حکومت نے جس طریقے سے کلبھوشن کیس ہینڈل کیا اس پر افسوس ہے-
اسلام آباد (نیوز وی او سی آن لائن)قومی اسمبلی میں قائد حزب اختلاف اور پیپلز پارٹی کے سینئر راہنما سید خورشید شاہ نے کہا ہے کہ حکومت نے جس طریقے سے کلبھوشن یادیو کیس کو ہینڈل کیا اس پر افسوس ہے ، حکومت نے کلبھوشن کے معاملے میں کیوں وکیل نہیں کیا جس پر فوج کو کرنا پڑا؟ ہمارے بار بار کہنے کے باوجود نواز شریف نے اقوام متحدہ میں کلبھوشن کا نام کیوں نہیں لیا؟ کیا وجہ ہے کہ حکومت اپنا کردار ادا نہیں کر رہی ؟ اختیار ہونے کے باوجود پاکستان نے کیوں مقدمے میں ایڈہاک جج مقرر نہیں کیا؟ بھارتی تاجر جندال سے ملاقات میں کیا طے پایا وزیر اعظم اس کا جواب دیں ؟حکمران کہتے ہیں ہم شیر ہیں کھا جائیں گے، یہی دھاڑ دشمن کے سامنے ماریں ،کلبھوشن کا معاملہ ملکی سلامتی کے لیے خطرناک ، وکیل بھیجنا فوج کا کام نہیں دفتر خارجہ کا ہے ،حکومت کے کردار سے پاک فوج کو تکلیف ہو گی۔
ٹی وی چینل ’’92 نیوز‘‘ کے پروگرام میں اظہار خیال کرتے ہوئے سید خورشید شاہ نے کہا کہ کلبھوشن یادیو کے کیس کو پاکستان نے جسطرح عالمی عدالت انصاف میں ہینڈل کیا ہے وہ بڑا افسوسناک ہے ، میں نے مطالبہ بھی کیا تھا کہ وزیر اعظم نواز شریف اور سجن جندال کے درمیان ملاقات میں ہونیو الی بات چیت سے آگاہ کیا جائے مگر انہوں نے کچھ نہیں بتایا، ایسا لگتا ہے کہ موجودہ حکومت نے کسی دباؤ کے تحت اس کیس میں حصہ نہیں لیا ، اگر ایسا نہ ہوتا تو یقیناً حکومت اپنا پینل بناتی اور اس کا فیڈ بیک ہوتا ، ہم سب کو بیٹھکر سوچنا چاہیے یا تو آپ حکمرانی کریں یا بزنس کریں ، وزیر اعظم کو کلبھوشن کے بارے میں اقوام متحدہ میں بات کرنی چاہیے تھی مگر ہمارے بار بار کہنے کے باوجود بھی وہاں ایک لفظ بھی نہیں بولا گیا ، آخر کونسی ایسی بات ہے کہ وہ ملک جو پاکستان میں دہشتگردی کروا رہا ہے اور ہمارے شہریوں کو قتل کرنے میں ملوث ہے، ہمارے حکمران اس کے خلاف کوئی متحرک کردار ادا نہیں کر رہے، بلکہ بالکل خاموشی اختیار کیے ہوئے ہیں، پاکستان میں تو یہ لوگ شیر بن جاتے ہیں اور کہتے ہیں کہ ہم کبوتر کو کھا جائیںگے ، ہم شیر ہیں یہ گیدڑ کیا کریں گے، شیر کی للکار دشمن ملک کے سامنے بھی ہونی چاہیے۔سید خورشید شاہ نے کہا کہ اگر فوج اپنا وکیل نہ بھیجتی تو یکطرفہ فیصلہ ہو سکتا تھا ،جس کا مطلب یہ ہے کہ فوج نے اس لیے وکیل بھیجا کہ ہم نے کلبھوشن کو سزا دی ہے اور ہمارا یہ کردار ہے، وکیل بھیجنا فوج کا کام نہیں یہ کام دفتر خارجہ کا تھا، وزیر اعظم وزیر خارجہ ہیں ،جب ہم نے وزیر خارجہ کا مطالبہ کیا تو لوگ ہم پر ہنس رہے تھے کہ پیپلز پارٹی نے یہ کونسا مطالبہ کر دیا ہے ؟ہم سمجھتے تھے کہ وزیر خارجہ کا قلمدان وزیر اعظم نے اس لیے اپنے پاس رکھا کہ امور خارجہ پر اس کی اپنی نظر ہو ، ایسا نہ ہو کہ وزیر خارجہ جذبات میں آکر ایسے فیصلے کرے جو میاں صاحب کے لیے ناگوار ہوں ،شاید اس لیے وزیر اعظم نے وزیر خارجہ کا قلمدان اپنے پاس رکھا ہے ،اب نظر آگیا ہے کہ کلبھوشن کے معاملے میں موجودہ حکومت شامل نہیں، اب یہ بالکل کلیئر ہو گیا ہے کہ اگر یہ کیس چلتا تو ون سائیڈڈ ہو جاتا ، ابھی یہ جو اس لیے ہوا ہے ملاقات کا موقع دینے کی بات کی گئی پھر یہ اس لیے بھی نہ ہو تا اور آرڈر ہو جاتا پھر جندال کے ساتھ جو وعدہ ہوا وہ پورا ہو جاتا ، جس ملک کا وزیر اعظم مسلمانوں کے قتل عام میں ملوث ہے، وہ شریف خاندان کے فنکشنوں میں آتے ہیں، ان کے ساتھ دوستی ہے، بھارت سے بزنس مین آکر ان سے چھپ کر ملتے ہیں ،ویزے نہیں بھی ہوتے پھر بھی آجاتے ہیں، جو پاکستان کا جھنڈا اتارنا چاہتے ہیں وزیر اعظم ان سے تعلقات بڑھا رہے ہیں، اب پتہ چلا ہے کہ کلبھوشن کے معاملے پر حکومت وکیل کرنے کو تیار نہیں، دفتر خارجہ اس میں ملوث نہیں رہا ، اب بات کھل گئی ہے، پاک فوج نے وکیل کر کے دیا ،میں محسوس کرتا ہوں کہ آرمی چیف افسردہ ہوتے ہوں گے کہ ہم لڑتے اور مرتے بھی ہیں پھر بھی الزام ہمیں ملتا ہے۔