تقریر سے روک دی جانے والی طالبہ نے اپنی خاموشی توڑ دی۔
کراچی/ 04جون2017
(بشیر باجوہ بیورو چیف پاکستان نیوز وائس آف کینیڈا )
ٹی وی میزبان ساحر لودھی کی رمضان ٹرانسمیشن ’عشق رمضان‘ کے ایک شو میں تقریر سے روک دی جانے والی طالبہ نے بالآخر اس معاملے پر اپنی خاموشی توڑ دی۔
خیال رہے کہ رواں ہفتے سوشل میڈیا پر وائرل ہونے والی ایک ویڈیو میں دیکھا جاسکتا تھا کہ اداکار و میزبان ساحر لودھی اپنے پروگرام میں تقریر کرنے والی طالبہ کو اچانک ہی چپ کروا کر غصے کا اظہار کرنا شروع کردیتے ہیں۔
اس ویڈیو کے منظرعام پر آنے کے بعد انٹرنیٹ پر ساحر لودھی کو شدید تنقید کا نشانہ بنایا گیا تھا جبکہ اس بارے میں پاکستان الیکٹرانک میڈیا ریگولیٹری اتھارٹی (پیمرا) نے بھی ساحر لودھی کے پروگرام ’عشق رمضان‘ میں قائدِاعظم پر الزام لگائے جانے اور غیر محتاط گفتگو پر ٹی وی ون کو اظہارِ وجوہ کا نوٹس جاری کردیا تھا۔
”
دوسری جانب ساحر لودھی نے اپنے تلخ رویے کی وضاحت دیتے ہوئے دعویٰ کیا تھا کہ ‘لوگ ان پر تنقید کررہے ہیں، لیکن کسی نے بھی وہ کِلپ نہیں دکھائی جہاں انہوں نے طالبہ سے انہیں ٹوکنے اور غصہ کرنے پر معافی طلب کی تھی’۔
سوشل میڈیا پر شروع ہونے والی بحث اور ساحر لودھی کے بیانات کے بعد فیس بک پر شیئر کی گئی اپنی ویڈیو میں طالبہ کا کہنا تھا کہ ‘میں اپنی بات کا آغاز وہیں سے کروں گی جہاں مجھے روکا گیا تھا’.
واضح رہے کہ ساحر لودھی کے تلخ رویے کا نشانہ بننے والی طالبہ کا نام صبا رضوان حسین ہے اور وہ ڈاؤ یونیورسٹی آف ہیلتھ سائنسز میں زیر تعلیم ہیں۔
صبا رضوان کا ویڈیو میں کہنا تھا کہ جس نظم پر انہیں تقریر سے روکا گیا وہ انہوں نے لکھی ہی نہیں بلکہ وہ کسی شاعرہ کی نظم تھی.
صبا نے اپنی ویڈیو میں ‘قائد اعظم سے خطاب’ نامی اس نظم کو پورا پڑھ کر بھی سنایا جو ان کے مطابق تین حصوں پر مشتمل تھی اور انہوں نے اپنی تقریر میں اس کا کچھ حصہ شامل کیا تھا.
طالبہ کے مطابق ‘یہ قائد اعظم سے خطاب تھا ان کو للکار نہیں تھی، میں کیا کوئی پاکستانی انہیں للکار نہیں سکتا، میں افسردگی سے انہیں مخاطب کرتے ہوئے کہہ رہی تھی کہ وہ آئیں اور دیکھیں کہ ملک کا حال کیا ہوگیا ہے’.
انہوں نے کہا، ‘مجھے امید ہے کہ اس نظم کو سننے کے بعد جو لوگ اسے للکار سمجھ رہے تھے ان کی غلط فہمی دور ہوگئی ہوگی’.
اپنے حق میں آواز بلند کرنے والوں کا شکریہ ادا کرتے ہوئے صبا رضوان کا کہنا تھا کہ لوگوں کی حمایت نے ‘اس بات کا یقین دلایا ہے کہ ہم آواز اٹھانا جانتے ہیں، غلط کے خلاف بولنا جانتے ہیں اور صحیح کے ساتھ کھڑے ہیں’۔
طالبہ کا یہ بھی کہنا تھا ‘اگر لوگ ان کا ساتھ نہ دیتے تو ان کا اعتماد ٹوٹ جاتا اور وہ ذہنی تناؤ کا شکار ہوجاتیں’.
ساحر لودھی کی معافی اور وضاحتی بیان پر بات کرتے ہوئے صبا رضوان نے کہا کہ ‘ساحر لودھی نے صرف اپنے تلخ رویے پر معافی مانگی اور بجائے اس کے وہ معافی اس بات پر ہوتی کہ ایک لڑکی کو لائیو چینل پر بےعزت کیا گیا، کسی مقرر کو درمیان میں روکا گیا، یا اس بات پر ہوتی کہ میری بات کو غلط رنگ دیا گیا لیکن انہوں نے صرف تلخ رویے پر معافی مانگی’.
میزبان کی بات کو دہراتے ہوئے طالبہ کا کہنا تھا کہ ‘ساحر لودھی نے اپنی ویڈیو میں کہا کہ بات آدھی دکھائی جائے گی تو محبت نہیں ہوگی، لیکن میری بھی بات آدھی سنی گئی تھی’۔
نجی چینل کے پروگرام کا بائیکاٹ کرتے ہوئے انہوں نے خدشہ ظاہر کیا کہ ‘جہاں ایک بار آواز دبا دی جائے وہاں ممکن ہے کہ دوبارہ بھی ایسا ہوگا’.
ان کا مزید کہنا تھا کہ ‘تقریر کرنا میرا جنون ہے اور میں اپنے جنون کا بائیکاٹ نہیں کررہی، یہ میری جیت کا آغاز ہے-