حکومت کی بلاوجہ ضد اور ہٹ دھرمی نے حالات کو اس نہج پر پہنچایا ،ملک کو انتشار اور تشدد سے بچانے کے لئےوزیر اعظم خود مذاکراتی عمل شروع کریں :علامہ طاہر اشرفی
اسلام آباد(نیوزوی او سی آن لائن)پاکستان علماکونسل کے چیئرمین اور وفاق المساجد کے سربراہ علامہ حافظ طاہر محمود اشرفی نے کہا ہے کہ اس وقت ملک کی جو نازک صورتحال ہے اس کا تقاضا یہ ہے کہ تمام حکومتی ذمہ داران اور تمام مذہبی و سیاسی قائدین اس بات کا احساس کریں کہ ہمیں اندرونی و بیرونی خطرات کیا ہیں ؟اور ایک ایسے معاملے پر جو مسلمانوں کے دین کی اساس ہے اس پر بلاوجہ کی ضد ،ہٹ دھرمی اور انا کو اختیار کر کے ہم کس جگہ پر پہنچ گئے ہیں ۔
سوشل میڈیا پر اپنے ویڈیو پیغام میں علامہ طاہر محمو د اشرفی کا کہنا تھا کہ میں ایک بار پھر وزیر اعظم سے اپیل کرتا ہوں کہ فوری طور پر چاروں مکاتب فکر کے علما ، وزیر داخلہ ،وزیر مذہبی امور اور وہ خود بیٹھ کر حقیقت حال قوم کو بتائی جائے کہ کون لوگ تھے اور کس نے ختم نبوتﷺ کے حوالے سے حلف نامہ اور سیون بی اور سیون سی ختم کرنے کی کوشش کی ؟ اگر اس میں کوئی وزیر بھی ہے تو کیا اس سے پہلے وزرا نے استعفی نہیں دیئے ،اگر اس وزیر کو چٹھی پر بھیج دیا جائے اور مسئلہ کے حل کی طرف جایا جائے تو میرا خیال ہے کہ اس میں کوئی مضائقہ نہیں ہے ۔انہوں نے کہا کہ پورا ملک اس وقت جام ہے، تشدد کی جو صورتحال سامنے آ رہی ہے اور ملک کو انتشار میں مبتلا ہونے سے بچانے کے لئے ضروری ہے کہ حکومت ایک بار پھر مذاکرات کا راستہ اختیار کرے اور جب تک راجہ ظفر الحق کی سربراہی میں بننے والی کمیٹی تحقیقات سامنے نہ لائے تو اس وقت تک زاہد حامد کو چھٹی پر بھیج دیا جائے ،کوئی حرج نہیں ہے کہ اگر اس بات سے ملک انتشار سے بچے ،یہ بات ذہن میں رہنی چاہئے کہ عقیدہ ختم نبوت ﷺ سارے مسلمانوں کا عقیدہ ہے ،ہم یہ نہیں کہتے کہ حکمراںوں کا یہ عقیدہ نہیں ہے،ہم یہ توقع کرتے ہیں کہ حکمران اس طرف توجہ کریں گے،میاں نواز شریف ذاتی طور پر اس طرف توجہ کرنی چاہئے ،جو کچھ منظر اسلام آباد میں صبح دیکھا گیا یا اس وقت مختلف شہروں میں ہے وہ تکلیف دہ ہے پوری قوم کے لئے ،ملک کا موجودہ منظر نامہ قوم میں اظرابی کیفیت پیدا کر رہا ہے،اس اضطراب سے بچنے اور اس کے حل کے لئے قومی قیادت کو آگے آنا چاہئے اور ایک جائز مطالبہ جو ہے اسے مان لینا چاہئے ۔انہوں نے کہا کہ اس وقت یہ معاملہ تحریک لبیک یا رسول اللہ سے ہٹ کر ملک کی تمام سیاسی مذہبی جماعتوں ، کارکنوں اور قائدین کے پاس آ چکا ہے ،اس کا حل یہی ہے کہ فوری مذاکراتی عمل شروع کر کے جائز مطالبات کو تسلیم کیا جائے اور تشدد سے اجتناب کیاجائے ۔علامہ طاہر اشرفی کا کہنا تھا کہ میں سوال کرنا چاہتا ہوں کہ آج جو لوگ شہید اور زخمی ہوئے ہیں ،ایک شخص اگر استعفیٰ دے دے اور اگر وہ بے گناہ نکلتا ہے تو وزارت پر واپس آ جائے ،کیا یہ بہتر نہیں ہے ؟قرآن میں کہا گیا ہے کہ کسی ایک بے گناہ جان کا قتل پوری انسانیت کا قتل ہے ،انسانیت کو قتل سے بچانے کے لئے اگر ایک استعفیٰ دینا پڑے تو کیا حرج ہے اس میں ؟جائز مطالبات کو تسلیم کیا جانا چاہئے اور ناجائز مطالبات بھی نہیں کرنے چاہئیں ۔