تمام ادارے اپنی آئینی اور قانونی حدود میں رہتے ہوئے کام کریں، چیف جسٹس پاکستان
اسلام آباد: چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس انور ظہیر جمالی کا کہنا ہے کہ تمام ادارے اپنی آئینی اور قانونی حدود کے اندر رہتے ہوئے کام کریں۔
نئے عدالتی سال کے موقع پر سپریم كورٹ میں فل کورٹ ریفرنس منعقد ہوا۔ جس میں چیف جسٹس پاکستان جسٹس انور ظہیر جمالی سمیت عدالت عظمیٰ کے تمام فاضل جج صاحبان، اٹارنی جنرل آف پاکستان اشتہر علی اوصاف، وائس چیئر مین پاکستان بار کونسل بیرسٹر فروغ نسیم اور سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن کے صدر سید علی ظفر سمیت دیگر اہم شخصیات نے شرکت کی۔
ریفرنس سے خطاب کے دوران چیف جسٹس آف پاکستان نے کہا کہ آئین میں تمام اداروں کےفرائض اورذمہ داریوں کی وضاحت کردی گئی ہے، تمام ادارے اپنی آئینی اور قانونی حدود کے اندر رہتے ہوئے کام کریں، دائرہ اختیار میں رہتے ہوئے ہی گڈ گورننس کو یقینی بنایا جاسکتا ہے، تمام ادارے اپنی کارکردگی کو بہتر بنائیں تو کرپشن اور بد امنی کا خاتمہ ہوگا۔ کرپشن کے خاتمے سے لوگوں کو غیر ضروری عدالتی چارہ جوئی سے نجات ملے گی۔
چیف جسٹس انور ظہیر جمالی نے کہا کہ سستے اور فوری انصاف کی فراہمی کو یقینی بنانا ریاست کی ذمہ داری ہے، جہاں بنیادی حقوق کی خلاف ورزی ہو، ضروری ہے اس کا تدارک کیا جائے، کراچی اور بلوچستان بدامنی کیس میں اس بات کا ذکر کیا گیا ہے۔ قائد اعظم کا مقصد سیکولر پاکستان بنانا نہیں تھا، پاکستان کے قیام کا مقصد تھا کہ ہرمذہب سے تعلق رکھنے والے افراد کو برابر حقوق ملیں، پاکستان کا آئین ہر شہری کو مکمل مذہبی آزادی کی ضمانت فراہم کرتاہے، عدالت اپنی آئینی ذمہ داریوں پر آنکھ بند نہیں رکھ سکتی، اسی بات کومدنظررکھ کرعدالت نے گزشتہ سال چند معاملات پر ازخود نوٹس بھی لیے۔
ملک میں جاری دہشت گردی سے متعلق چیف جسٹس نے کہا کہ دہشت گردی میں بیرونی ہاتھ اور اندرونی حمایت شامل ہوتی ہے، عدالت تخریبی عناصر کے سیاسی و مذہبی جماعتوں سے روابط کے تدارک کا کہہ چکی ہے، فراہمی انصاف کے اداروں کو خوف زدہ کرنے کے لئے تخریبی کارروائیوں کا نشانہ بنایا جاتا ہے، اس لئے وکلاء اورعدلیہ بھی دہشت گردی سے متاثر ہوئے ہیں۔ بدلتی صورت حال کے پیش نظرتمام ریاستی اداروں کو مل کر کام کرنا ہوگا۔
تقریب کے بعد صحافیوں سے غیر رسمی گفتگو کے دوران جب ان سے سوال کیا گیا کہ ایک بار پھر تمام نظریں سپریم کورٹ کی طرف ہیں اور تمام لوگ سپریم کورٹ کو امید کی نظر سے دیکھ رہے ہیں تو ان کا کہنا تھا کہ وہ 1965 میں قائد اعظم ٹرافی کھیل چکے ہیں اور ان کے ہمراہ ظہیرعباس کھیلتے تھے، وہ روایتی کھلاڑی ہیں، کبھی کریز سے باہر نکل کر نہیں کھیلتے۔ سپریم کورٹ آئین اور قانون کے مطابق ذمے داریاں پوری کرے گی۔