حقانی نیٹ ورک افغانستان منتقل ہوچکا ہے اور اس کے خلاف وہیں کارروائیاں کی جانی چاہیئیں’۔
واشنگٹن / 04جون2017
(بشیر باجوہ نیوز وائس آف کینیڈا )
واشنگٹن: امریکا میں پاکستان کے سفیر اعزاز احمد چوہدری کا کہنا ہے کہ دہشت گرد گروپ حقانی نیٹ ورک افغانستان منتقل ہوچکا ہے لہذا افغان حکام پاکستان کو ذمہ دار ٹھہرانے کے بجائے اپنی سرزمین پر ان سے نمٹنے کی صورتوں پر غور کیا۔
نیوز وی او سی کی ایک رپورٹ کے مطابق پاکستانی سفیر نے یہ بات کابل کی جانب سے افغان دارالحکومت میں ہونے والے دھماکے کا ذمہ دار پاکستان میں موجود دہشت گرد گروہوں کو ٹھہرانے کے الزامات کو مسترد کرتے ہوئے کہی۔
خیال رہے کہ بدھ (31 مئی) کو کابل کی حالیہ تاریخ کے خوفناک دھماکے میں 90 افراد ہلاک جبکہ 400 سے زائد زخمی ہوگئے تھے۔
حملے کے فوراً بعد افغان خفیہ اہلکاروں نے دعویٰ کیا تھا کہ حملے میں ملوث خودکش حملہ آور کا تعلق حقانی نیٹ ورک سے تھا۔
دوسری جانب افغان نیشنل ڈائریکٹوریٹ آف سیکیورٹی (این ڈی ایس) نے بھی دعویٰ کیا تھا کہ حقانی نیٹ ورک کو پاکستان کی مکمل حمایت حاصل ہے اور وہ اب بھی فاٹا میں موجود پناہ گاہوں سے کارروائیوں میں مصروف ہیں۔
افغان حکام کے ان الزامات کو امریکی میڈیا نے بھی نشر کیا تھا۔
تاہم دی واشنگٹن ٹائمز کے ایڈیٹرز اور نمائندگان کو دیئے گئے ایک انٹرویو کے دوران امریکا میں پاکستانی سفیر نے ان تمام الزامات کو بےبنیاد قرار دے دیا۔
ان کا کہنا تھا کہ پاکستان شمالی وزیرستان سمیت دیگر قبائلی علاقوں میں دہشت گردوں کو جڑ سے اکھاڑنے کے لیے بڑے پیمانے پر انسداد دہشت گردی آپریشن سرانجام دے چکا ہے۔
اعزاز چوہدری نے کہا کہ ‘حقانی نیٹ ورک افغانستان منتقل ہوچکا ہے اور اس کے خلاف وہیں کارروائیاں کی جانی چاہیئیں’۔
ان کا مزید کہنا تھا کہ ‘افغانستان میں ناکامیوں کا ملبہ پاکستان پر ڈالنا مددگار نہیں ہوگا، دونوں ملکوں میں سیکیورٹی کی صورتحال کو بہتر بنانا ضروری ہے کیونکہ یہ کہنا بہت آسان ہے کہ یہ سارے مسائل پاکستان کی وجہ سے ہیں’۔
انہوں نے کہا کہ صرف خفیہ اہلکاروں نے دھماکے کو حقانی نیٹ ورک سے جوڑا، افغان حکومت کی جانب سے اس کی تائید کیا جانا باقی ہے۔
انہوں نے سوال کیا کہ افغان خفیہ اہلکار اتنی جلدی یہ پتہ لگانے میں کیسے کامیاب ہوگئے کہ دھماکے کا ذمہ دار کون ہے، ‘اگر آپ چند سیکنڈز میں یہ پتہ لگا سکتے ہیں تو آپ کو یہ بھی پتہ ہونا چاہیئے کہ وہ کب حملہ کرنے آنے والے ہیں’۔
واضح رہے کہ کابل میں ہونے والے دھماکوں کے فوراً بعد ٹرمپ انتظامیہ نے افغان حکومت کو یقین دہانی کرائی تھی کہ اس طرح کے حملوں سے واشنگٹن کابل کے ساتھ اپنی حمایت ختم نہیں کرے گا۔
امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے بھی افغان صدر اشرف غنی سے بذریعہ ٹیلی فون رابطہ کرتے ہوئے کہا تھا کہ ‘یہ حملے کرنے والے تمام تہذیب یافتہ افراد کے دشمن ہیں’۔