انٹرنیشنل

جماعت احمدیہ کینیڈاکے سالانہ جلسہ میں ہزاروں کی تعداد میں لوگوں کی شرکت

رپورٹ : نصیر احمد ظفر بیورو چیف کینیڈا

جماعت احمدیہ کینیڈاکے جلسہ سالانہ کا آج دوسرا دن ہے- سہ روزہ سالانہ جلسہ اتوار کو اختتام پذیر ہو گا۔ یہ جلسہ کینیڈا کےمشہور شہر ٹورانٹو میں منعقد ہو رہا ہے ۔ جس میں مقررین اردو اور انگلش زبانوں میں اہم مذہبی اور سماجی امور پر اپنے خیالات کا اظہار کریں گے۔
جماعت احمدیہ کے سربراہ حضرت مرزا مسرور احمد صاحب بھی خطاب کریں گے۔ اس موقع پر خواتین اور دوسرے عقائد سے تعلق رکھنے والے لوگ بھی تشریف لا رہے ہیں۔ اس کے علاوہ
اس سالانہ جلسہ میں پاکستان سمیت دنیا بھر سے مندوبین بھی شرکت فرما رہے ہیں – کسی بھی ناخوشگوار واقعہ سے نپٹنے کے لیے سیکورٹی کے سخت انتظامات کیے گئے ہیں-
پاکستان اور دنیا بھر کے دوسرے مسلمانوں کے مختلف مسالک کے لوگ جماعت احمدیہ کو کافر قرار دیتے ہیں جبکہ پاکستان میں حکومتی سطح پر بھی جماعت احمدیہ کو کافر قرار دئے کا ہر قسم کی پروگرامز نماز، اذان پر بھی پابندی ہے-
آئیے جماعت احمدیہ کی تاریخ کا ایک چھوٹا سا جائزہ لیں-
جماعت احمدیہ 1889ء میں حضرت مرزا غلام احمد (1835ء تا 1908ء) نے لدھیانہ میں قائم کی۔ حضرت مرزا غلام احمد نے اعلان کیا کہ انہیں الہام کے ذریعہ اپنے پیروکاروں سے بیعت لینے کی اجازت دی گئی ہے۔ انہوں نے امام مہدی اور مسیح اور حضرت محمدؐ کے تابع نبی ہونے کا دعویٰ کیا۔ مرزا غلام احمد کی وفات کے بعد حضرت حکیم نورالدین کو ان کا پہلا خلیفہ المسیح منتخب کیا گیا ، 1914ء میں حکیم نور الدین کا انتقال ہوا تو پیروکاروں کا اجتماع دو گروہوں میں بٹ گیا جن میں سے ایک کا نام احمدیہ مسلم جماعت اور دوسرا احمدیہ انجمن اشاعت اسلام لاہور کہلاتا ہے۔
حضرت مرزا غلام احمد نے اس تحریک کو 23 مارچ 1889 میں شروع کیا جسے احمدیہ مسلم جماعت بھی کہا جاتا ہے۔انکی وفات کے بعد ان کے خلفاء نے اس جماعت کی قیادت سنبھالی اور اب یہ جماعت 200 سے زائد ملکوں میں پھیل چکی ہے۔اس وقت اس جماعت کے خلیفہ کا نام حضرت مرزا مسرور احمد ہے جبکہ ان کے پیروکاروں کی تعداد ڈیڑہ سے دو کروڑ کے درمیان ہے جو کہ دنیا بھر میں پھیلے ہوئے ہیں۔
احمدیہ مسلم جماعت ایک منظم اور مربوط جماعت ہے یہی وجہ ہے کے اسکی صرف ایک ہی بڑی شاخ ہے۔حضرت مرزا غلام احمد کی نبوت کی نوعیت کے حوالےسے اختلافات کے سبب لاہوری احمدیہ جماعت اصل دھڑے سے الگ ہوئی لیکن آج یہ دھڑا ایک مختصر سی آبادی پر مشتمل ہے۔احمدیہ عقائد کو آغاز سے ہی اکثریتی اسلامی عقائد کے برخلاف خیال کیا جاتا رہا ہے اور اس سلسلے میں احمدی حضرات مختلف پابندیوں کا بھی شکار ہیں۔بہت سے سخت گیر اسلامی گروہ اس جماعت کو کافر خیال کرتے ہیں۔

(تاریخ)
1882میں حضرت مرزا غلام احمد قادیانی جن کا تعلق متحدہ ہندوستان کے گاوں قادیان سے تھا، نے دعویٰ کیا کہ انہیں بذریعہ الہام اس زمانہ کے لئے اسلام کی خدمت پر مامور کیا گیا ہے۔23 مارچ 1889ء کو انہوں نے لدھیانہ میں بیعت لے کر ایک باقاعدہ جماعت کی داغ بیل ڈالی۔

(تاریخ احمدیت کے چند اہم واقعات)
1889ء کی 23 مارچ کو لدھیانہ میں جماعت احمدیہ کی باقاعدہ بنیاد رکھی گئی۔ اس روز چالیس افراد نے بیعت کی۔ پہلی بیعت کرنے والے حضرت مرزا غلام احمد کے نزدیکی دوست اور معاون حکیم نور الدین تھے۔
1891ء میں حضرت مرزا غلام احمد نے مسیح موعود اور مہدی ہونے کا دعویٰ کیا۔ اسی سال جماعت احمدیہ کا پہلا اجتماع جلسہ سالانہ وقوع پذیر ہوا۔
1905ء میں حضرت مرزا غلام احمد نے نظام وصیت کی بنیاد رکھی۔ اس ضمن میں بعد میں بہشتی مقبرہ نامی قبرستان کا قیام عمل میں لایا گیا۔
1908ء میں 26 مئی کو لاہور میں حضرت مرزا غلام احمد نے وفات پائی۔ ان کی تدفین بہشتی مقبرہ، قادیان میں ہوئی۔
27 مئی 1908 کو حکیم نور الدین کو بالاتفاق حضرت مرزا غلام احمد کا پہلا خلیفہ منتخب کیا گیا۔ ان کی وفات پر 1914ء جماعت احمدیہ دو حصوں میں منقسم ہو گی۔ ایک حصہ مرزا بشیر الدین محمود احمد کی سربراہی میں نظام خلافت پر قائم رہا۔ اس حصہ کا مرکز قادیان ہی رہا اور احمدیہ مسلم جماعت کہلاتا ہے۔ جبکہ دوسرا حصہ مولوی محمد علی کی سربراہی میں لاہور چلا گیا اور احمدیہ انجمن اشاعت اسلام لاہور کے نام سے موسوم ہے۔
1914ء میں پہلے خلیفہ المسیح کی وفات پر مرزا بشیر الدین محمود احمد کو دوسرا خلیفہ منتخب کیا گیا۔
1934ء میں تحریک جدید کے نام سے دنیا بھر میں تبلیغی مراکز کے قیام اور اشاعت کا نظام شروع کیا گیا۔
1947ء میں تقسیم پاک و ہند کے نتیجہ میں احمدیہ مسلم جماعت کو اپنا مرکز قادیان سے عارضی طور پر لاہور اور پھر مستقلا نئے آباد کردہ شہر ربوہ منتقل کرنا پڑا۔
1957ء میں وقف جدید کے نام سے دیہی علاقوں کے ممبران جماعت احمدیہ کی تعلیم و تربیت کے لئے منصوبہ کا آغاز ہوا۔
1965ء میں تیسرے خلیفہ مرزا ناصر احمد کا انتخاب ہوا۔
1980ء میں سقوط غرناطہ کے سات سو سال کے بعد ہسپانیہ کے شہر پیدروآباد میں پہلی مسجد کا سنگ بنیاد رکھا گیا۔
1974ء میں پاکستان کی قومی اسمبلی نے جماعت احمدیہ کو ایک آئینی ترمیم کے ذریعہ غیر مسلم قرار دیا۔
1982ء میں چوتھے خلیفہ مرزا طاہر احمد کا انتخاب ہوا۔
1984ء میں پاکستان کے صدر جنرل محمد ضیاء الحق کی حکومت نے امتناع قادیانیت آرڈیننس کے ذریعہ جماعت احمدیہ کی بہت سی سرگرمیوں پر پابندی لگا دی۔ احمدیوں کے لئے اسلامی طریق پر سلام کرنا، اپنی عبادتگاہ کو مسجد کہنا، اذان دینا، تلاوت کرنا، اپنے عقیدہ کی تبلیغ و اشاعت کرنا وغیرہ قابل گرفت قرار پائے۔ اس آرڈیننس کے پیش نظر چوتھے خلیفہ المسیح نے پاکستان سے اپنا مرکز لندن منتقل کیا۔
1989ء میں جماعت احمدیہ نے دنیا بھر میں اپنے قیام کی صد سالہ جوبلی منائی۔
2003ء میں پانچویں خلیفہ مرزا مسرور احمد کا انتخاب ہوا۔
2008ء میں احمدیہ مسلم جماعت نے خلافت احمدیہ کی سو سالہ جوبلی منائی۔

(بیرونی تبلیغی مراکز کا قیام)
جماعت احمدیہ ایک تبلیغی جماعت ہے۔ چنانچہ تبلیغی مراکز کا قیام شروع ہی سے اس جماعت کی ترجیحات میں شامل رہا ہے۔ مسلمانوں میں تبلیغ کے علاوہ غیر مسلم مذاہب میں بھی تبلیغ پر زور دیا جاتا ہے۔ اس ضمن میں حضرت مرزا غلام احمد کے وقت سے ہی غیر ممالک میں تبلیغ کے لئے کوششوں کا آغاز کر دیا گیا تھا۔ خودحضرت مرزا غلام احمد نے مختلف ممالک میں اپنی کتب، اشتہارات اور رسائل نیز خطوط کے ذریعہ اپنے دعویٰ کا پرچار کیا۔
حضرت مزرا غلام احمد کی وفات کے بعد ان کے پہلے خلیفہ کے زمانہ میں انگلستان میں تبلیغی کام کا آغاز ہوا۔ چنانچہ پہلے باقاعدہ مبلغ کے طور پر چوہدری فتح محمد سیال نے لندن تبلیغی مرکز قائم کیا۔ ابتدائی مبلغین اکثر حضرت مرزا غلام احمد کے وہ ساتھی تھے جنہوں نے خود ان کے ہاتھ پر بیعت کر کے جماعت احمدیہ میں شمولیت اختیار کی تھی۔اس وقت احمدیہ مسلم جماعت ۲۰۰ سے زائد ممالک میں قائم ہے اور اکثر ممالک میں اپنے تبلیغی مراکز رکھتی ہے۔

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button