جنرل (ر)راحیل کی سربراہی کا راستہ کس نے روکا ؟
لاہور (مانیٹرنگ ڈیسک) چینل ۵ کے تجزیوں اور تبصروں پر مشتمل پروگرام ”ضیا شاہد کے ساتھ“ میں گفتگو کرتے ہوئے سینئر صحافی اور تجزیہ کار ضیا شاہد نے کہا ہے کہ سعودی عرب میں بننے والے اسلامی اتحاد بارے کئی ماہ سے خبریں شائع ہو رہی ہیں لیکن حکومت کی جانب سے کہیں تردید نہ کی گئی۔ جنرل راحیل شریف کی ریٹائرمنٹ کے بعد بھی خبریں آئیں پھر بھی تردید نہ کی گئی۔ وزیر دفاع نے بھی تصدیق کی اور دو دن بعد بیان بدل دیا۔ مشیر خارجہ تو ان سے بھی آگے نکل گئے اور ایسے کسی اتحاد میں شمولیت کا امکان بھی مسترد کر دیا۔ پوری قوم عذاب میں مبتلاہے کہ یہ سب کچھ کیا ہو رہا ہے۔ میرے نزدیک وزیر دفاع کے ایک دم بیان بدل دینے اور اسلامی فورس میں شمولیت کے حوالے سے انکار کی وجہ امریکہ اور روس کی جانب سے آنے والا دباﺅ ہے۔ ایران نے بھی کھل کر اس اتحادی فورس بارے تشویش اور ناراضی کا اظہار کیا ہے۔ ایران، عراق، شام، لبنان جیسے اہم ملک اس اتحاد میں شامل نہیں ہیں اوباما انتظامیہ تو اس اتحادی فورس کے حق میں تھی چند ماہ قبل جب اس اسلامی اتحادی فورس کا اعلان کیا گیا تو امریکہ نے کوئی مخالفت نہیں کی تھی لیکن اب نئے امریکی صدر ٹرمپ اس کے حق میں نہیں ہیں اس باعث حکومت کو یکدم یو ٹرن لینا پڑا۔ سینئر صحافی نے کہا کہ آنے والے دنوں میں سعودی فرمانروا براہ راست وزیراعظم نوازشریف سے فون پر بات کریں گے اور مطالبہ دہرائیں گے۔ شام اور سعودی عرب میں جنگ چل رہی ہے اور شام کی پشت پناہی کرتے ہوئے روس بھی پورا دباﺅ ڈال رہا ہے کہ اسلامی اتحادی فورس نہ بنائی جائے۔ ایران کی نیوز ایجنسیاں بھی اس اتحاد کے خلاف پروپیگنڈا کر رہی ہیں۔ سوشل میڈیا پر جنرل (ر) راحیل شریف کے خلاف مہم چل رہی ہے۔ جنرل (ر) راحیل شریف شاید اب بھی اسلامی اتحادی فورس کے حوالے سے کوئی بات نہیں کریں گے لیکن ان کے کولیگ جنرلز اس حوالے سے بات کرتے رہیں گے۔ جنرل (ر) امجد شعیب نے تو مطالبہ کیا ہے کہ حکومت کو چاہئے کہ وہ راحیل شریف کو جانے کی اجازت دے، اس بات کا یہی مطلب نکلتا ہے کہ جنرل (ر) راحیل شریف تو جانا چاہتے ہیں لیکن دنیا کی بڑی طاقتوں اس اسلامی اتحادی فورس کے بنانے کے خلاف متفق ہو چکی ہیں۔ پاکستان میں جنرل (ر) راحیل شریف کے خلاف جو یکدم ایک کمپئن شروع ہوتی ہے اس میں ہمارا ایک پڑوسی ملک بھی شامل ہے۔ سینئر صحافی نے کہا کہ میں اس بے تکی اور بیہودہ دلیل سے بالکل اتفاق نہیں کرتا کہ راحیل شریف کو سعودی عرب میں اسلامی اتحادی فورس کی سربراہی کیلئے بھیج دیا گیا تو وہ کوئی ملکی راز بھی افشا کر سکتے ہیں۔ دنیا بھر میں کتنے ہی فوجی افسر، پولیس افسر اقوام متحدہ کے تحت مختلف ممالک میں فرائض انجام دے رہے ہیں کیا ان کے بارے میں بھی یہی سوچ اپنائی جائے۔ سینئر تجزیہ کار نے کہا کہ آرٹیکل 62,63 اگر واقعی اتنا خطرناک قانون ہے، ن لیگ، پیپلزپارٹی اپنے اتحادیوں سے مل کر اسے آئین سے نکال سکتے ہیں۔ سپریم کورٹ نے بھی آرٹیکل 62,63 بارے جو ریمارکس دیئے ان سے اتفاق نہیں کرتا۔ جن ججز صاحبان نے اسے ناقابل عمل قرار دیا ان سے ایک پاکستانی کی حیثیت سے عرض کرتا ہوں کہ آئین کے شروع میں تعارف میں قائداعظم کی تقاریر سے اقتسابات لے کر شامل کئے گئے، تمام علماءنے متحد ہو کر قرارداد مقاصد کی منظوری دی کہ شریعت کے خلاف کوئی قانون سازی نہ ہو گی آج تک کسی عدالت نے قرارداد مقاصد کی مخالفت نہیں کی ہے۔ میری درخواست ہے کہ آرٹیکل 62,63 پر سپریم کورٹ میں دوبارہ بحث کرائی جائے، عوامی ریفرنڈم کرا لیا جائے کہ یہ کہ آرٹیکل 62,63 منظور ہے یا نہیں۔ سینئر صحافی نے کہا کہ بی بی سی، وائس آف امریکہ یا دیگر غیر ملکی خبر رساں ادارے خبر دینے میں آزاد ہیں۔ پانامہ میں میں اب تک جو کچھ سامنے آیا ہے اس سے یہ نتیجہ نکلتا ہے کہ ابھی عدالت نے کوئی حتمی فیصلہ نہیں کیا صرف ریمارکس دیئے جا رہے ہیں۔ سپریم کورٹ سکول غیر جانبداری سے کیس سن رہی ہے۔ سینئرصحافی نے کہا کہ پاکستان اسلام کے نام پر وجود میں آیا تھا کسی کو یہ حق حاصل نہیں ہے کہ خود کو لبرل اور سیکولر ظاہر کرنے کیلئے جو منہ میں آئے کہہ دے۔