جینا بھائی یا جناح بھائی
جینا بھائی یا جناح بھائی
پونجا محمد علی جناح کے دادا تھے۔
قائد اعظم کے بھائی اور بہنیں۔
قائد اعظم کے وارث۔۔۔
بھارتی صوبے گجرات کی ریاست گوندل کے ایک گاؤں کا نام تھا پانیلی۔ اس چھوٹے سے گاؤں میں
ایک شخص پونجا میگھ جی نامی بھی رہتا تھا۔یہ ہندو لوہانا خاندان سے تعلق رکھتے تھے جنہوں نے بعد میں اسلام قبول کر لیا تھا۔ ان کے تین بیٹے تھے والجی بھائی ، نتھو بھائی اور جناح بھائی۔ بیٹی صرف ایک تھی جس کا نام مان بائی تھا۔ شیریں جناح کے مطابق جناح بھائی سب سے چھوٹے تھے۔ چھریرابدن اور کمزور صحت ، چھوٹا قد غالباً اسی لئے جھینا کہلاتے تھے جس کے معنی ہیں (دبلا ،پتلا)۔ جینا کو جناح انہوں نے خود بنایا یا یہ اصلاح سسرال والوں نے کی، یہ بات تحقیق طلب ہے۔ جھنو سںدھی زبان کا بھی ایک لفظ ہے۔ جناح کے معنی ہیں بازو۔ بہر حال بعد ازاں پونجا کو پونجاہ اور جینا کو جناح لکھا جانے لگا۔اس طرح محمد علی جناح کے والد کا نام جناح پونجا یا جینا پونجا ہوا۔ پونجا کھڈی کے کپڑے کی تجارت کرتے تھے۔ انہوں نے جناح کو بھی اسی کام میں لگا دیا۔ جناح کاروبار کو موضع پانیلی تک محدود رکھنے کے خلاف تھے اور اسے گوندل جیسے بڑے شہر تک وسعت دینا چاہتے تھے۔ ایک مرتبہ والد نے جناح ؒ کو کچھ رقم دیکر کہا کہ اسے کسی نفع بخش کام میں لگاؤ۔ جناح نے ایسا ہی کیا اور معقول منافع کمایا۔ باپ نے خوش ہو کر جناح کے لئے اپنی اسماعیلی خوجہ برادری میں لڑکی تلاش کرنی شروع کر دی۔ بالآخر نواحی گاؤں ڈھرفا کا اسماعیلی خاندان پسند آگیا اور اس کی لڑکی میٹھی بائی (شیریں موسى) کی شادی جناح ؒ سے کر دی گئی۔ یہ 1874ء کا واقعہ ہے۔ شادی کے بعد جب تجارت کو فروغ حاصل ہوا تو جناح خاندان کراچی آگیا۔ یہاں آکر نیو نہام روڈ(کھارادر) پر ایک عمارت کا کچھ حصہ کرایہ پر حاصل کر لیا گیا۔ جناح بھائی نے کراچی میں، مشکلات پر قابو پانے کے ساتھ ساتھ تجارت میں کافی رقم جمع کر لی۔ کراچی میں اس وقت انگریزوں نے کچھ کمپنیاں قائم کر رکھی تھیں جو درآمد اور برآمد کا کام کرتی تھیں۔ ان میں ایک فرم گراہم سن شپنگ اینڈٹریڈنگ کمپنی تھی۔
اس کے جنرل منیجر فریڈرک لیہہ کے ساتھ جناح بھائی کے مراسم استوار ہوئے تو ان کی وساطت سے انگلستان اور ہانگ کانگ کے بعض تاجروں کے ساتھ بھی تجارتی تعلقات قائم ہو گئے۔ جو افغان تاجر قندھار (افغانستان) سے کراچی آتے تھے ان سے جناح بھائی نے فارسی زبان سیکھی۔ انگریزی میں انہوں نے پہلے ہی کچھ شدبد حاصل کر لی تھی۔ اگرچہ جناح خاندان گجراتی زبان بولتا تھاتاہم کراچی میں قیام کے دوران انہوں نے سندھی کے علاوہ کچھ اور زبانوں پر بھی عبور حاصل کرلیا۔ جناح ؒ بھائی کی زوجہ میٹھی بائی کے ہاں 25دسمبر 1876ء کو ایک لڑکا تولد ہوا جس کا نام محمد علی رکھا گیا۔ بعد ازاں دو بیٹیاں رحمت اور مریم پھر احمد علی اور بعد ازاں شیریں پیدا ہوئیں 31جولائی1893ء کو میٹھی بائی کے ہاں بیٹی پیدا ہوئی جس کا نام فاطمہ رکھا گیا۔ یہ وہ دور تھا جب جناح پونجا کے بیٹے محمد علی اعلی تعلیم حاصل کرنے کے لئے انگلستان میں تھے۔
فاطمہ جناح ؒ کے بعد مٹھی بائی کے ہاں صرف ایک ولادت ہوئی۔ اس بچے کا نام بندے علی رکھا گیا اس ولادت کے بعد میٹھی بائی وفات پا گئیں
تو اس لہز سے قائد اعظم سمیت کل بہن بھائی بالترتیب مندرجہ ذیل ہوئے۔
محمد علی جناح
رحمت بائی جناح
مریم بائی جناح
احمد علی جناح
شیریں بائی جناح
فاطمہ جناح
بندے علی جناح
یعنی کل تین بھائی اور چار بہنیں۔ قائد اعظم کے بھائ احمد علی جناح کی صرف دو تصاویر دستیاب ہیں۔ انہوں نے ایک یورپین خاتون ایمی سے شادی کی تھی جس کے ساتھ ان کی ایک تصویر دستیاب ہے۔ بندے علی جناح کی نہ تو کوئ تصویر دستیاب ہے اور نہ ہی ان کے بارے میں کوئ تفصیلات دستیاب ہیں۔
سندھ کے لو گون کے مظابق جناح ٹھٹہ ضلع میں جھرک میں پیدا ہوئے۔ 1960 کی دہائی کے آواخر میں سندھ ٹیکسٹ بک بورڈ کی جانب سے شایع ہونی والی کتابوں میں بھی آپ کی پیدائش کی جگہ جھرک ہے۔ تو پھر جھرک کو کراچی سے 1970 میں کیسےبدلا گیا؟ اگر یہ بات صحیع بھی مان لی جائے تو جھرک 1875 – 1876 میں انتظامی طور پر کراچی کا حصہ تھا۔ اگر قائد اعظم جھرک میں بھی پیدا ہوئے تو وہ کراچی ہی تھا۔ قائد اعظم نے بذاتِ خود کراچی میں تقریر کے دوران کہا کہ میں اس شہر میں پیدا ہوا ہوں۔ محترم فاطمہ جناح نے اپنی کتاب میرا بھائی میں بھی کراچی کو قائد اعظم کا مولد لکھا ہے۔ اس کے علاوہ جی الانا، پروفیسر کرم حیدری، شریف المجاہد، رضون احمد وغیرہ نے بھی قائد اعظم کی جائے پیدائش کراچی ہی لکھا ہے۔ کچھ سندھی دانشور حضرات جھرک کا کہتے تو ہیں لیکن دستاویزی ثبوت کوئی نہیں دیتا۔ محققین کی اکثریت کااتفاق محمدعلی جناح کی پیدائش کے سلسلے میں 25،دسمبر 1876 ،پر ہے۔ برصغیر کے مسلمانوں کی رہنمائی کرنے والے بچے محمد علی جناح،جسکو مسلمان قوم نے قائداعظم کے عظیم خطاب سے نواز کی پیدائش صبح اذان کے وقت گھر کی بالائی منزل پر ہوئی ۔ اس وقت کراچی میں مشکل ہی سے کہیں زچہ خانہ ہوتا ہوگا۔ گھر پر ہی ایک ماہر دایا کا انتظام کردیامگریہ ’’ بچہ بہت کمزور اور دبلا پیدا ہوا جس کے پتلے پتلے لمبے ہاتھ تھے،سر لمبوتراتھا،والدین اس کی صحت کی وجہ سے بہت پریشان تھ۔ جنا ح پونجا کے پہلے فرزند کے پیدا ہونے پر سارے گھر میں خوشیاں منائی گئیں۔ سماجی قاعدے کے مطابق بچے کے والدین کو مبارک باد دینے اور بچے کو دیکھنے کے لئے لوگوں کا تانتا بندھا ہوا تھا۔ پہلوٹھی کے اس بچے کا نام خاندانی روایات کے مطابق،بچے کے ماموں قاسم موسیٰ نے محمد علی رکھا۔ جناح پونجا اور ان کی بیگم نے اپنے پہلے بیٹے کے نام’’ محمد علی جناح کو نیک فال تصور کیا۔ی
جس وقت پہلی مرتبہ محمد علی جناح سندھ مدرسۃ الاسلام میں داخل کرایاگیا توسندھ مدرسۃالاسلام میں محمد علی جناح کا جنرل رجسٹر نمبر 114، ہے نام محمد علی جناح جائے پیدائش کراچی،تاریخِ پیدائش کا کالم خالی ہے۔سر پرست کے دستخط کا خانہ بھی خالی ہے،ذات میں خوجہ درج ہے،سابقہ تعلیم کے خانے میں گجراتی کی چار جماعتیں درج ہے،فیس کے خانے میں (paying)فیس ادا کرنے والا لکھا ہے ،تاریخ داخلہ 4،جولائی 1887 درج ہے۔ان کا داخلہ انگریزی کی پہلی جماعت میں کیا گیاتھاان اندراجات سے اندازہ ہوتا ہے کہ شائدقائد اعظم کا داخلہ خود ان کے والد جناح پونجا نے نہیں کرایا تھا۔ بلکہ کاروباری مصروفیات کے پیش نظر انہوں نے محمد علی جناح کو کسی قریب رشتے دار یا دوست کے ذریعے اسکول میں داخل کرایا ہوگا۔جسکا ثبوت یہ ہے کہ تاریخِ داخلہ کا خانہ اور سر پرست کے دستخط دونوں کے ہی خانے خالی ہیں
محمد علی جناح نے گجراتی کی چار جماعتیں پڑھنے کے بعدسندھ مدرسۃ الاسلام کے اسٹینڈرڈ فرسٹ میں (انگریزی کی پہلی جماعت) میں داخلہ لیا تھا۔بہر حال گجراتی کی چار جماعتیں محمد علی جناح نے غالب خیال یہ ہی ہے کہ گھر پر پڑھی ہونگی کیونکہ چھوٹی عمر محمد علی جناح کے لئے گھر سے دور کسی اسکول میں جانا دشوار تھا۔اور ایک اہم بات یہ بھی تھی کہ وہ اپنے والدین کے اس وقت سب سے بڑے بیٹے تھے ان کے والدین ان سے محبت بھی بہت زیادہ کرتے تھے۔
قائد اعظم کی پہلی شادی صرف سولہ سال کی عمر میں ایمی بائ سے ہوئ جو رشتے میں والدہ کی طرف سے ان کی کزن لگتی تھیں۔ شادی کے وقت ایمی بائ کی عمر صرف چودہ برس تھی۔ شادی کے بعد جناح نے کراچی واپس آکر چرچ مشن ہائ اسکول میں چھٹی کلاس میں داخلہ لیا تھا اور شادی کے کچھ ماہ بعد ہی جناح اعلی تعلیم کے لئے انگلینڈ چلے گیے جبکہ 1893 میں ہی ایمی بائ کا ہیضے کی وبا میں صرف پندرہ یا سولہ سال کی عمر میں انتقال ہو گیا تھا۔ اس کے بعد جناح نے پچیس سال تک شادی نہیں کی۔ جناح نے دوسری شادی اپنے پارسی دوست پیٹٹ مانک جی ڈنشا کی اٹھارہ سالہ بیٹی رتی سے1918 میں کی ۔ رتی نے اسلام قبول کرنے کے بعد اپنا نام مریم رکھا۔ اس شادی کا تفصیلی احوال آپ رتی اور جناح کی پوسٹ میں پڑھ سکتے ہیں۔ رتی سے قائد اعظم کی ایک ہی بیٹی تھیں جن کا نام دینا جناح تھا۔ رتی یا مریم جناح 1929 میں انتقال کر گئی تھیں۔ پاکستان میں محمد علی جناح کی املاک کے ٹرسٹی اور ان کی بہن مریم بائی کے نواسے لیاقت مرچنٹ ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ جناح کا صرف ایک نواسہ نصلی واڈیا ہے جو انڈیا میں ہیں۔ اس کے علاوہ ان کا کوئی نواسہ، پوتا یا پڑپوتا نہیں ہے۔
’جناح پونجا کے سب سے بڑے بیٹے محمد علی جناح تھے، بیٹی رحمت بائی جن کی کلکتہ شادی کرائی گئی تھی، اس کے بعد مریم بائی اور ان کے بعد احمد جناح تھے جن کا ممبئی میں انتقال ہوا۔ ان کی شادی ایک سوئس خاتون سے ہوئی تھی۔ ان کی ایک ہی بیٹی تھیں فاطمہ۔ ان کا بھی انتقال ہوگیا ہے۔ تیسری بہن شیریں بائی جن کی جعفر بھائی سے شادی ہوئی تھی جو اسماعیلی خوجہ تھے۔ شیری بائی کا ایک ہی بیٹا تھا اکبر جعفر جو ماں سے پہلے کراچی مہتا پیلس میں انتقال کرگئے۔ اس وقت ان کے خاندان میں کوئی نہیں ہے۔‘
’سب سے چھوٹی بہن فاطمہ جناح نے کبھی شادی نہیں کی تھی،
لیاقت مرچنٹ کے مطابق وہ پاکستان میں انیس سو چھیاسٹھ سے موجود ہیں اور مریم بائی کے نواسے ہیں اور جناح کی زندگی کے بارے میں کئی کتابیں لکھ چکے ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ وہ جناع کی جائیداد اور ٹرسٹ کے نگران ہیں مگر حکومت نے اس فیصلے کے بارے میں کبھی پوچھا نہیں نہ اور ہی رابطہ کیا۔
انہوں نے بتایا ’محمد علی جناح نے اپنی تحریری وصیت میں بھی تمام خاندان کا حصہ مقرر کردیا تھا، جس کے تحت بیٹی دینا واڈیا کے لیےدو لاکھ روپے چھوڑے۔ چار بہنوں رحمت بائی، مریم بائی، شیریں، فاطمہ اور بھائی احمد جناح کے لیے ماہانہ سو روپے تاحیات مقرر کیے۔ دینا واڈیا کو ابھی تک دو لاکھ روپے کا منافع بھیجا جاتا ہے۔‘
لیاقت مرچنٹ کے مطابق جائیداد کا اکثر حصہ وصیت کے مطابق تعلیمی اداروں کودیا گیا۔ جن میں اردو عربی کالج، ممبئی یونیورسٹی، پشاور یونیورسٹی، اسلامیہ کالج، سندھ مدرسہ، علی گڑھ یونیورسٹی کو بڑی بڑی رقومات دینے کو کہا تھا۔ ’جب علی گڑھ یونیورسٹی کی باری آئی تو پتہ چلا کہ بھارتی حکومت نے قانون تبدیل کردیا ہے اب یہ وہ ادارہ نہیں تھا جس کے لئے انہوں نے اپنے پیسے چھوڑے تھے۔ ہائی کورٹ نے فیصلہ کیا کہ پیسے بھارت نہ بھیجے جائیں اسی نام سے یہاں ادارہ بنایا جائے جو ضرورت مند طالب علموں کو اسکالرشپ فراہم کرے۔‘
انہوں نے بتایا کہ انیس سو چھیاسٹھ میں جب فاطمہ جناح کا انتقال ہوا تو شیریں بائی ممبئی میں تھیں۔ وہ اور شیریں بائی اسی سال پاکستان آئے۔ شیریں بائی کی دیکھ بھال ان کا خاندان کرتا تھا اور ان کہ وہاں حالات ٹھیک نہیں تھے۔ یہاں خاندان میں تھوڑے اختلافات ہوئے اور شیریں بائی نے فاطمہ جناح کی تمام جائیداد پر دعویٰ کردیا ہے اور ہائی کورٹ میں کیس دائر کردیا۔
’ان کے اس دعوے کی قائد اعظم کے چچا والجی بھائی کے خاندان نے مخالفت کی۔ شیریں بائی کا مؤقف تھا کہ فاطمہ جناح کا جب انتقال ہوا تو وہ شیعہ تھیں، شیعہ قانون کہتا ہے اگر ایک بہن بچ گئی ہے تو ساری جائیداد اس کے پاس جائے گی۔ جبکہ سنی حنفی قانون کہتا ہے کہ ان کا حصہ آدھا ہے اور آدھا مرد لواحقین کو جائے گا جس میں والجی بھائی کے خاندان کے لوگ آتے تھے۔ ہائی کورٹ نے والجی خاندان کے حق میں فیصلہ دیا مگر شیری بائی کا انتقال ہوگیا یہ معاملہ ابھی تک عدالت میں ہے۔‘
لیاقت مرچنٹ کا کہنا ہے کہ محمد علی جناح کے چچا نتھو پونجا کے خاندان میں اس وقت کون ہے انہیں پتہ نہیں کیونکہ ان سے کبھی رابطہ ہی نہیں ہوا۔