رنگ برنگ

تین سو افراد کا قاتل مگر مچھ ’’گستاف‘‘ جو اب بھی زندہ ہے

مگرمچھ گستاف افریقی ملک برونڈی کا باسی ہے اور اب تک سیکڑوں انسانوں کو مار چکا ہے، فوٹو: فائل
مگرمچھ گستاف افریقی ملک برونڈی کا باسی ہے اور اب تک سیکڑوں انسانوں کو مار چکا ہے، فوٹو: فائل
بوجمبورا: افریقی ملک برونڈی میں ایک آدم خور مگرمچھ گستاف اتنا مقبول ہے کہ وکی پیڈیا پر اس کے لیے ایک پیج مختص کردیا گیا ہے، کہتے ہیں کہ یہ خونخوار مخلوق اب تک 300 سے زائد انسانوں کو کھا چکی ہے لیکن اس کے باوجود ابھی تک اسے مارا نہیں جاسکا۔
یہ مگرمچھ برونڈی کے مشہور دریا روزیزی میں پایا جاتا ہے اور اس کی عمر 60 سال کے لگ بھگ ہے، اس خونخوار مگرمچھ کو پکڑنے کی کئی مرتبہ کوشش کی گئی لیکن یہ ہمیشہ بچ نکلا اس کا وزن اندازاً 900 کلوگرام اور لمبائی 18 سے 25 فٹ تک ہے۔

https://youtu.be/q5cnvkHYqLg

پہلے اندازہ لگایا گیا کہ یہ عفریت 100 سال کا ہے لیکن 2014ء کی پی بی ایس (پبلک براڈکاسٹنگ سروس) ڈاکیومینٹری میں اس کا کھلا جبڑا ماہرین نے دیکھا اور اس کے دانت دیکھ کر بتایا کہ یہ 60 سال کے قریب ہے کیونکہ اس کے منہ میں پورے دانت ہیں جو 100 سال کے مگرمچھ میں ازخود نکل آتے ہیں۔
گستاف ایک خونخوار جانور ہے جسے کلاشنکوف تک سے مارنے کی کوشش کی گئی اس کے دائیں کندھے پر ایک گہرا زخم آیا ہے لیکن وہ مرا نہیں، سائنس دانوں کا خیال ہے کہ شاید اپنی جسامت کی وجہ سے یہ بلٹ پروف ہوگیا ہے جس پر اب کوئی گولی اثر نہیں کرتی۔
ماہرین کا خیال ہے کہ اپنے وزن اور بڑی جسامت کی وجہ سے یہ عام اور چھوٹے مگرمچھ کی طرح پھرتیلا نہیں رہا، اسی وجہ سے یہ مچھلی، زیبرا اور ہرن وغیرہ کا شکار نہیں کرتا اور ان کے بجائے دریائی گھوڑوں ، بڑے اور سست جانوروں سمیت انسانوں کو بھی نشانہ بنارہا ہے۔
مقامی افراد کا اصرار ہے کہ یہ جانور کھاتا نہیں بلکہ انہیں گھسیٹ کر پانی میں لے جاتا ہے اور انہیں چیر پھاڑ کر اندر ہی ڈبودیتا ہے، مقامی افراد کہتے ہیں کہ یہ اب تک 300 انسانوں کا شکار کرچکا ہے۔
پی بی ایس کی دستاویزی فلم کی ٹیم اپنے ساتھ 3 ٹن وزنی پنجرہ بھی لائی تھی لیکن دو ماہ کی جدوجہد کے باوجود بھی یہ مگرمچھ گرفتار نہ ہوسکا اور اس کے بعد سیاسی حالات خراب ہونے سے امریکی ٹیم کو وہاں سے جانا پڑا، خواہ یہ کہانی ہے یا حقیقت لیکن درست بات یہ ہے گستاف ایک دیومالائی جانور کا روپ اختیار کرچکا ہے، آخری مرتبہ جون 2015ء میں گستاف ایک بیل کا شکار کرتے ہوئے دیکھا گیا تھا۔

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button