علی احمد ڈھلوں سے
کنٹری بیورو (وی او سی اردو)
عمران خان حکومت ختم ہونے کے بعد جب پی ڈی ایم نے اقتدار سنبھالا تو راقم نے بلاول (جو اُس وقت بطور وزیر خارجہ کا منصب سنبھال چکے تھے) کے بارے میں کالم ”ملک کا دفاع ایسے بھی ہوتا ہے، ویلڈن بلاول !“ اس کالم میں اُن کے پہلے 50دن کی کارکردگی کی تعریف کی تھی۔ اور کہا تھا کہ بلاول نے عمران خان کے دورہ روس کا خوبصورتی سے دفاع کیا ہے، اُنہوں نے قطعاََ یہ نہیں دکھایا کہ عمران خان کے ساتھ اُن کی پارٹی کی مخالفت ہے، بلاول نے ثابت کیا کہ ہم بطور پاکستانی لاکھ اختلافات کے باوجود بیرون ملک ہم سب ایک پیج پر کھڑے ہوتے ہیں۔۔۔ اس کے علاوہ لکھا تھا کہ بلاول بھٹو زرداری نے بطور وزیر خارجہ موجودہ حکومت کے پہلے 50دن میں سب سے بہتر کام کیا ہے، اسے زرداری کی چال سمجھ لیں یا کچھ اور لیکن انہوں نے اپنے گھوڑے کو صحیح وقت پر میدان میں اُتارا ہے کہ تربیت کے ساتھ ساتھ تجربہ بھی حاصل ہو جائے، جو بلاول کے لیے مستقبل میں بھی کام آسکے۔ کیوں کہ اس وقت بلاول کے جو امریکیوں کے ساتھ تعلقات بن رہے ہیں وہ یقینا مستقبل میں بھی پاکستان کے کام آئیں گے جیسے امریکی وزیر خارجہ انتھونی بلنکن نے اُنہیں دورے کی دعوت دینے کے لیے 50منٹ طویل کال کی تھی ، کسی ملک کے نئے وزیرخارجہ سے اتنی طویل کال بھی شاید امریکی وزیر خارجہ نے کم کم ہی کی ہو۔لہٰذااُمید کی جا سکتی ہے کہ بلاول نئی نسل کے لیے اُمید کی کرن ہوں گے، اور روایتی سیاستدانوں کی طرح کرپٹ نہیں ہوں گے۔ اُنہیں اپنے آپ کو کرپشن سے بچائے رکھنا اپنے آپ میں ایک بہت بڑا جہاد ہوگا۔مزید کہا تھا کہ بلاول بھٹو زرداری ابھی ایک لمبی سیاسی اننگ کھیلنے کے قابل ہیں۔ اگلی تین چار دہائی تک وہ پاکستان کی سیاست پر راج کر سکتے ہیں۔ اس وقت ہماری لیڈرشپ میں سے اکثر 70کی عمر کو چھو رہے ہیں۔ پیچھے ایک خلاءنظر آتا ہے، جبکہ بلاول بھٹو زرداری کو بہت کم عمری میں ایک بڑی جماعت کو لیڈ کرنے کا موقع مل گیا ہے۔
لیکن ان سب باتوں کی اُس وقت نفی ہوگئی جب حالیہ دنوں میں اُن کی چیئرمین شپ کے دوران پیپلزپارٹی مقتدرہ کی بی ٹیم بن گئی ۔ اور خاص طور پر 26ویں آئینی ترامیم میں تو حد ہی ہو گئی کہ جس مسودے کا پیپلزپارٹی کو علم ہی نہیں تھا وہ اُس قانون سازی میں سب سے آگے تھی اور اس کا عَلم کسی اور نے نہیں بلکہ بلاول نے تھام رکھا تھا۔ حالانکہ وہ اوکسفورڈ سے فارغ التحصیل ہیں، جہاں صرف ایک سبق سکھایا جاتا ہے کہ آپ ہمیشہ سچ کا ساتھ دیں۔ خواہ اس کے لیے آپ کو بڑی سے بڑی قربانی ہی کیوں نہ دینی پڑے۔ اور پھر یہی نہیں بلکہ بلاول نے گزشتہ دنوں کراچی میں وکلاءکی ایک تقریب سے خطاب کرتے ہوئے جس قسم کی زبان استعمال کی، وہ کسی بھی لیڈر کے شایان شان نہیں تھی۔ ہوا کچھ یوں کہ خطاب کے دوران انگریزی کے محاورے کو دلچسپ اردو(ذو معنی الفاظ) میں کہنے کی ویڈیو وائرل ہوگئی۔انہوں نے ایک انگریزی محاورے کو اردو میں کہنے کی کوشش کی لیکن انہیں جلد ہی اندازہ ہوگیا کہ وہ درست انداز میں محاورہ نہیں ادا کر پائیں گے۔بلاول نے فوری طور پر وضاحت کرتے دکھائی دیتے ہیں کہ ان کے کہنے کا مطلب وہ نہیں تھا جو لوگ سمجھ رہے ہیں۔اسی دوران بلاول بھٹو زرداری اپنی معصومانہ غلطی پر مسکراتے بھی رہے اور کہا کہ ان کا مطلب تھا کہ
If you give them an inch, they take a mile
یہی نہیں بلکہ اُنہوں نے ہاتھ سے غلط اشارہ بھی کیا ، جس سے انہیں احساس ہوا کہ لوگ ان کی بات کو غلط سمجھ رہے ہیں۔اب بندہ پوچھے کہ آپ ایک قومی سطح کے لیڈر ہیں، آپ کے علم میں ہے کہ آپ کی ایک چھوٹی سی غلطی سامنے کھڑے درجنوں کیمروں میں ریکارڈ ہوگی ،،، اور پھر لوگ اسے بار بار دیکھ کر آپ کے بارے میں تاثر قائم کریں گے؟ تو اس واقعہ کے بعد کیا کوئی کہہ سکتا ہے کہ اس وقت آپ کی سیاسی تربیت بہترین انداز میں کی جا رہی ہے؟ قطعاََ نہیں!
حالانکہ بلاول جن ممالک میں پلے بڑھے ہیں وہاں کا کلچر تو جوش خطابت کا ہے ہی نہیں، کیا آپ نے کسی انگریز کو جوش خطابت سے تقریر کرتے دیکھا؟ہر گز نہیں؟ یہ خاص بیماری اس خطہ کے سیاستدانوں ، پنڈتوں یا ملاں حضرات کو ہے۔ وہاں تو آپ کی تقریر میں دیکھا جاتا ہے کہ کیا ہمارے لیڈر نے کوئی مدلل بات بھی کی ہے یا نہیں؟ بلکہ وہاں تو ہم نے کبھی لاکھوں کا مجمع نہیں دیکھا۔ابھی بھی آپ امریکی انتخابات کو لے لیں،،، جلسے جلوس کم ہی دیکھنے کو ملتے ہیں،،، وہاں زیادہ ترجیح مباحثوں کو دی جاتی ہے اور دیکھا جاتاہے کہ کون سا اُمیدوار کتنے پانی میں ہے؟ وہاں آپ کسی کو مکے لہراتے ہوئے نہیں دیکھیں گے، اُن کو غصہ یا طیش بھی نہیں آتا۔ امریکہ کی الیکشن مہم کے دوران کبھی کبھار امریکی لیڈر جوش دلا رہے ہوتے ہیں۔ لیکن انکی باتوں میں دلیل حاوی ہوتی ہے۔ خیر دنیا بھر کے یہی لیڈر جب بین الاقوامی سمٹس میں ملتے ہیں تو اکثر تقریر دیکھ کر پڑھتے ہیں اور جو دیکھ کر نہیں پڑھتے وہ بہت سوچ سمجھ کر بولتے ہیں۔ اصل میں ان کا سارا کچھ ریکارڈ ہورہا ہوتا ہے۔ باڈی لینگویج ، لفظ ، لہجہ اور تقریر کا متن۔ جب یہ سارا کچھ ریکارڈ ہورہا ہو تو ایک ایک بات تول تول کر کرنا ہوتی ہے۔
لیکن اس کے برعکس ہمارے سیاستدان بہت چیخ چیخ کر تقریر کرتے ہیں۔ انکی تقریر میں زور دینا مقصد ہوتا ہے۔اب یہ تو نہیں کہ سامنے موجود لوگوں کی پچھلی صفوں تک بات پہنچانا چاہتے ہوتے ہیں۔ یہ کام تو لاوڈ سپیکر کرتا ہے۔ یا سیاستدان موصوف اپنے غصے یا خفت کا اظہار کررہے ہوتے ہیں۔ یا تو پھر اپنی کمٹمنٹ کا اعتبار کروانا چاہ رہے ہوتے ہیں۔جو بھی ہے جوشیلے سیاستدان دنیا کے کچھ خطوں میں مقبول مانے جاتے ہیں، جن میں ہم نمایاں ہیں۔ حالانکہ جوش اور ہوش کا آپس کا تعلق دلچسپ ہے۔ جوش میں لوگ اکثر ہوش نہیں کھو دیتے کیا؟
لہٰذابلاول صاحب آپ ہمارے بچوں کی طرح ہیں، آپ ہماری ہر دلعزیز لیڈر محترمہ بے نظیر کے بیٹے ہیں،آپ سے ایسی تقریر یا ایسے کسی اقدام کی ہم توقع نہیں کرتے جو میرٹ سے ہٹ کر ہو۔ اور پھر لیڈرشپ نے پالیسی دینی ہوتی ہے۔ بعض اوقات لیڈر شپ نے جارحانہ فیصلے کرنے ہوتے ہیں۔ اور بعض اوقات تو رسکی فیصلے لینا پڑتے ہیں۔ ایک غصیلہ اور جذباتی آدمی ان کاموں میں سے کتنے کام درست طور پر کرسکتا ہے؟آپ کو شاید یہ علم نہیں ہے کہ سیاست پچیدہ سبجیکٹ ہے۔ آپ نے سیاسیات میں پی۔ایچ۔ڈی بھی کررکھی ہو تو کوئی گارنٹی نہیں کہ آپ ایک مانے ہوئے سیاستدان بن جائیں۔ ہوسکتا ہے ایک ایسے سیاستدان سے مات کھا جائیں جس نے سیاسیات پڑھی ہی نہیں۔ تو کیا سیاستدان پیدا ہوتے ہیں یا وقت اور حالات انہیں سیاست میں لے آتے ہیں؟ سیاست بہت اہم اور سنجیدہ فیلڈہے۔ آپکی سیاست میں دلچسپی آپکی بقا کے لیے ناگزیر ہے۔
لہٰذالیڈر ہمیشہ اپنی معتبر گفتگو سے پہچانے جاتے ہیں، اُن کی شناخت اُن کی دانائی میں چھپی ہوتی ہے۔ بلاول صاحب! سب سے پہلے آپ کو خود احتسابی کے عمل سے گزرنا ہوگا، آ±پ کو یہ دیکھنا ہوگا کہ آپ کے دور میں پیپلزپارٹی میں کیا بہتری آئی ہے؟ اس کے بعد اُن قرب و جوار کے لوگوں کو بھی سمجھنا ہوگا کہ ہم بلاول کو اگر آگے لے کر آنا چاہتے ہیں تو سب سے پہلے اُن کی مزید تربیت کی ضرورت ہے، پھر اُنہیں فی الوقت لکھی ہوئی تقریر دیں، یا اگر انہوں نے آئینی ترامیم کا دفاع ہی کرنا ہے تو پیپلزپارٹی کسی اور لیڈر سے ایسا کام کروائے۔ لیکن اگر پھر بھی بلاول کو ہی اگر آگے لانا ہے تو بالکل درست ہے مگر پہلے تربیت ضروری ہے!