کالم,انٹرویو

جرمنی کے وفاقی انتخابات۔۔ایک جائزہ

کالم :- منور علی شاہد ،جرمنی
2013 میں ملالہ یوسف زئی کو یورپین پارلیمنٹ کا اعلیٰ ترین ایوارڈ سخارف پرائز دینے والے اسپیکر یورپی پارلیمان مارٹن شلس اگلے اتوار24ستمبر انجیلا میرکل کے مدمقابل جرمنی کی چانسلرشپ کے امیدوار ہیں اس مقابلے پر نہ صرف جرمنی بلکہ یورپ کے سیاسی ماہرین و تجزیہ نگاربھی ایک دلچسپ اور سخت مقابلے کی توقع کر رہے ہیں ۔مارٹن شلس یورپ کی سیاست کے ایک انتہائی متحرک اور فعال سیاست دان ہیں گیارہ برس تک وہ اپنے شہر کے مئیر بھی رہے ہیں اور کم عمر مئیر کا اعزاز بھی ان کے پاس ہے اور انہوں نے میرکل کے خلاف انتخاب لڑنے کے لئے یورپی پارلیمنٹ کی سربراہی بھی چھوڑ دی تھی اس سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ مارٹن شلس جرمنی کی چانسلرشپ کے لئے کس قدر سنجیدہ تھے مارٹن شلس نے انجیلا میرکل ایسی انتہائی زیرک اور مشکل فیصلے کرنے کی صلاحیت سے مالا مال انجیلا میرکل سے مقابلے کو ایک چیلنج کے طور پر اس لئے بھی قبول کیا تھا کہ اس سے پہلے تین بار انجیلا میرکل اس کی سیاسی جماعت شوسل ڈیموکریٹک کے تین امیدواروں کو شکست دے کر کامیاب ہوتی رہی ہیں۔ کیا اس بار شوسل ڈیموکریٹک پارٹی کا انجیلا کو شکست دینے کا خواب شرمندہ تعبیر ہوسکے گا کہ نہیں ، اس کے لئے سب کو چند دن تک اور انتظار کرنا ہوگا ۔ مارٹن شلس2012سے2017 تک یورپی پارلیمان کے اسپیکر رہے ہیں اور اس سال جنوری میں ان کی جماعت ایس پی ڈی نے میرکل کے مقابل پر ان کو امیدوار نامزد کیاتھا
جرمنی کی سیاسی اور جمہوری تاریخ پر نظر ڈالیں تو ہمیں انتخابات کا تسلسل تین ادوار میں نظر آتا ہے ۔ سب سے پہلا دور1871تا1912تک کا ہے اس دور میں 13انتخابات ہوئے اور یہ دور شہنشاہ ولیم کا شاہی دور تھا اور پہلی بار انتخاب1871میں منعقد ہوئے تھے یہ Imperia election کی یادگار ہیں دوسرا دور1919سے لیکر1932کا ہے اس دور میں 8بار انتخابات منعقد ہوئے یہ دورWeimar Republic Elet کا تھا اس کے بعد نازی دور تھا اس میں 4بار انتخابات ہوئے اور اس کا دور1933 سے1938تک رہا۔24 ستمبر2017کو منعقد ہونے والے وفاقی پارلیمان کے انتخابات 1949میں شروع ہونے والے جمہوری عمل کا تسلسل ہیں جس کے تحت فیڈرل ری پبلک جرمنی کا قیام عمل میں آیا تھااور یہ انیسویں پارلیمان انتخابات ہیں اس انتخاب میں جرمن کے61.5ملین اہل ووٹرز اپنا حق رائے دہی استعمال کریں گے اٹھارہ سال کی عمر کا جرمن شہریت رکھنے ولا ووٹ ڈالنے کا حق رکھتا ہے
جرمنی میں انتخابات صرف اتوار کو یا پبلک تعطیل پر ہی منعقد ہوتے ہیں اور تاریخ کے تعین کا اختیار صدر کو حاصل ہے۔ جرمنی اس بیاسی ملین کی آبادی کے ساتھ یورپ کا سب سے بڑا ملک ہونے کے ساتھ ساتھ دنیا کی چوتھی بڑی اقتصادی قوت بھی ہے یورپ کے قلب میں واقع جرمنی اس وقت عالمی سطح پر ایک اہم ترین ممالک میں ایک ہے جو عالمی سیاست میں ایک اہم کردار ادا کر رہا ہے آج کے دور میں اگر جرمنی کو یورپ کی شہ رگ کہا جائے تو یہ غلط نہ ہوگا۔ جرمنی قانون سازی کا اختیار وفاقی پارلیمان کو ہے جس کو جرمن زبان میںBundestagکہتے ہیں یہ صوبوں یا ریاستوں کی نمائیندہ ہوتی ہے جرمنی کا وفاقی پارلیمان اس وقت16صوبوں یا ریاستوں پر مشتمل ہے ہر صوبے کی اپنی پارلیمان اور حکومت ہے اور بہت سے شعبوں میں قانون سازی کے اختیارات بھی حاصل ہیں۔جرمنی کے اندر سیاسی استحکام اور معاشی مضبوطی و ترقی کی وجوہات میں ایک وجہ یہاں کی عدلیہ کی executiveاور
legislature سے مکمل آزادی ہے ۔جرمنی کاموجودہ آئین جس کو جرمن زبان میںGrundgesetzکہتے ہیں 1949سے نافذالعمل ہے ۔جرمنی کی سیاست پر نظر ڈالیں تو پتہ چلتا ہے کہ یہاں کثیرلجماعتی سیاسی اتحادوں کی حکومت رہی ہے اور سیاسی رواداری کی وجہ سے چھوٹی چھوٹی جماعتیں بھی سیاسی اتحادوں کے ساتھ مل کر جمہوریت کا استحکام دینے میں اپنا کردار ادا کرتی ہیں جب کبھی حکومت بنانے میں مشکل پیش آئے تو ملک کی چھوٹی جماعتوں کو شریک اقتدار کرلیا جاتا ہے
اگلے اتوار کو جن دو بڑی سیاسی جماعتوں کے مابین انتخابی ٹکراؤ ہونے کو ہے یہی دو جماعتیں کئی دہائیوں سے نلکی سیاست میں فعال کردار ادا کر رہی ہیں موجودہ چانسلر انجیلا میرکل جن کا تعلق کرسچن ڈیموکریٹک یونین سے ہے اور یہ اتحادمسلسل 2005سے برسراقتدار ہے اور2009 ،2013کے انتخابات میں کامیابی حاصل کی تھی آج ان کے مضبوط حریف مارٹن شیلس کا تعلق جماعت شوسل ڈیموکریٹک پارٹی سے ہے جس کو گزشتہ تین انتخابات میں انجیلا میرکل نے شکست دی تھی یہ جرمنی کے جمہوری نظام کا حسن ہی ہے کہ دہائیوں سے مخلوط حکومتوں نے کامیابی سے اپنے اپنے ادوار کو نہ صرف کامیابی سے مکمل کیا بلکہ معاشی ترقی حاصل کرکے دنیا کی چوتھی بڑی اقتصادی طاقت ہونے کا اعزاز حاصل کیا اور آج جرمنی نہ صرف یورپ بلکہ عالمی سیاست میں ایک مرکزی کردار ادا کررہا ہے
حالیہ انتخابات میں جرمنی میں پناہ گزینوں کی بازگشت ایک بار بار پھر سنائی دی گئی ہے ملک کی سیاسی جماعتوں نے انجیلا کی پناہ گزین بارے کھلی پالیسی کو انتخابی مہم میں بھرپور طریق سے استعمال کیا ہے اور انجیلا میرکل کے خلاف اس کو بطور سیاسی ہتھیار بھی استعمال کیا گیا ہے کچھ مبصرین نے اس خدشے کا بھی اظہار کیا ہے کہ میرکل مہاجرین کی پالیسی کے باعث شکست سے بھی دوچار ہوسکتی ہیں تاہم ان باتوں کے باوجود جرمن چانسلر نے ایک انتخابی مباحثہ میں اس امر کا اعادہ کیا ہے کہ ان کی جماعت یورپی یونین میں شامل ان ممالک کو دیے جانے والے فنڈز روکنے کا وعدہ کررکھا ہے جو مہاجرین کو قبول کرنے سے انکار کرتے ہیں مہاجرین کو پناہ دینے کی پالیسی اپنانے کے ردعمل میں جرمن کی سیاست میں پہلی بار ایسی جماعت کو پزیرائی ملی ہے جو مہاجرین کی شدید مخالفت ہے اور ان نے مہاجرین کی مخالفت کے نام پر عوام میں مقبولیت حاصل کی ہے۔الٹر نیٹیو فئیور ڈوئچ لینڈ یعنی اے ایف ڈی کے نام سے شہرت پانی والی اس نئی جماعت میں نازی نظریات والے لوگ شامل ہیں اس کے بارے میں کہا جارہا ہے کہ یہ پہلی بار وفاق پارلیمان تک پہنچ سکتی ہے اس کے علاوہ فری ڈیموکریٹک پارٹی، لیفٹ پارٹی دی لنکے اور ماحول پر کام کرنے والی گرین پارٹی بھی چھوٹی پارٹیوں میں شامل ہیں ۔جرمن میں مقیم مسلمانوں کی متعدد تنظیموں نے جرمنی میں مقیم مسلمانوں کے دیرینہ مسائل ختنے اور قربانی سمیت متعدد دیگر معاملات پر مبنی سوالات تمام سیاسی جماعتوں کو ایک سوالنامہ کی شکل میں بھجوائے تھے تاکہ انتخابات سے قبل مسلمانوں کو ان بارے علم ہو سکے اس پر لگ بھگ سبھی جماعتوں نے پہلے سے رائج قوانین کی حمایت جاری رکھنے کا کہا جبکہ زیادہ سیاسی جماعتوں نے کھل کر کہا کہ وہ مسلمانوں کے خلاف معتصبانہ رویے کے خلاف ہیں، مسلمان کئی برسوں سے اپنی محنت سے جرمن معاشرہ میں مثبت کردار ادا کر رہے ہیں۔مسلمان بطور پولیس اہلکار، ڈاکٹرز، نرسز،کھلاڑی اور دیگر کئی شعبوں میں نمایاں کردار ادا کررہے ہیں۔سیاسی جماعتوں کا مسلمانوں بارے یہ ردعمل ان کے اس آئین کے مطابق ہے جس میں تمام مذاہب کو مکمل آزادی دی گئی ہے۔ اس سال تین اشاریہ ایک ملین تارکین وطن اپنے ووٹ سے نئے چانسلر کے انتخاب میں اہم کردار ادا کریں گے
جرمن اب تیزی سے ایک متنوع ملک بن رہا ہے اس وقت جرمن پارلیمنٹ میں631میں سے37ایسے اراکین ہیں جو یا ہجرت کرکے آئے تھے یا تارکین وطن کی اولاد ہیں اب جبکہ انتخابات میں چند دن باقی رہ گئے ہیں اگلا جرمن چانسلر کون ہوگا اس بارے حتمی فیصلہ تو ووٹ والے دن کی شام تک ہو ہی جائے گا تاہم ایک تہائی سے زائد خاموش جرمن ووٹر اپنے ووٹ سے تجزیہ نگاروں اور مبصرین کی رائے کی ایسی تیسی کرسکتے ہیں تاہم انتہائی محتاط تجزیہ یہی ہے کہ انجیلا میرکل چوتھی بار یہ انتخاب جیت کر نئی تاریخ رقم کرسکتی ہیں۔، دوسری طرف ان کے مدمقابل انتخابی حریف نے دوران انتخابی مہم میرکل پر تنقید کرنے سے گریز کیا اور انہوں نے خیال ظاہر کیا ہے کہ الیکشن کے دن تبدیلی کی ہوا چل سکتی ہے اور امکان ہے کہ ووٹرز ان کے حق میں ووٹ دالیں۔

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Check Also
Close
Back to top button