ایڈیٹرکاانتخاب

جسٹس باقر نجفی کی رپورٹ میں رانا ثنااللہ،پنجاب پولیس کی طرف اشارہ

لاہور 6 دسمبر 2017
(بیورو رپوٹ پاکستان نیوز وائس آف کینیڈا)
سانحہ ماڈل ٹاؤن سے متعلق لاہور ہائی کورٹ کے حکم کے بعد پنجاب حکومت نے جسٹس علی باقر نجفی کی رپورٹ جاری کردی۔
صوبائی حکومت نے 132 صفحات پر مشتمل رپورٹ پبلک ریلیشنز ڈائریکٹوریٹ کی ویب سائٹ کے ذریعے جاری کی۔
جسٹس علی باقر نجفی کی رپورٹ میں سانحے کی وجہ بننے والے حالات و واقعات کا حوالہ دیتے ہوئے کہا گیا کہ اس وقت کے وزیر قانون پنجاب رانا ثنا اللہ 16 جون 2014 کو اس بات کا فیصلہ کرچکے تھے پاکستان عوامی تحریک (پی اے ٹی) کے سربراہ ڈاکٹر طاہرالقادری کو راولپنڈی سے لاہور لانگ مارچ کی اجازت نہیں دی جائے گی، جس کے لیے انہوں نے 23 جون 2014 کا اعلان کیا تھا۔
رپورٹ میں کہا گیا کہ طاہرالقادری کو سیاسی مقاصد حاصل کرنے سے روکنے کے لیے ایک شخص کے فیصلے نے صورتحال سے نمٹنے کے لیے پولیس کے استعمال کی خطرناک حکمت عملی کو جنم دیا، جس کے نتیجے میں اگلے روز ہلاکتیں ہوئیں جنہیں روکا جاسکتا تھا۔
اگرچہ جسٹس علی باقر نجفی کی رپورٹ میں سانحے کی ذمہ داری کسی پر نہیں ڈالی گئی، لیکن کہا گیا کہ رپورٹ پڑھنے والے حقائق اور حالات کی روشنی میں باآسانی منہاج القرآن واقعے کے ذمہ داران کا تعین کر سکتے ہیں۔
رپورٹ کے چند مذمتی مشاہدات
رانا ثنا اللہ کی سربراہی میں ہونے والے آپریشن کی وجہ سے ہلاکتیں ہوئیں جن کو روکا جاسکتا تھا۔
واقعے کے حقائق و حالات سے واضح طور پر معلوم ہوتا ہے کہ پولیس افسران نے سانحے میں پولیس افسران فعال طور پر شریک ہوئے۔
پنجاب کی تمام تر انتظامیہ نے اپنے طرز عمل سے ابہام پیدا کیا۔
پولیس کے طرز عمل سے لگتا ہے کہ ان کو فائرنگ کرنے اور لوگوں کی پٹائی کے لیے ہی بھیجا گیا تھا۔
سانحے کی وجہ بننے والے واقعات
اپنی رپورٹ میں جسٹس علی باقر نجفی نے کہا کہ 16 جون کے اجلاس کے دوران رانا ثنااللہ کو بتایا گیا کہ پاکستان عوامی تحریک حکومت کا تختہ الٹنے اور ’انقلاب‘ لانے کا ارادہ رکھتی ہے، جس پر صوبائی وزیر نے واضح طور پر کہا کہ طاہرالقادری کو اس بات کی اجازت نہیں دی جائے گی۔
کمشنر لاہور نے منہاج القرآن کے ارد گرد تجاوزات اور بیریئرز لگانے کے غیر قانونی اقدامات کی رپورٹ پیش کی، اجلاس میں تجاوزات ہٹانے کے لیے فوری کارروائی کا فیصلہ کیا گیا۔
اجلاس میں وزیر اعلیٰ پنجاب شہباز شریف کی جگہ ڈاکٹر توقیر شاہ شریک ہوئے جنہوں نے بیریئرز ہٹانے پر رضامندی ظاہر کی، جبکہ آپریشن کے فیصلے پر ایڈووکیٹ جنرل پنجاب سے قانونی رائے نہیں لی گئی۔
رپورٹ کے مطابق آپریشن کے لیے پولیس کی نفری کو بھیجا گیا جو 16 جون 2014 کی آدھی رات کو حکم کی تعمیل کے لیے منہاج القرآن پہنچی، تاہم وہاں موجود مشتعل ہجوم اور عوامی تحریک کے ہمدردوں کی جانب سے پولیس پر پتھراؤ شروع کردیا گیا۔
پولیس نے جوابی کارروائی کے تحت مظاہرین پر فائرنگ شروع کردی، جس سے جائے وقوع پر متعدد افراد زخمی ہوئے، جن میں سے چند بعد ازاں دم توڑ گئے۔
رپورٹ میں کہا گیا کہ پولیس والوں نے کھلے عام خون کی ہولی کھیلی۔
جسٹس علی باقر نجفی نے کہا کہ ’بہت افسوس کی بات ہے کہ پولیس والوں نے ایک دوسرے کو قانونی شکنجے سے بچانے کی کوشش کی اور کسی پولیس افسر یا اہلکار نے یہ نہیں بتایا کہ کس کے حکم پر پولیس نے فائرنگ شروع کی، ٹربیونل کو سانحے کی تہہ تک پہنچنے کے لیے مکمل اختیارت نہیں دیئے گئے تھے، جبکہ ٹربیونل کو مکمل اختیار نہ دے کر سچ کو چھپایا گیا۔
ان کا کہنا تھا کہ ’فائر کھولنے کاحکم یقیناً پولیس کے کسی افسر نے کوڈ آف کرمنل پروسیجر 1898 کے سیکشن 128 کے تحت دیا، جس کا رینک اسسٹنٹ سپرنٹنڈنٹ یا ڈپٹی سپرنٹنڈنٹ سے کم نہیں ہوگا۔‘
رپورٹ کے مطابق زیادہ تشویشناک بات یہ ہے کہ جب وفاقی حکومت نے پوچھا کہ پنجاب پولیس چیف اور ڈی سی او لاہور کو سانحے سے قبل کیوں ہٹایا گیا تو کوئی اطمینان بخش جواب نہیں آیا، ان حقائق اور حالت سے منفی تاثر ملتا ہے۔‘
رپورٹ میں کہا گیا کہ تمام واقعے میں وزیر اعلیٰ پنجاب کے حوالے سے بھی شکوک و شبہات اٹھتے ہیں۔
ان کے مطابق انہوں نے ’صبح ساڑھے 9 بجے ٹی وی پر کشیدہ صورتحال دیکھ کر فوراً اپنے سیکریٹری ڈاکٹر توقیر حسین شاہ کو فون کیا اور پولیس کو پیچھے ہٹنے کا حکم دینے کی ہدایت کی۔‘
تاہم ان کا یہ بیان رانا ثنااللہ اور سیکریٹری داخلہ کے اس بیان سے مطابقت نہیں رکھتا جو انہوں نے پہلے دیا۔

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button