کا جو مسئلہ کھڑا ہوا ہے وہ شاید اسی طرح توجہ کا مرکز رہے اور چاہے یہ جتنا بھی غیر معقول لگے دوحہ شک کی نظر میں ہی رہے گا۔