پاکستان

تایا جائے کتنے پاکستانیوں کے سوئس اکاؤنٹس ہیں، چیف جسٹس

جہانگیرترین نے باہر اثاثے بنالے لیکن گوشواروں میں کچھ اور بتایا، چیف جسٹس

اسلام آباد: چیف جسٹس پاکستان میاں ثاقب نثار کا کہنا ہے کہ بتایا جائے کتنے پاکستانیوں کے سوئس اکاؤنٹس ہیں، حکومت نے ایسی پالیسیاں خود بنائیں کہ پیسہ بیرون ملک چلا جائے یہ ریاست کی ناکامی ہے ۔
سپریم کورٹ میں غیرملکی اکاؤنٹس کیس کی سماعت چیف جسٹس میاں ثاقب نثار کی سربراہی میں ہوئی۔ چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ حکومت نے خود پیسہ باہر لے جانے کے لئے پالیسیاں بنائیں، یہ ریاست کی ناکامی ہے، اب اگر کوئی اثاثے چھپائے تو حکومت مفلوج ہے، ملک کی بقا بیرون ملک اثاثوں اور پانی سے وابستہ ہے، ملک میں پینے کے لئے بھی پانی نہیں مل رہا، میں کسی کی سفارش پر دی جانے والی نوکری پر بات کروں تو وہ ناراض ہو جاتا ہے۔ عدالت نے اسٹیٹ بینک سے بیرون ملک منتقل رقم کی تفصیلات ایک ہفتے میں طلب کرلیں۔
چیف جسٹس نے گورنر اسٹیٹ بینک طارق باجوہ سے استفسار کیا کہ کتنے پاکستانیوں کے سوئٹزر لینڈ اور دیگر ممالک میں اکاؤنٹس ہیں؟، بیرون ملک املاک بھی خریدی گئی ہیں، جہانگیرترین نے کتنے ملین ڈالرز بیرون ملک بھیج دئیے؟ اور باہر اثاثے بنالئے ہیں، لیکن انہوں نے گوشواروں میں کچھ اور بتایا ہے، ہمیں بتا دیں وہ رقم واپس کیسے آسکتی ہے؟ گورنر اسٹیٹ بینک نے جواب دیا کہ ٹی او آر میں اس کا طریقہ کار شامل ہے کہ غیر قانونی طریقے سے منتقل رقم واپس کیسے لائی جاسکتی ہے۔
چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ ان لوگوں کی نشاندہی کریں جن کے بیرون ملک اکاوٴنٹس اور املاک ہیں۔ گورنر اسٹیٹ بینک نے جواب دیا کہ یہ بات ٹی او آر میں شامل نہیں۔ چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ یہ پتہ چلنا چاہئے کتنے پاکستانیوں کے سوئٹزرلینڈ میں اکاوٴنٹس اور املاک ہیں، ہمیں معلوم ہی نہیں کتنا پیسہ بیرون ملک چلاگیا، کیا اسٹیٹ بینک کے پاس معلومات ہے کہ کس شخص نے کتنے ڈالر بیرون ملک بھیجے؟ ۔
چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ کیا ہم انتظار کریں حکومت اثاثے واپس لانے کے لئے پہلے معاہدہ کرے اور پھر عدالتی کارروائی ہو؟، کیا ایف بی آر اپنے ٹیکس ہولڈر سے نہیں پوچھ سکتا کہ ان کے بیرون ملک اکاوٴنٹ ہیں یا نہیں؟، اگر ٹیکس ادا کرنے والا معلومات نہ دے تو ہم فارن اکاوٴنٹس کا معلوم نہیں کر سکتے، اس کا مطلب ہمارا سسٹم مفلوج ہے۔ ایک سال میں جتنی رقم باہر بھیجی گئی ساری معلومات لیں۔
جسٹس عمر عطاء بندیال نے ریمارکس دیئے کہ اگر ایف بی آر کے پاس کوئی چھڑی نہیں تو ایمنسٹی اسکیم کیوں دیتے ہیں۔ گورنراسٹیٹ بینک کا کہنا تھا کہ ایمنسٹی اسکیم میں جو لوگ سہولت سے فائدہ اٹھائیں گے تو معلومات سامنے آجائے گی۔ چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ اب مقصد یہ ہے کہ ستمبر سے قبل ایمنسٹی اسکیم سے فائدہ اٹھا لیں۔
چیف جسٹس نے چیئرمین ایف بی آر سے استفسار کیا کہ ایف بی آر کے پاس درجنوں ڈبل کیبن گاڑیاں ہیں، جن کی یہ اہلیت نہیں رکھتے؟ چیئرمین ایف بی آر نے مؤقف پیش کیا کہ کچھ گاڑیاں یوایس ایڈ نے دی، ڈبل کیبن آپریشنل گاڑیاں ہیں۔
چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ ایف بی آر نے ایسا کیا آپریشنل کرنا ہے جو 1300 سی سی گاڑی سے نہیں ہوسکتا۔ اسٹیٹ بینک کے پاس کتنی بڑی گاڑیاں ہیں ؟ جن کے پاس بڑی گاڑیاں ہیں واپس لے لیں، مجھے معلوم ہے چیئرمین ایف بی آر کے پاس 1300سی سی گاڑی ہے، یہ قوم کا پیسہ، قوم کامال ہے، میں نے تمام چیف جسٹس صاحبان سے بھی تفصیل مانگی ہے، پالیسی بنائیں گے اور تمام بڑی گاڑیوں کا دیکھیں گے کیا کرنا ہے۔
عدالت نے اسٹیٹ بینک سے بیرون ملک منتقل رقم کی تفصیلات ایک ہفتے میں طلب کرتے ہوئے حکم دیا کہ تفصیلات سربمہر لفافے میں پیش کی جائے۔ کیس کی سماعت ایک ہفتے کے لئے ملتوی کردی گئی

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button