جمائما کی جانب سے رقوم کی منتقلی کا ریکارڈ آنے تک فیصلہ نہیںدے سکتے: چیف جسٹس
اسلام آباد (نیوز وی او سی+ ایجنسیاں) سپریم کورٹ نے عمران خان اور جہانگیر ترین کی آف شور کمپنی کے کیس کی سماعت کے دوران الیکشن کمشن سے اہم قانونی سوالات پر رائے طلب کرتے ہوئے عمران کے وکیل کو ہدایت کی ہے کہ وہ پانچ ٹرانزیکشن کی تفصیلات و ترسیلات کے بارے وضاحت پیش کریں وہ کس نے اور کس مقصد کے لئے بھیجیں۔ چیف جسٹس میاں ثاقب نثار نے کہا کہ عمران خان کو ثابت کرنا ہو گا کہ لندن سے آنے والی پانچ مختلف ٹرانزیکشن کے ذریعے رقم جمائما خان نے بھیجی، جمائما کی طرف سے رقوم کی منتقلی کا ریکارڈ آنے تک فیصلہ نہیں دے سکتے۔ عمران خان نے ٹیکس ایمنسٹی سکیم سے پہلے لندن فلیٹ ظاہر نہیں کیا، آپ کو ثابت کرنا ہوگا کہ رقم جمائما نے بھیجی، ہم تحقیقات کر رہے ہیں اور گہرائی میں جا رہے ہیں، جس پر عمران خان کے وکیل نے عدالت کو بتایا کہ جمائمہ خان سے رقم بھجوانے کا ریکارڈ مانگا گیا ہے جو عدالت میں پیش کر دیا جائے گا، عمران نے اگر آف شور کمپنی کو ٹیکس ریٹرن میں ظاہر نہیں کیا تو یہ عمران خان کی بد نیتی نہیں ہے کوتاہی ہو سکتی ہے۔ عدالت نے قرار دیا ہے کہ الیکشن کمشن ہمیں ان سوالات پر مشتمل جواب دے، جس میں پو چھا گیا ہے کہ الیکشن کمشن سیاسی جماعت کے اثاثوں کی سکروٹنی کب کر سکتا ہے، اثاثوں کی سکروٹنی کے بعد تفصیلات شائع کون اور کب کرے گا، الیکشن کمشن کس کے کہنے پر فارن فنڈنگ سے متعلق کارروائی کا حق رکھتا ہے، الیکشن کمشن کسی شکایت پر کب اور کیسے کارروائی کرسکتا ہے، کیا الیکشن کمشن فارن فنڈنگ کو جانچنے کیلئے ازخود نوٹس کا اختیار رکھتا ہے، کیا الیکشن کمشن ایک سالہ اکاؤنٹس کی پڑتال کا اختیار رکھتا ہے؟ کیا الیکشن کمشن فوجداری انکوائری کرسکتا ہے، کیا فارن فنڈنگ کیس الیکشن کمشن میں زیر التوا ہونے کے باوجود آرٹیکل 184 کی شق 3 کے تحت سپریم کورٹ جائزہ لے سکتی ہے، کیا الیکشن کمشن فارن فنڈنگ کیس کو سننے کا دائرہ اختیار رکھتا ہے، اگر ہم الیکشن کمشن کو فارن فنڈنگ کیس کو سننے کا دائرہ اختیار دیدیں تو اس کا سکوپ کیا ہوگا، الیکشن کمشن کی حدود، اختیار کیا ہوگا، الیکشن کمیشن فارن فنڈنگ کی درخواست کو کب اور کس مرحلے پر سن سکتا ہے، عدالت نے الیکشن کمشن کو ہدایت کی کہ وہ ان تیرہ سوالات کے جواب دے تو الیکشن کمشن کی جانب سے بتایا گیاکہ وہ ان سوالوں پر تحریری جواب داخل کرائیں گے، عمران کے وکیل نے کہا کہ عمران خان آف شور کمپنی شیئرز ہولڈر تھے نہ ڈائریکٹر، انکم ٹیکس ریٹرن میں کمپنی کا ظاہر کرنا ضرروری نہیں تھا۔ فلیٹ کی فروخت کے بعد کمپنی کو زندہ رکھنے کا جواز کمپنی شیئرز ہولڈرز اور ڈائریکٹر ہی پیش کر سکتے ہیں، چیف جسٹس نے کہاکہ آف شور کمپنی عمران خان نے بنائی، اس میں انکی بہنوں کا کیا فائدہ تھا، کمپنی کو کیوں زندہ رکھا گیا؟ نعیم بخاری نے کہا کہ بنی گالہ اراضی 4 کروڑ 35 لاکھ میں خریدی گئی، ایڈوانس رقم کے بعد زمین کی باقی ادائیگیاں اپریل 2002 سے جنوری 2003 تک بذریعہ چیک کی گئیں۔ جمائمہ خان نے لندن سے تمام رقم راشد خان کے اکاونٹ میں بھیجی۔ آٹھ لاکھ کی آخری ادائیگی عمران خان نے کیش کی صورت میں کی؟ عمران خان نے نیازی سروسز کو ٹیکس گوشواروں اور اثاثوں میں ظاہر نہیں کیا۔ چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ آف شور کمپنی کے ٹیکس بچانے کے علاوہ کیا فائدے ہیں؟ اس پر نعیم بخاری نے عدالت کو بتایا کہ کمپنی بنانے کا اولین مقصد کیپیٹل گین ٹیکس بچانا ہے۔ ایف بی آر کے پاس نیازی سروسز اور عمران خان کے خلاف کوئی مواد نہیں، نیازی سروسز کو ظاہر نہ کرنا غلطی ہے، مگر بدنیتی سے غلطی نہیں کی گئی، اس پر جسٹس فیصل عرب نے کہا کہ آپ خود اپنی بات کی نفی کر رہے ہیں، پہلے آپ نے کہا نیازی سروسز کو ظاہر کرنا ضروری نہیں تھا، اب آپ ظاہر نہ کرنے کو غلطی قرار دے رہے ہیں، اس پر نعیم بخاری نے کہا کہ یہ میری متبادل دلیل ہے۔ چیف جسٹس نے کہا کہ ایمنسٹی سکیم سے پہلے عمران خان نے لندن فلیٹ ظاہر نہیں کیا، لندن فلیٹ ٹیکس ایمنسٹی سکیم میں ظاہر کیا گیا، اس پر نعیم بخاری نے کہا کہ ٹیکس ایمنسٹی سکیم سے فائدہ اٹھاتے وقت عمران خان عام آدمی تھے، اس پر جسٹس عمر عطا بندیال نے استفسار کیا کہ کیا قانون کا اطلاق اس وقت ہوگا جب معاملہ الیکشن کمشن کے سامنے جائے؟ چیف جسٹس نے کہا کہ رقم بھجوانے کی وضاحت بنی گالہ اراضی کی ادائیگی کے ساتھ دیں، اس پر نعیم بخاری نے کہا کہ مائی لارڈ کنٹریکٹ یاد کرنا ہے یا فیض کو، مجھ سے فیض کا شعر پوچھیں فوری سنائوں گا، فیض کا شعر نہ سنا سکا تو مجرم ہوں گا، جسٹس فیصل عرب نے کہا کہ عمران خان کو بنی گالہ اراضی فروخت کرنے والا بھی عباسی ہی ہے عمران خان کو زمین فروخت کرنے والا بھی حنیف عباسی کی کمیونٹی سے ہے، چیف جسٹس نے کہا کہ جمائمہ نے 2 لاکھ تیس ہزار ڈالرز زیادہ بھیجے، اس کی وضاحت ہے؟ 2 لاکھ 58 ہزار ڈالر جمائمہ کی جانب سے آنے کے کیا شواہد ہیں، نعیم بخاری نے کہا کہ راشد خان کے اکاو نٹ میں ایک لاکھ 10 ہزار ڈالرز جمائمہ نے نہیں بھیجے، یہ رقم کسی دوسرے شخص کی جانب سے راشد خان کو بھجوائی گئی، 20 ہزار ڈالرز جولائی میں راشد خان کے اکاو نٹ میں آئے، راشد خان کو یاد نہیں کہ یہ رقم کہاں سے آئی۔ دوسری جانب توہین عدالت کیس میں الیکشن کمشن نے عمران خان کو جواب جمع کرانے کی آخری مہلت دے دی، عمران خان پہلے والے بیان میں ترمیم کر کے جواب 7 جون تک جمع کرا سکیں گے، پارٹی فنڈنگ کیس میں بھی جواب جمع کرانے کے لیے عمران کو الیکشن کمشن نے مزید وقت دیدیا۔ اس سے قبل الیکشن کمیشن نے فیصلہ محفوظ کر لیا تھا۔ عمران کے وکیل نے کہا توہین عدالت کا معاملہ غلط فہمی پر مبنی ہے، در گزر کیا جائے۔ چیف الیکشن کمشنر نے کہا کہ عمران نے جو جواب داخل کرایا ہے۔ نظرثانی درخواست واپس لے لی مگر عمران خان نے معافی نہیں مانگی۔ آج تک جس نے بھی معذرت کی ہم نے اسے تسلیم کیا، نظرثانی درخواست میں جو الفاظ لکھے گئے تھے وہ کبھی ختم نہیں ہوسکتے، معاملے پر الیکشن کمشن اپنا فیصلہ سنائے گا، تحریک انصاف نے استدعا کی کہ دانیال عزیز کے خلاف توہین عدالت کی درخواست پر بھی کارروائی کی جائے۔ فیصلے کے مطابق توہین عدالت کیس میں عمران کی طرف سے جمع کرایا گیا جواب مسترد کردیا گیا۔ ایک اور کیس میں الیکشن کمشن نے تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کو پارٹی فنڈنگ کیس اور توہین عدالت کیس میں دوبارہ جواب جمع کرانے کی ہدایت کرتے ہوئے۔ سردار محمد رضا نے کہا کہ سپریم کورٹ جو فیصلہ کرنے جارہی ہے وہ بہت اہم ہوگا۔ جس کے بعد الیکشن کمیشن نے پی ٹی آئی کو پارٹی فنڈنگ کی تفصیلات جمع کرانے کا حکم برقرار رکھتے ہوئے کیس کی سماعت 22 جون تک ملتوی کر دی۔ تحریک انصاف نے پارٹی فنڈنگ کیس میں الیکشن کمشن کا دائرہ اختیار اسلام آباد ہائیکورٹ میں چیلنج کر دیا ہے۔ تحریک انصاف نے بیرسٹر انور منصور کے توسط سے اسلام آباد ہائیکورٹ میں پارٹی فنڈنگ سے متعلق درخواست جمع کرائی جس میں الیکشن کمشن اور اکبر ایس بابر کو فریق بنایا گیا ہے۔ الیکشن کمشن نے 8 مئی کو پی ٹی آئی کی غیرملکی فنڈنگ کیس سننے کا فیصلہ کیا تھا تاہم پی ٹی آئی نے درخواست میں موقف اختیار کیا ہے کہ پارٹی فنڈنگ کیس سننا الیکشن کمشن کے دائرہ اختیار میں نہیں آتا۔ الیکشن کمشن نے تحریک انصاف کے پارٹی فنڈنگ کیس پر دائرہ اختیار کے حوالہ سے تفصیلی فیصلہ جاری کرتے ہوئے پی ٹی آئی کے اعتراضات مسترد کر دیئے ہیں۔ الیکشن کمشن نے فیصلہ میں قرار دیا ہے کہ پی ٹی آئی کے بینک اکاؤنٹس کی چھان بین کا الیکشن کمشن کو مکمل اختیار ہے، الیکشن کمشن کو کسی معاملہ پر از خود نوٹس لینے کا بھی اختیار ہے۔ فیصلہ میں کہا گیا ہے کہ پی ٹی آئی ثابت نہیں کر سکی کہ اکبر ایس بابر کو پارٹی سے نکالا گیا ہے۔ اکبر ایس بابر تاحال پی ٹی آئی کے رکن ہیں۔ فیصلہ میں کہا گیا ہے کہ اگر پی ٹی آئی اکاؤنٹس شفاف ہیں تو جانچ پڑتال میں کیا حرج ہے۔ فیصلہ میں اس بات کو مضحکہ خیز قرار دیا گیا ہے کہ الیکشن کمشن ریکارڈ کا جائزہ نہیں لے سکتا، سیاسی جماعتیں ملنے والے فنڈز کے ذرائع بتانے کی پابند ہیں۔