جرمنی کی حکمران جماعت کی نئی سیاسی حکمت عملی یا کمزوری
منور علی شاہد:- بیورو چیف جرمنی
آخر کار جرمن کی موجودہ چانسلر انجیلا میرکل نے بھی عوامی ردعمل کے سامنے ہتھیار ڈال دیئے اور ماہ ستمبر میں ہونے والے الیکشن میں مہاجرین کے خلاف سخت پالیسی کے ساتھ حصہ لینے کا فیصلہ کیا ہے۔ اس سے پہلے موجودہ حکمران جماعت کرسچن ڈیموکریٹک یونین نے مہاجرین کے حوالے سے مہاجرین کو خوش آمدید کہنے کی پالیسی اپنا رکھی تھی جس کے خلاف شدید ردعمل بھی سامنے آتا رہا ہے لیکن اب آئندہ الیکشن میں مہاجرین کے حوالے سے میرکل کی پارٹی کے منشور میں سخت تبدیلیوں کی اطلاعات سننے کو مل رہی ہیں۔
اے ایف پی اور ڈی پی اے کے ذرائع کے مطابق جرمن چانسلر انگیلا میرکل مہاجرین کے حوالے سے اپنی پالیسی کو بدلنے پر مجبور ہو گئی ہیں اور وہ اب ماہ ستمبر میں سخت پالیسیوں کے ساتھ انتخاب میں حصہ لیں گی ۔ جرمنی کے ایک موقر میگزین ڈیئر اشپیگل نے اس حوالے سے میرکل کی سیاسی جماعت سے وابستہ سیاستدانوں کے حوالے سے لکھا ہے کہ اب میرکل کی جماعت ایسے تمام اقدامات کرے گی جن کے باعث ملک میں مہاجرین کی تعداد کو مستقل بنیادوں پر کم سے کم کیا جا سکے۔ اس کے علاوہ یورپ میں انسانی ہمدردی کی بنیاد پر ویزے بھی نہیں دئے جائیں گے۔اشپیگل کے مطابق سی ڈی یو نے اس حوالے سے بیس صفحات پر مشتمل ایک مسودہ بھی تیار کیا ہے جس کو آزاد اور محفوظ جرمنی کا نام دیا گیا ہے۔ ذرایع کے مطابق یہ مسودہ جو کہ متعدد اہم تجاویز پر مشتمل ہے الیکشن میں ایک منشور کا کردار ادا کرسکتا ہے۔
مسودے میں شامل تجاویز میں ایک تجویز یہ بھی شامل ہے کہ مہاجرین کے اہل خانہ مارچ2018 کے بعد سے جرمنی آنے کی اجازت نہ دی جائے۔ خدشہ ظاہر کیا جا رہا ہے کہ اس پالیسی سے سب سے زیادہ شامی مہاجرین متاثر ہونگے۔ جرمنی میں سیاسی پناہ دینے کی درخواست دینے والے کسی غیر ملکی نے اگر اپنی شناخت چھپائی یا چھپانے کے لئے غلط بیانی کی تو اس کی درخواست فوری طور پر مسترد کر دی جائے گی۔نئے مجوزہ مسودہ میں یہ بھی شامل ہے کہ صوبائی حکومتیں غیر ملکیوں کو ملک بدر نہ کریں تو وفاقی حکومت کو خصوصی اختیارات حاصل ہونے چائیں کہ مرکزی حکومت صوبائی حکومت کی رضامندی کے بغیر کسی بھی تارکین وطن کو جرمنی سے ملک بدر کر سکے۔ دوسری طرف سوشل ڈیموکریٹک پارٹی نے سی ڈی یو کے اس منصوبے کی مخالفت کرتے ہوئے اس پر سخت تنقید کی ہے