جرمن کے دستور میں اسلامی قوانین کی کوئی گنجائش نہیں ۔گاؤ لائڈ
منور علی شاہد بیوروچیف جرمنی
گزشتہ انتخابات میں کامیابی حاصل کرکے پہلی با جرمن کی ر پارلیمنٹ میں پہنچنے والی دائیں بازو کی سیاسی
جماعت اے ایف ڈی کے سربراہ گاؤ لائڈ نے ایک مرتبہ پھر اسلام مخالف موقف اختیار کرتے ہوئے کہا ہے کہ جرمن کے دستور میں اسلامی قوانین کی کوئی گنجائش نہیں ہے اوراسلام جرمنی کا حصہ نہیں ہے۔ وہ برلن میں پریس کانفرنس سے خطاب کر رہے تھے۔۔گاؤ لائڈ نے غیر ملکی صحافیوں کی تنظیم وی اے پی کی خصوصی دعوت پر ان سے ملاقات کی اور اپنی جماعت کے موقف کو مزید وضاحت کے ساتھ بیان کیا۔
پریس کانفرنس کے دوران صحافیوں اور نامہ نگاروں سے باتیں کرتے ہوئے گاؤ لائڈ نے کہا کہ اگر جرمنی میں مقیم مسلمان اپنے عقیدے کی صرف ذاتی نوعیت پر پیروی کریں تو انہیں کوئی اعتراض نہیں لیکن جرمنی کے دستور کے اندر کسی قسم کی اسلامی شریعہ کی بلکل گنجائش نہیں ہے۔
پچاس کے قریب صحافیوں اور نامہ نگاروں سے باتیں کرتے ہوئے انہوں نے داخلی اور خارجی امور سے متعلق اہم اور کڑوے سوالات کے جوابات دیئے اورسلامی ثقافت کی جرمنی معاشرے کے اندر ہم آہنگی بارے انہوں نے دوٹوک موقف اختیارکرتے ہوئے یہ واضع کیا کہ اسلام جرمنی کا حصہ نہیں ہے۔ یاد رہے کہ دائیں بازو کی جماعت اے ایف ڈی جس کا جرمنی زبان میں مطلب متبادل برائے جرمنی ہے، جرمنی کی سیاست کے اندر مہاجرین اور اسلام مخالف نظریات رکھنے والی سب سے بڑی جماعت ہے جس کو انجیلا میرکل کی مہاجرین بارے کھلی پالیسی اپنانے کے ردعمل میں عوامی حمایت حاصل ہوئی ہے۔ پریس کانفرنس کے دوران دائیں بازو کی جماعت کے اہم راہنما نے ڈوئچے ویلے کے نمائندہ عرفان آفتاب کے ایک سوال کے جواب میں اپنے موقف کی مزید وضاحت کرتے ہوئے کہا کہ جرمنی کا ارتقاء مسیحت سے ہوا ہے اور یہاں صرف مسیحی اقدار کی پیروی کی جائے گی
یہ امر قابل ذکر ہے کہ حالیہ نئی پارلیمنٹ کے ایک اجلاس نئی حکومت کے نو منتخب وزیر داخلہ بورسٹ زیہوفر نے بھی پارلیمان کے اندر یہ کہا تھا کہ اسلام جرمن ثقافت کا حصہ نہیں ہے اور انہوں نے مہاجرین بارے سخت پالیسی اپنانے کا عندیہ بھی دیا تھا،دوسری طرف جرمنی کی چانسلر انجیلا میرکل نے اپنی حکومت کے وزیر داخلہ کے موقف کی نفی کرتے ہوئے کہا ہے کہ اسلام جرمنی کا حصہ ہے اور وہ2015 سے مسلسل یہی کہتی چلی آ رہی ہیں کہ اسلام اب جرمنی کا حصہ ہے۔ موجودہ جرمن پارلیمان کے اسپیکر جن کا تعلق سی ڈی یو سے ہے اور ایک سینئر سیاست دان ہیں ، نے بھی مہاجرین کے متعلق ایک بحث کے دوران یہ ریمارکس دیئے تھے کہ ہر ایک کو یہ بات سمجھ لینی چاہیے کہ اسلام جرمنی کا حصہ ہے۔ پہلی بار یہ بازگشت 2010 میں سنی گئی تھی جب اس وقت کے جرمن صدر کرسٹیان وولف نے کہا تھا کہ اسلام جرمنی کا حصہ ہے
اس وقت جرمنی میں مسلمانوں کی تعداد چار اعشاریہ پانچ فیصد ہے