جسٹس اعجاز الحسن کے گھر پر فائرنگ ،انگلیاں کس جانب
دہشت گردی کا کوئی بھی واقعہ قابل مذمت ہوتا ہے ۔ جس ملک کی عدلیہ ہی دہشت گردی کا نشانہ بننا شروع ہو جائے اس ملک کی عوام کس کے رحم و کرم پر ہوگی۔ شریف فیملی کے نیب مقدمات کے نگران جسٹس اعجاز الحسن کے گھر پر 14اپریل کی رات فائرنگ ہوئی اور 15اپریل کی صبح دو بار فائرنگ کی گئی ۔ جس پر ہر پاکستانی سراپا احتجاج ہے ۔ اگر حکومت وقت اپنے ملک کی اعلی عدلیہ کو تحفظ فراہم نہیں کر سکتی تو اس کو منصب پر رہنے کا کوئی حق بھی نہیں۔ اس واقعہ کا ذمہ دار کون ہے ؟ یہ حملہ کس کی طرف سے ہو سکتا ہے ؟ ان سوالات کے جواب تو وقت کے ساتھ ملیں گے۔
معروف رائے عامہ کے مطابق کسی بھی حملے میں سب سے پہلے شک اس طرف جاتا ہے جن عناصر کو اس واقعے سے فوائد حاصل ہونے کے امکانات ممکن ہوں۔ اس لیے اس واقعے سے منسلک معاملات کو دیکھنا ہو گا۔ جسٹس اعجاز الحسن سپریم کورٹ کے انتہائی اہم ججوں میں سے ایک ہیں ۔ پانامہ سکینڈل کے منظر عام پر آنے کے بعد یہ کیس مختلف مراحل سے گزرتے ہوئے جب نیب کی عدالت میں پہنچاتو سپریم کورٹ کی طرف سے جسٹس اعجاز الحسن کو نیب میں شریف فیملی کے مقدمات پر نگران جج مقرر کیا ۔ جس پر شریف فیملی کی طرف سے تنقید کا نشانہ بنایا گیا ۔
یاد رہے کہ میڈیا پر ایک ماہ سے یہ خبریں گردش کر رہی ہیں کہ کہ مسلم لیگ (ن) کی قیادت عدلیہ پر حملے اور ملک میں انتشار کی منصوبہ بندی کر رہی ہے۔ کچھ دن پہلے سانحہ ماڈل ٹاؤن پر جسٹس باقر نجفی رپورٹ جس کے مطابق 14افراد کے قتل کی ذمہ دار پنجاب حکومت ہے، جس عدالتی بنچ نے باقر نجفی رپورٹ کو عدالتی کاروائی کا حصہ بنانے کا حکم جاری کیا گیا جسٹس اعجاز الحسن بھی اس بنچ کے حصہ تھے۔ پنجاب کی 56 کمپنیوں کے کیس میں احد چیمہ اور شہباز شریف کے داماد اور باقی شریف فیملی کے بھی کئی افراد کے گرد گھیرا تنگ کرنے میں بھی جسٹس اعجاز الحسن شامل ہیں۔ یہ چند اہم نکات ہیں جو فائرنگ کے اس واقعے میں شریف فیملی کو بھی شامل تفشیش ہونے کی نشاندہی کرتے ہیں۔
جسٹس اعجاز الحسن کی رہائش ماڈل ٹاؤن لاہورمیں وزیر اعلی کی رہائش کے قریب ہے۔ پولیس کی سیکورٹی سپریم کورٹ کے تمام ججز کو پولیس کی سیکورٹی مہیا کی جاتی ہے ۔ ریڈ زون کی حیثیت حاصل کرنے والے وزیر اعلی ہاؤس کے قریب ہونے کے باوجود ، اس گلی میں موجود CCTV کیمروں کا خراب ہونا اس فائرنگ کے واقعے کو باقاعدہ منصوبہ بندی کی طرف اشارہ کرتا ہے۔اور اس سب سے بڑھ کر رات کو پہلی بار فائرنگ ہونے پر کوئی ایکشن نہ لینا اور صبح دوبارہ فائرنگ کا ہونا پنجاب کے صاحب اقتدار کی کارکردگی پر سوالیہ نشان پیدا کرتا ہے۔
پاکستان کی اعلی عدلیہ عوام کی دم توڑتی امید وں کا سہارا بنتی نظر آ رہی ہے ۔ پاکستان کی کروڑوں عوام کی دعائیں اس وقت پاکستان کی اعلی عدلیہ کے ساتھ ہیں۔ ان حالات میں پاکستان کی سیکورٹی کے اداروں کو بھی اپنا کرادار ادا کرنا ہوگا اور خاص طور پر اس واقعہ سے جنم لینے والے شکوک وشبہات کا ہر طرح سے مکمل جائزہ لینا ضروری ہوگا،خاص طور پر یہ کہ کہیں ان کا تعلق سیاسی انتقام سے تو نہیں ؟کسی پر ناحق الزام لگانا بھی جائز نہیں ہوگا۔