ایڈیٹرکاانتخاب

جو کچھ ہورہا ہے جانتا ہوں مگر خاموش ہوں:نواز شریف

کوئی عدالت ہے جو آمروں کو سزا دے ؟ تنخواہ وصول نہ کرنے پرنااہلی سے بڑا مذاق کیا ہو سکتا ہے ‘مشرف نے مفاہمتی پیغام بھجوایا تھا‘ملک جمہوریت پر قائم رہے گا تو سلامت رہے گا
باپ دادا کی کمپنیوں کو ٹٹولا گیا ، یہ پہلا کیس ہے جس میں کرپشن نہ کرنے پر سزا دی گئی ،سینئر صحافیوں سے گفتگو ، بہارہ کہو میں والہانہ استقبال،فضل الرحمن، اچکزئی، نثار سے ملاقات اسلام آباد ( طارق عزیز/ابراہیم راجہ)سابق وزیراعظم نوازشریف نے اپنی نااہلی کو قوم کے ساتھ مذاق قرار دیا اور کہا ہے کہ جو کچھ ہو رہا ہے ، سب کونظر آرہا ہے ، ہم بھی سب جانتے ہیں لیکن خاموش ہیں ۔ اسلام آباد میں پنجاب ہائوس میں پی بی اے ، اے پی این ایس ، سی پی این ای کے عہدیداروں کیساتھ گفتگو کرتے ہوئے سابق وزیراعظم کا کہنا تھا کہ انہیں کرپشن، کک بیکس یا کمیشن لینے پر نہیں ، بیٹے کی کمپنی سے تنخواہ نہ وصول کرنے پر نااہل کیا گیا، قوم کے ساتھ اس سے بڑا مذاق کیا ہو سکتا ہے ۔ انہوں نے کہا کہ جب تنخواہ ہی نہیں لی تو ریٹرنز میں کیسے ظاہر کرتا۔ انہوں نے کہا کہ ان کے باپ دادا کے کاروباری معاملات کو ٹٹولا اور کھنگالا گیا لیکن کوئی ثبوت نہیں ملا ،ثبوت تو دور کی بات ، کوئی الزام تک نہیں ۔ نوازشریف نے کہا کہ کیا کوئی ایسی عدالت بھی ہے جو آمروں کو سزا دے ؟ آئین پامال کرنے والے کو کسی نے پکڑا؟ اگر نہیں تو پھر نظریہ کیا ہے ، کیا پاکستان کے دو لخت ہونے سے کوئی سبق سیکھا گیا ۔ ان کا کہنا تھا کہ گزشتہ دنوں ایک آمر نے کہا کہ آمریت جمہوریت سے بہتر ہے ، وہ آمر نہ جانے کس دنیا میں رہتا ہے ۔ نواب بگٹی کا بہیمانہ قتل کیا گیا ، کیا کسی کا احتساب کیا گیا ۔ انہوں نے کہا کہ جمہوریت کے حوالے سے آج بھی ستر سال کی افسوس ناک تاریخ دہرائی جا رہی ہے ۔نوازشریف نے انکشاف کیا کہ ان کی وطن واپسی کے موقع پر پرویزمشرف نے انہیں مفاہمت اور ملاقات کے لئے پیغام بھیجا، یہ بھی کہا کہ مفاہمت میں ہی میرا فائدہ ہے لیکن میں نے انکار کر دیا۔ انہوں نے کہا کہ وہ آج بھی میثاق جمہوریت پر قائم ہیں اور اس پر عملدرآمد کے خواہش مند ہیں ، جب آصف زرداری صدر بنے تو ان کا خیر مقدم کیا، جب ان کی مدت ختم ہوئی تو انہیں احترام کے ساتھ ایوان صدر سے رخصت کیا۔ نوازشریف نے کہا کہ ہم چاہتے تو دوہزار تیرہ میں ہی خیبر پختونخوا میں حکومت قائم کر سکتے تھے لیکن ہم نے تحریک انصاف کو موقع دیا۔ دھرنے میں جو کچھ ہوا ، سب کے سامنے ہے ، ہم نے اس کا جواب بھی نہیں دیا اور نہ ہی گالم گلوچ کی ۔ انہوں نے کہا کہ ہم نے عدلیہ کی بحالی کے لیے لانگ مارچ کیا ، اس وقت پنجاب میں ہماری حکومت ختم کر کے گورنر راج لگا ہوا تھا، گوجرانوالہ پہنچے تو اطلاع ملی کہ جج بحال ہو رہے ہیں، ہم نے وہیں سے واپس جانے کا فیصلہ کیا، یہ شرط نہیں لگائی کہ پنجاب حکومت بحال کرو گے تب ہی لانگ مارچ ختم کریں گے ، اس لیے کہ ہمارا لانگ مارچ سیاست کے لیے نہیں عدلیہ کی بحالی کے لیے تھا۔ نوازشریف نے کہا کہ ان کے دورحکومت میں دہشت گردی کے خلاف جنگ لڑی گئی اور بلوچستان میں مفاہمتی عمل آگے بڑھایا گیا۔ سی پیک ملکی ترقی کا ضامن ہے اور حکومت معاشی ترقی کے اہداف حاصل کر رہی ہے ،پاکستانی سٹاک مارکیٹ نے بھی نئے ریکارڈ بنائے ، ان کامیابیوں کا اعتراف بین الاقوامی میڈیا اور عالمی مالیاتی اداروں نے بھی کیا ۔ نوازشریف نے کہا کہ انہیں بہت ٹھوکریں بھی لگیں، ملک بدری بھی ایک ٹھوکر تھی، ٹھوکروں سے انہوں نے بہت کچھ سیکھا، وہ ایک نظریاتی انسان بن چکے ہیں۔انہوں نے کہا کہ نا اہلی کی وجوہات جانتا ہوں ، بہت کچھ سمجھ آرہا ہے اور بہت کچھ کہنا بھی چاہتا ہوں ، وقت آنے پر آنکھوں دیکھا حال بیان کرونگا ، نیب تاریخ کا یہ پہلا مقدمہ ہو گا جس میں قومی خزانے میں خورد برد کے بجائے باپ داد اور بچوں کی کمپنیوں اور کاروبار بارے تحقیقات کی جائیں گی ۔ جس طرح پاکستان کو چلانے کی کوشش کی جا رہی ہے پاکستان نہیں چلے گا ، میثاق جمہوریت پر عمل کیا اب بھی پابند ہوں لیکن پیپلز پارٹی نے اس میثاق پر عمل نہیں کیا جس پر بینظیر بھٹو کے دستخط موجود ہیں ، ترقی کا راستہ رک گیا ہے اور ملک میں انتشار کی کیفیت پیدا کر دی گئی ہے ، آئین پر چلیں گے تو ملک آگے بڑھے گا ، دائیں بائیں جائیں گے تو پھر ملک میں انتشار پیدا ہو گا ، نواز شریف نے کہا کہ مجھ پر ایک پائی کی کرپشن کا الزام نہیں لیکن مجھے نا اہل قرار دے دیا گیا ہے ۔ آئی این پی کے مطابق نواز شریف نے کہاقوم دیکھنا چاہتی ہے آمروں کو کب سزا ملے گی، لوگ آہستہ آہستہ سب کچھ سمجھ جائیں گے ۔انہوں نے کہا فی الحال میں بول نہیں رہا، ایسا کوئی کام نہیں کیا جس سے ترقی کا پہیہ رکا ہو، میں ہمیشہ خاموش نہیں رہوں گا،کرپشن کا کوئی ایک بھی الزام نہیں ہے ،ایسا کوئی کام نہیں کیا جس سے ترقی کا راستہ رکا ہو۔ جمہوریت اور قانون کی بالادستی پر یقین رکھتا ہوں۔ نیب میں جو کیس چلائے جاتے ہیں وہ بدعنوانی کے ہوتے ہیں یہ پہلا کیس ہمارے باپ دادا کی کمپنی کی تحقیقات کرنے جا رہا ہے ۔ کراچی کا امن بحال کرایا ،بجلی آ گئی۔ نواز شریف نے کہاکہ میثاق جمہوریت پر اب بھی قائم ہوں۔اس موقع پر سابق وزیر اعظم سے سوال کیا گیا کہ کیا جمہوریت کو نقصان ہوا ؟، کیا آپ خود کو وکٹم کے طور پر پیش کریں گے یا اپنا بیانیہ دیں گے ؟۔ نواز شریف نے جواب دیا کہ میں ہمیشہ خاموش نہیں رہوں گا۔ آن لائن کے مطابق نواز شریف نے کہا کہ پاکستان سے کوئی ایسا سلوک نہیں کیا جس پر کوئی شرمندگی ہو۔ انہوں نے کہا کہ ملک معاشی ترقی کی ڈگر پر چل رہا تھا، عالمی میڈیا پاکستان کی ترقی کی بات کررہا تھا، میثاق جمہوریت بہتر بنانا ہے تو اس کے لیے بھی تیار ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ جمہوریت سے دائیں بائیں ہوئے تو خدانخواستہ انتشار پیدا ہوگا، ملک جمہوریت پر قائم رہے گا تو سلامت رہے گا۔ ہم نے اس ملک کو بہت مشکل سے بہتر کیا۔جمہوریت اور قانون کی عملداری پر یقین رکھتا ہوں ۔سابق وزیر اعظم نے کہا کہ مجھ پرکرپشن کا الزام نہیں اور اگر کوئی الزام تھا یا میری کرپشن کے ثبوت ہوتے تو مجھے نااہل ہونے پر کوئی دکھ نہیں ہوتا ۔ تمام صورت حال قوم کے سامنے ہے مجھے کرپشن کرنے کی ضرورت کیا ہے اور اگر کی ہے تو صاف بتایا جائے ۔یہ پہلا کیس ہے جس میں کرپشن نہ کرنے پر سزا دی گئی جو پورے ملک و قوم کے ساتھ زیادتی ہے ۔ نواز شریف نے کہا کہ میرا کاروبار سے کوئی واسطہ نہیں اور یہ سب جے آئی ٹی کو بھی بتا دیا تھا لیکن انتہائی افسوس ہے کہ ان سب کے باوجود بھی ہمارے کیسز نیب کو بھجوائے گئے ۔ سابق وزیراعظم اہل خانہ کے ہمراہ بہارہ کہو پہنچے جہاں لیگی کارکنوں نے ان کا والہانہ استقبال کیا اور پھولوں کی پتیاں نچھاور کیں۔ کارکنوں کی بڑی تعداد قومی اور پارٹی پرچم اٹھائے استقبال کے لئے موجود تھی۔ نواز شریف اٹھال چوک پر گاڑی سے نیچے اترے اور کارکنوں کے نعروں کا جواب ہاتھ ہلا کر دیا، پر جوش کارکنوں نے انہیں اپنے حصار میں لے کر خوب نعرے بازی کی اور پھول نچھاور کئے ۔ نواز شریف کی بہارہ کہو آمد پر مری سے اسلام آباد جانے والے راستے پر بد ترین ٹریفک جام رہی، مری ایکسپریس وے پر گاڑیوں کی طویل قطاریں لگ گئیں جس سے لوگوں کو شدید مشکلات کا سامنا رہا۔نواز شریف نے ہفتہ کو پنجاب ہاؤس میں مصروف دن گزارا، انہوں نے حکومتی اتحادی جماعتوں کے سربراہان سے ملاقاتیں کیں۔ جمعیت علما اسلام (ف) کے سربراہ مولانا فضل الرحمان ، پشتونخوا ملی عوامی پارٹی کے سربراہ محمود خان اچکزئی اور نیشنل پارٹی بلوچستان کے سربراہ وفاقی وزیر میر حاصل بزنجو، سابق وزیر داخلہ چوہدری نثار علی خان نے ان سے ملاقات کی اور ملکی سیاسی صورتحال پر تبادلہ خیال کیا۔

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button