جمہوریت کا حسن
کالم :- منور علی شاہد
سیاست میں معروف دانشوروں نے سیاسی حکومت بارے بہت خوبصورت باتیں کہہ رکھیں اور آج بھی جدید ترین اور بڑی جمہوری طاقتوں میں ان کی روشن مثالیں موجود ہیں ان سب کی تناظر میں جب ہم اپنی جمہوریت اور جمہوری اداروں پر نظر ڈالتے ہیں تو سر شرم سے جھک ہی جاتے ہیں اور لگتا یہی ہے کہ ہمیں قوائد و ضوابط اور اصولوں سے بہت چڑ ہے اور ہم مادرپدر آزاد سوسائٹی چاہتے ہیں جہاں ایک طاقتور کمزوروں کو ہڑپ کرتا رہے جہاں غریب اور کمزور سیاسی جلسوں میں کرسیاں اور قالین اٹھاتا رہے اور ان سیاسی جوکروں کی جیت پر ڈھول کی ٹھاپ پر ناچتے رہیں ان کی کامیابیوں پر ناچتے ناچتے اب ان کی انگلیوں پر ناچنے لگے ہیں ایک اعلیٰ تعلیم یافتہ سرکاری اہلکار ایک جعلی ڈگری ہولڈرایم پی اے یا ایم این اے کا گھریلو ملازم تک بن جاتا ہے او ر ماسوائے جی سر جی سر کے کچھ نہیں کہہ سکتا اور یہی موجودہ سسٹم کا بدترین المیہ ہے ایک سرکاری اہلکار کی عزت نفس اور اس کے وقار کی حفاظت اس ادارے کا کام ہے لیکن جب ادارے ہی ایک ممبراسمبلی کے تابع ہوجائیں تو پھر وہاں نہ ڈسپلن رہتا ہے اور نہ قانون کی بالا دستی۔ ہمارے ملک میں ایک یونین کونسل کا ممبر منتخب ہونے کے بعد وہ سب سے پہلے ریاستی اداروں میں اپنی من پسند کے اہلکاروں کی تعیناتی کے لئے بھاگ دوڑ شروع کرتا ہے یہی حال صوبائی و قومی اسمبلی کے ممبران کا ہے ۔وہ ایسا اس لئے کرتے ہیں کہ ان کے مخصوص مفادات ہوتے ہیں جن کی تکمیل کے لئے ایسے اداروں کے کرپٹ اہلکار ان کی ضرورت ہوتے ہیں کئی دھائیوں سے حکومت میں رہنے کے باوجود بھی آج کہیں بھی جمہوریت کا حسن تو دور کی بات ہے معمولی شائبہ بھی کہیں نظر نہیں آتا تعلیم کا شعبہ ہو یا صحت کا، امن و عامہ کی بات ہو یا عدل و انصاف کی، روزگار کا مسئلہ ہو یا جان کی تحفظ، کہیں بھی کچھ نظر نہیں آتا نہ حکومت نظر آتی ہے اور نہ ہی جمہوریت اور نہ ہی جمہوری حسن۔ ہماری جمہوریت کا حسن ایک لطیفے سے کچھ اس طرح عیاں ہوتا ہے کہ کہیں ووٹ ڈالنے کے طریقوں کی بات ہو رہی تھی برطانوی شہری بولا کہ ہمارے ملک میں پوسٹ کے ذریعے ووٹ ڈالنے کی سہولت موجود ہے، جرمن شہری بولا کہ ہماری ترقی کا یہ عالم ہے کہ ہم ہم انٹرنیٹ سے آن لائن ووٹ ڈال دیتے ہیں، امریکی بولا ہم اس قدر آگے جا چکے ہیں کہ موبائل میسیج سے ووٹ ڈال لیتے ہیں سب سے آخر میں پاکستانی بولا۔ تم سب پرانے زمانے کے لوگ ہو۔۔ ہماری ترقی دیکھو ہم لوگ گھر پر ہی بیٹھے رہتے ہیں اور کوئی ہمارا ووٹ ڈال جاتا ہے۔
آزادی کے بعد آج تک پاکستان کے غریب اور متوسط طبقوں کو کبھی جمہوریت کا حسن دکھائی نہی دکھائی دیا تاہم جاتی عمراء بلاول ہاؤس سمیت وزراء کی پوش آبادیوں میں نظر آتا ہے جہاں ان کے کتے بھی جہازوں اور قیمتی گاڑیوں میں سفر کرتے ہیں جمہوریت کا حسن کوئٹہ کے اس چوک میں دیکھنے میں آیا ہے جہاں ممبر صوبائی اسمبلی عبد الحمید اچکزئی نے ٹریفک سارجنٹ کو سڑک پر ہی روند ڈالا کہ اس نے عدالت کے حکم پر اس کی گاڑی کے کالے شیشے اتارنے کی کوشش کی تھی۔ پاکستان میں جمہوریت کا حسن یہ ہے کہ سندھ اسمبلی کے اسپیکر کے بیٹے نے نشے میں گاڑی چلاتے ہوئے ایک موٹر سائکل کو ٹکر مار کر ہلاک کردیا اور پولیس نے اس کے خلاف کاروائی کرنے کی بجائے ملزم بیٹے کو پروٹوکول میں لا کر اس کی گاڑی وہاں سے ہٹا دی اور کسی قسم کی کاروائی اس کے خلاف نہ ہو سکی۔ مشال کا عبدل ولی خان یونیورسٹی میں بہیمانہ قتل ہوا، مجرم گرفتار ہوئے پھر بھگا دئے گئے یہ ہے ہماری جمہوریت کا حسن۔اٹلی کے آمر مسولینی نے جمہوریت کے بارے میں ایک بات کہی تھی اس نے کہا تھا کہ جمہوریت ایک بادشاہ کے بغیر ایسی حکومت ہوتی ہے جس میں کئی بادشاہ ہوتے ہیں جو کبھی کبھی ایک آمر کی نسبت زیادہ تباہ کن ثابت ہوتے ہیں۔ اس وقت پاکستان میں بھی ایسی جمہوریت ہے جس میں بہت سے بادشاہ موجود ہیں بلکہ مسولینی کی بات کو بھی پیچھے چھوڑتے ہوئے یہاں شہزادے اور شہزادیاں بھی ہیں جو جمہوریت کے حسن کو چار چاند لگا رہے ہیں
علم سیاست کی ایک معروف شخصیت پروفیسر سیلے نے کہا تھا کہ جمہوری حکومت ایسی حکومت کو کہا جاتا ہے جس میں ہر شخص کو حکومتی معاملات میں بلا روک ٹوک شرکت حاصل ہو، جس میں حکومت کرنے کا قانونی حق کسی مخصوص طبقہ یا طبقات کو حاصل نہیں بلکہ یہ حق تمام معاشرہ کو اجتماعی طور پر حاصل ہوتا ہے۔ ۔ ہمارے ہاں جمہوریت اور سیاست کے نام پر وہ کچھ ہوتا ہے جو کہیں اور نہیں ہوتا۔ ہماری سیا سی سادگی دیکھئے کہ ہم لنگڑی لولی جمہوریت بھی قبول کر لیتے ہیں خواہ اس میں ایک ڈکٹیٹر شب ایسی پالیسیاں ہی کیوں نہ چھپی ہوں بس جمہوریت کا لیبل لگنا ضروری ہے۔ جمہوری اصول قوائد و ضوابط، آئین و قانون سبھی کچھ پس پشت ڈال دیا جاتا ہے اس ضد بازی کے پیچھے نفرت کا عنصر چھپا نظر آتا ہے عقل و شعور اور ایمانداری کی بات تو یہ ہے کہ ہر حکومت میں انسانی فلاح ، برابری حقوق اور معیاری زندگی کی ترقی کی بات کو فوقیت دی جانی چاہیے لیکن بدقسمتی سے ہمارے ہاں ایسا نہیں ہو رہا اور نہ ہی ایسی سوچ پنپنی دکھائی دیتی ہے۔تین دہائیوں سے پنجاب اور پاکستان پر حکومت کرنے والوں نے اداروں کو استحکام دینے کی بجائے ان کوذاتی اور جماعتی تحویل میں لے رکھا ہے ذاتی مشاہدے کی بات ہے کہ بیرون ملک کے سفارت خانے برسراقتدار حکومت کے عہدیداروں کے رحم کرم پر ہوتے ہیں پارٹی کاہر عہدیدار سفارت خانے کے ہر سرکاری اہلکار کو من پسند کام کرنے پر مجبور کرتا ہے اور نہ کرنے کی صورت میں تبدیل کرانے کی دھمکیاں دیتا ہے
اور جو جمہوریت اور عوامی تائید سے مقبولیت حاصل کرتے ہیں وہ یا تو پھانسی پر لٹکا دیئے جاتے ہیں یا عوامی مقبولیت کے خوف سے قتل کر دیئے جاتے ہیں۔ سیاسی جماعتوں اور سیاست دانوں کا مصنوعی طریقے سے پیدائش کا عمل صرف پاکستان کے اندر ہی جاری ہے اور یہی وجہ ہے کہ وہ زیادہ نہ تو دیرپا ہوتا ہے اور نہ ہی اس کے فوائد عوام تک پہنچ پاتے ہیں اسی قسم کی شرانگیزیوں کے نتیجہ میں آج عام آدمی کی حالت ابتر سے ابتر ہوتی جا رہی ہے۔ عوامی ووٹ کے ذریعے ایک حکومت کا انتخاب ہی کافی نہیں ہوتا جمہوری ریاست کے لئے بلکہ دیگر اور بہت سے عوامل ہوتے ہیں جن کی تکمیل ناگزیر ہوتی ہے ۔ معاشی مساوات، مساوی حقوق ،اخلاقی اصولوں کی پاسداری، میانہ روی، سیاسی و مذہبی رواداری اور فوری عدل و انصاف کو بھی جمہوری ریاست و حکومت کے لئے اہم گردانا جاتا ہے انہی چند بنیادی اصولوں کو مدنظر رکھتے ہوئے آج کی طرز سیاست اور حکومت پر نظر ڈالیں اور پھر ایماندری سے سوچیں کہ کیا واقعی ہمارے ہاں جمہوری نظام اور جمہوری حکومت موجود ہے۔ کیا آج ہمارے سیاسی نظام میں کے اندر رواداری ، مساوات، بنیادی انسانی حقوق کی فراہمی، ملکی آئین کی پاسداری ہو رہی ہے، قانون کا احترام، مختلف مذاہب و مکاتب فکر سے تعلق رکھنے والے شہریوں کے ثقافتی و مذہبی نظام کا احترام کیا جاتا ہے ان سب سوالوں کا جوانب نفی میں ہے اس بات میں کوئی شک و شبہ باقی نہیں رہا کہ الیکشن کے ذریعے اسمبلیوں میں پہنچنے والے صرف ہاتھ اٹھا کر یا ووٹ ڈال کو جماعتی پالیسی کی ہاں میں ہاں میں ملاتے ہیں اچھے برے فیصلے یا بات سے ان کا کچھ لینا دینا نہیں ہوتا۔70 برس بعد بھی آج ہم کس سمت اور منزل کے مسافر ہیں اب تک کی سیاست سے تو یہی لگتا ہے کہ اس ملک میں سیاست میں اور مذہب دونوں ہی یا تو ذاتی مفاد کے لئے استعمال ہوتے ہیں یا مخالفین کے خلاف۔ پاناما کیس میں آج جو کچھ ہو رہا ہے وہ بھی ہمیں ہماری جمہوریت کے حسن کے جلوے دکھا رہا ہے۔ ریاست اور سیاست میں جمہوریت کا حسن پیدا کرنے کے لئے سب سے پہلے انفرادی طور پر ہر شہری کی سوچ میں جمہوریت کا حسن پیدا کرنا ہو گا