پارلیمنٹ کے اندر ریاستی رٹ کی پامالی
کالم :- منور علی شاہد
ایک عوامی پارلیمان کے اندر مسلم لیگ ن کے ایک سرکردہ ممبر پارلیمنٹ نے دس اکتوبر کو جس طرح کی جنونیت اور نفرت سے بھرپور تقریر کی تھی اس کے نتیجہ میں احمدیہ کمیونٹی ایک بار پھر بدترین خطرات میں گھری دکھائی دیتی ہے اس تقریر کے مندرجات ایسے ہیں جو کہ واضع طور پر ملکی قوانین کی خلاف ورزی کی زد میں آتے ہیں اور ملکی قانون نافذ کرنے والے اداروں اور عدلیہ سے فوری کاروائی کا مطالبہ کرتے ہیں اس شرانگیز تقریر میں فوج کے ایک اعلیٰ عہدیدار کو اشتعال دلانے کی کوشش کی گئی ہے جو کہ ایک انتہائی قابل اعتراض حرکت ہے اس تقریر کے خلاف کاروائی نہ ہونے سے ان خدشات کو تقویت ملے گی کہ یہ سب کچھ ایک منظم سازش کا حصہ ہے۔پاکستان کمیشن برائے انسانی حقوق نے اسی شرانگیز تقریر کے خلاف جاری کی گئی پریس ریلیز میں بھی اس امر کی نشاندہی کرتے ہوئے افسوس کا اظہار کیا ہے کہ کسی بھی سیاسی جماعت یا اس وقت موجود رکن پارلیمان نے مذکورہ رکن پارلیمان کی تقریر کی مذمت نہیں کی جب وہ تقریر کر رہے تھے۔ احمدیوں کے خلاف سیاسی مقاصد کے لئے پارلیمنٹ کے اندر اس تقریر نے لاکھوں امن پسند پاکستانی شہریوں کی زندگیوں کو خطرات سے دوچار کردیا ہے ۔صفدر ایسے انسان سے اس قسم کی لغویات غیر متوقع نہیں کیونکہ بدعنوانیوں اور بدکرداریوں کا ماضی و حال رکھنے والے سے ایسی ہی توقع ہو سکتی ہے ایسے انسان کا وصف ہی اتنا ہوتا ہے اور یہ پہلی بار نہیں ہوا ماضی میں بھی اس قسم کے کردار اپنی سیاہ اعمالیوں کو مذہب کی آڑ میں چھپانے کی ناکام کوشش کرتے رہے ہیں ملکی سیاست اور صحافت ایسے واقعات سے بھری پڑی ہے جب نیوز چینلز پر مفاد پرستوں نے سیاسی مفادات کے لئے احمدیوں کو نقصان پہنچانے کی کوشش کی اور پہنچایا بھی ہے یہ ریاست کی ذمہ داری ہوتی ہے کہ وہ اپنے شہریوں کی جان و مال کی حفاظت کرے ۔گو کہ وزیراعظم اور سابق وزیراعظم اور مسلم لیگ ن کے صدر نواز شریف نے اس کے بیان سے لاتعلقی کا اظہار کرتے ہوئے اس کو جمہوریت اور پارٹی پالیسی کے منافی قرار دیا ہے لیکن یہ سب کچھ کافی نہیں ہے اور نہ ہی یہ جمہوریت اور سیاست کا مسئلہ ہے بلکہ یہ لاکھوں احمدیوں کی جان و مال کا معاملہ ہے اور اس کو سنجیدہ لینے کی ضرورت ہے۔ ممبر پارلیمنٹ نے ریاست کی رٹ اور قانون کی بالادستی کو روند ڈالا ہے ۔ جنگل میں آگ لگ جائے تو کسی بھی قیمتی درخت کی تمیز باقی نہیں رہتی اور وہ جل کر خاکستر ہو جاتے ہیں اور جب پارلیمنٹ کے اندر کھڑے ہو کر نفرت کی آگ بھڑکائی جائے گی تو پھر وہاں بھی شہروں کی تمیز ختم ہو سکتی ہے۔ گھر کے اندر خطرناک سانپ پالنے والے یاد رکھیں کہ یہ گھر کے مکینوں کو بھی ڈس لیا کرتے ہیں ایک لاکھ کے قریب سویلین اور سرکاری اہلکاروں کی شہادتیں ایسی بھیانک غلطیوں کا شاخسانہ ہیں ۔ مذہب کی بنیاد پر ریاستی اداروں کے رویوں اور امتیاز پر مبنی پالیسیوں نے پاکستان کو اس مقام پر لا کھڑا کیا ہے جہاں اب دشمن اپنے حدف کو بہت آسان سمجھنے لگا ہے اور اس کے لئے نقب لگانا زیادہ آسان ہو گیا ہے صفدر ایسے سہولت کار اس وقت پاکستان اور اس کی بقاء کی سالمیت کے لئے سب سے بڑا خطرہ ہیں جو جس پلیٹ میں کھارہے ہیں اسی میں چھید بھی کر رہے ہیں۔ اس وقت جب کہ پاکستان پڑوسی ممالک کے ساتھ بالعموم اور امریکہ کے ساتھ بالخصوص غیر معمولی کشیدہ تعلقات کے ساتھ اور اندرونی طور پر سیاسی خلفشار کا سامنا کئے ہوئے ہے ایسے میں مسلم لیگ ن کے ایک سرگرم ممبر کا شرانگیز تقریر کرنا اور کشیدگی پھیلا دینا محض اتفاق نہیں بلکہ سوچی سمجھی سازش کا ایک حصہ ہے اور اس کی آڑ میں سیاسی مقاصد کا حصول سر فہرست ایجنڈا ہے۔ کردار فروش ممبر پارلیمنٹ کی یہ تقریر اس کے گھٹیا پن اور اخلاقی دیوالیے پن کی نشاندہی کرتی ہے اور عدالتوں میں موجود کرپشن،بدعنوانیوں کے مقدمات سے توجہ ہٹا کر مذہبی حمایت حاصل کرنا اس کا واحد مقصد ہے۔ جس مقدس موضوع پر ممبر پارلیمنٹ نے خود ساختہ جوش کا مظاہرہ کیا ہے اس کے لئے جسم اور روح کی پاکیزگی ضروری ہے جب کہ اس کا اپنا کردار سب کے سامنے ہے جن لوگوں کے جسم اور روح ہوس اقتدار کی غلاظت سے آلودہ ہیں وہی اپنی مذہبی دہشتگردی کو زندہ رکھنے کے لئے اس قسم کی حرکتیں کر رہے ہیں۔ پارلیمنٹ کے اندر بیٹھے ان عقل کے اندوں کو وہ خطرے نظر نہیں آرہے جو ان کے سروں پر منڈلا رہے ہیں اور خود اپنے ہی پیدا کردہ ہیں اور ایک لاکھ سے زائد اہل وطن کو گھروں سے نکال کر قبرستانوں میں پہنچا چکے ہیں لیکن ان کے خلاف بولنے کا حوصلہ نہیں کہ ادھر سے پتھر کا جواب اینٹ سے جو ملتا ہے ۔مسلم لیگ ن کے اس پارلیمان ممبر کی تقریر سے معمولی سا بھی شائبہ نہیں ملا کہ وہ کسی سیاسی جماعت کے ممبر ہیں اس کی تقریر ایک طالبان نواز سوچ کی نشاندہی کرتی ہے جو جمہوریت کے لبادہ میں پارلیمنٹ میں موجود ہے اس کی تقریر میں کئے گئے مطالبات اور الزامات سبھی کچھ احراریوں مولویوں کے ایجنڈے کی نشاندہی کرتے ہیں جو پاکستان کے اندر فتنہ فساد پھیلا کر ملک کو مزید ازمائشوں سے دوچار کرنا چاہتے ہیں ۔اس وقت پاکستان کے اندر مختلف نیوز چینلز پر انتہا پسند جنونی جس طرح کی باتیں کر رہے ہیں وہ سب کچھ ملک کے مفاد میں نہیں ہے
پاکستان میں احمدیہ کمیونٹی کے خلاف بڑھتی ہوئی شرانگیزی کی ایک وجہ ان کی سیاسی دھارے سے علیحدگی بھی ہے پرویز مشرف کے دور میں جب2000 میں جداگانہ انتخابات ختم کرکے اقلیتوں کو مخلوط ووٹ کا حق دیا گیا تو اس وقت احمدیوں کے ساتھ امتیازی سلوک روا رکھتے ہوئے پرویز مشرف کی حکومت نے ایک چیف ایگزیکٹیو آرڈر کے ذریعے احمدیوں کو مسلمان اور دیگر غیرمسلم اقلیتوں کے ساتھ ووٹ دینے کے حق سے محروم کردیا گیا تھا اسی لئے آج تک احمدی ووٹ ڈالنے کے حق سے محروم ہیں ان کی کسی بھی فورم پر نمائندگی نہیں ان کی مذہبی شناخت کے ساتھ ساتھ سیاسی و قومی شناخت بھی ختم کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے اس وقت پارلیمان کے اندر مسیحی،ہندو سکھ سمیت دیگر اقلیتوں کے نمائندے قومی و صوبائی اسمبلیوں میں موجود ہیں صرف احمدیہ کمیونٹی اس آئینی حق سے محروم رکھی گئی ہے اس کی قیمت بھی احمدی ہی ادا کرتے آ رہے ہیں سیاسی جماعتیں اور نمائندے بھی اسی لئے ان کے مسائل پر کان اور آنکھیں بند کر لیتے ہیں کہ ان کے ووٹ نہیں تو مولوی کی مخالفت کیوں مول لیں۔ پاکستان اس وقت سیاسی طور پر کمزور سے کمزور ہوتا جا رہا ہے جس کی وجہ اداروں کی آپس کی چپقلش ہے جس کافائدہ ملائیت اور ملاں کو پہنچ رہا ہے یا پہنچایا جا رہا ہے جو لوگ آج اس جماعت پر مظالم پر خاموش تماشائی بنے بیٹھے ہیں کل سر گھٹنوں میں دے کر آہ وزاری کریں گے تو بھی دنیابلکل کان نہیں دھرے گی وزیر قانون کے ایک بیان پر جس طرح ان کو پسپائی اختیار کرنی پڑی ہے اور جس طرح لاہور ہائی کورٹ نے ان کا لائسنس منسوخ کرکے ان کے ہائی کورٹ میں داخلے پر تاحیات پابندی لگائی ہے اس سے پس پردہ بڑی طاقت کو سمجھ لینا چاہئے کہ ملاں کے جن کو بوتل میں بند نہ کیا تو پھر خود ان کو اندرونی محاذوں پر لڑنا پڑے گا اور بیرونی دشمن کی یہی سازش ہے لہذا اندرونی سہولت کاروں خواہ وہ سیاسی ہوں یا مذہبی ان کا قلعہ قمعہ کرنے ہی میں سب کا بھلا ہے۔