بیٹیاں اب نہ مانگے خدا سے کوئی
کالم:- منور علی شا ہد،جرمنی
ایک وقت تھا کہ پنجاب کے شہر قصور کی وجہ شہرت نامور صوفی شاعر بلھے شاہ کی شخصیت ہوا کرتی تھی جن کی شاعری اور کلام سے امن،محبت بھائی چارہ اور رواداری کی خوشبو ہر سو پھیلتی تھی لیکن آج دنیا بھر قصور کا نام بچیوں اور بچوں کے ساتھ جنسی زیادتیوں کے حوالے سے گونج رہا ہے اور بار بار سامنے آرہا ہے لگتا ہے جیسے قصور سے شرافت بلکل ہی ختم اٹھ چکی ہے اور وہاں انسانوں کی آڑ میں بھیڑیوں کا بسیرا ہے۔ تہمینہ، ثناء، عائشہ، عمران، ایمان فاطمہ، نور فاطمہ، فوزیہ، بابر، لائبہ اور کائنات نامی بچیوں کے بعد اس اس بار زینب جنسی درندگی کا شکار بنی۔ وے بلھیا اج مرگیا توں۔۔تیری قبر تے اج وجن نہ ڈھول
تیرے شہر قصور دے شمراں نے۔۔ اج زینب دتی رول
پوسٹ مارٹم کی رپورٹ کے مطابق سات سالہ زینب کو قتل کرنے سے پہلے اس کے ساتھ کئی بار اور برے طریق سے جنسی زیادتی کی گئی تھی اور اس کی موت گلا دبانے سے ہوئی تھی نازک حصوں پر تشددکے نشانات موجود تھے زبان بھی بری طرح متاثر ہوئی تھی اور گردن کی ہڈی بھی ٹوٹی ہوئی تھی اور جب اس کی نعش ملی تھی تب اس کی زبان دانتوں میں دبی ہوئی تھی جو کہ درد کی کیفیت ظاہر کرتی ہے ہسپتال کے ایم ایل او نے میڈیا کوبتایاتھا کہ سات ماہ میں اس طرح کا یہ چوتھا واقعہ ہے تادم تحریر اس لرزہ خیز اور المناک واقعہ کو بارہ دن گزر چکے ہیں لیکن مجرم گرفتار نہیں ہوئے تھے بلکہ بارہ جنوری کے اخبارات میں شائع ہونے والے وزارت داخلہ پنجاب کے اس اشتہار نے صورتحال کو مزید گھمبیر بنادیا ہے جس میں ملزم کی تلاش میں معاونت کرنے والے کو ایک کروڑ کی خطیر رقم انعام دینے کا کہا گیا ہے گویا ایک طرح سے حکومت نے اپنی ناکامی اور نااہلی کا اعتراف کیا ہے ۔بچی کے والد نے میڈیا سے باتیں کرتے ہوئے پولیس کو شدید حدف تنقید کا نشانہ بنایا اور کہا کہ ملزم چار دن تک محلہ اور قریبی گلیوں میں گھومتا رہا لیکن پولیس نے کوئی مدد نہ کی انتہائی مضحکہ خیز بات ہے کہ حکومت تمام تر وسائل رکھنے کے باوجود لوگوں سے مدد کی درخواست کر رہی ہے جو خود مجرموں اور دہشتگردوں کے رحم و کرم پر ہیں اگر عوام کو علم ہوتا تو وہ پہلے ہی اس کو پکڑ کر خود ہی منطقی انجام تک پہنچا دیتے اس کی تکہ بوٹی کرکے زندہ جلادیتے۔ ببچوں کے خلاف جنسی تشدد کی جو لہر کئی سالوں سے ہمارے مسلمان اکثریت والے صوبے پنجاب میں آئی ہوئی ہے اس کو دیکھتے ہوئے یہاں بچے بچاؤ ایمرجنسی نافذ کرنے کی ضرورت ہے ۔گلی گلی محلے محلے میں تو مومنین کی موجودگی میں بھی شیطان دندناتا پھرتا ہے اور کسی بھی ادارے کی گرفت میں آ رہا۔ہر گلی میں ہر فرقہ کی مسجد ہے جہاں پانچ وقت کی آزان دی جاتی ہے، باوضو نمازی جن میں بڑی تعداد حاجیوں کی ہوتی ہے نماز پڑھنے جوق در جوق آتے ہیں تو پھر یہ کیسا عزاب ہے جو بچوں پر مسلط ہو گیا ہے۔چند ماہ قبل ہی فیض آباد میں مومنین پاکستان نے اجتماعی طور پر ملی غیرت کا مظاہرہ کیا تھا اور نت نئے قومی گالیاں تخلیق کی تھیں، اور تو اور قومی اسمبلی کے اندر کیپٹن صفدر نامی ایک ممبر قومی اسمبلی نے اسلام کی نمائندگی میں جو ملی خطاب فرماکر عالمی شہرت حاصل کی تھی وہ بھی اب خاموش ہے۔اس کی نظر میں یہ بچے بچیاں ان کی اسلامی نظر و زبان کے بلکل ہی مستحق نہیں ہیں۔ سرکاری کافروں کے خلاف تو ان کی زبان قینچی کی طرح چلی تھی اور اب خاموش ہے واہ رے سرکاری مسلمان۔۔اتنے نیک اور پرہیزوں اور متقیوں کی موجودگی میں بھی مومنین کے بچے اور بچیاں غیر محفوظ کیسے ہو گئے۔
وزیر اعلیٰ پنجاب کا منہ اندھیرے صبح چار بجے قصور جانا اور زینب کے والدین سے تعزیت کرنے سے بھی اس امر کو تقویت ملتی ہے کہ وہ پارٹی کے ایم این ایز کے لاقانونیت کے آگے بے بس دکھائی دیتے ہیں اور پولیس ان کے قابو میں نہیں رہی ہے۔ وزیر اعلیٰ نے جان بوجھ کر لوگوں کا سامنا کرنے سے گریز کیا ہے ورنہ ماضی میں دیکھا گیا ہے کہ وہ ایسے مواقع پرلوگوں سے بھی خطاب کیا کرتے تھے سیاسی طور پر قصور مسلم لیگ ن کا گڑھ ہے اور یہاں قومی اسمبلی کی پانچ نششتیں ہیں جو تمام ن لیگ نے جیت رکھی ہیں ۔جو سیاسی جماعتیں اس موقع پر سیاست بازی کر رہی ہیں انکو خدا کا خوف کرنا چاہیے کہ یہ واقعہ کوئی پہلی بار نہیں ہوا ہے بلکہ یہ واقعہ ماضی کی سبھی حکومتوں کی مسلسل غفلتوں اور کوتاہیوں کا شاخسانہ ہے ہر دور حکومت میں بچوں اور بچیوں کے ساتھ جنسی زیادتیاں ہوئیں ہیں ۔ پنجاب اس وقت جنسی بے راہ روی کا گڑھ بن چکا ہے
آج پنجاب سمیت ملک بھر میں ننھے بچے اور بچیاں زندگی اور عزت دونوں سے بیدردی سے محروم کئے جا رہے ہیں۔ پاکستان اور بلخصوص پنجاب کے اندر جنسی زیادتی کا شکار ہونے والے بچوں کا صحیح اندازہ لگانا بہت مشکل ہے تاہم یہ بات درست ہے کہ بچوں اور بچیوں کے ساتھ جنسی زیادتی کے واقعات میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے بی بی سی نے اپنی ایک رپورٹ میں بتایا تھا کہ پاکستان میں روزانہ گیارہ بچے جنسی درندگی کا شکار ہو رہے ہیں۔جنسی درندے بچوں سے ان کی معصومیت اور بچپن تو چھین ہی لیتے ہیں لیکن بدقسمتی سے اب ان کی زندگیاں بھی چھیننے لگے ہیں اب تک کے واقعات سے یہ بات سامنے آئی ہے کہ بچوں کی حفاظت میں سماج، قانون اور خود والدین سبھی بری طرح ناکام ہوچکے ہیں اور اس میں سب سے بڑی غفلت خود والدین کی ہے اور اس کی بنیادی وجہ ان کا علم و شعور سے عاری ہونا ہے اور مقامی مولوی کی اندھی تقلید ہے۔اس وقت جاہلیت اور ملائیت دونوں نے پورے معاشرے کو اپنے شکنجے میں جکڑ رکھا ہے ۔ ہمارے معاشرے میں ایک مکمل منصوبہ بندی کے ساتھ جس تیزی سے ملاں کا اثر بڑھایا جا رہا ہے اس سے کہیں زیادہ تیزی سے معاشرہ اخلاقی انحطاط کا شکار ہو رہا ہے ۔ کیبل اور انٹرنیٹ نے سماج کو اتنا نقصان نہیں پہنچایا جتنا مولوی نے عام پاکستانی مرد و عورت کی سوچ کو پہنچایا ہے بلکہ اجتماعی طور پرپورے سماج کے لوگوں کو کو انسانی اقدار سے کوسوں دورکردیا ہے اور انسانیت سے پیدل کردیا ہے نفرت، تعصب کو فروغ دیا ہے ۔اکیسویں صدی میں پاکستان کوتاریکی کے دور میں دھکیل دیا گیا ہے ۔ ۔پاکستان کمیشن برائے انسانی حقوق کی ایک رپورٹ کے مطابق2017 میں1465خواتین کو زیادتی کا نشانہ بنایا گیا اور ان میں نصف سے زائد769 نو عمر بچیاں تھیں۔ ایک سال کے یہ سیاہ اعداد و شمار ہماری مسلمانیت کا منہ بولتا ثبوت ہے۔
قصور کے بدنام علاقہ صدرتھانے کی حدود میں اپریل2016 سء لیکر نومبر 2017 کے دوران دو کمسن لڑکوں سمیت نو لڑکیوں کو وحشیانہ جنسی درندگی کا نشانہ بنانے کے بعد قتل کردیا گیا تھااور ان کی نعشیں قریبی کھیتوں یا ویران مقامات پر پھینک دی گئیں تھیں ۔زینب سے پہلے ظلم و ستم کا نشانہ بننے والی بچیوں کا کیا قصور تھا، ان کے والدین کے غم و دکھ کا کیوں اسی طرح مداوا نہیں کیا گیا جس طرح آج زینب کے معاملہ پر کیا جا رہا ہے۔ ضلع قصور میں ایم این ایز کی پانچوں نششتوں پر مسلم لیگ ن کا قبضہ ہے لیکن وہ اپنے ہی شہر کے بچوں کی حفاظت کرنے میں مکمل طور پر ناکام رہے ہیں وہ عوامی نمائندے بننے کی نجائے وڈیرے بن چکے ہیں۔ پروٹوکول کلچر اور سیاسی و مذہبی مداخلت نے پولیس کے محکمے کا بیڑہ غرق کردیا ہوا ہے جس کی وجہ سے جرائم میں ہو شربا اضافہ ہو رہا ہے ۔اب وقت آگیا ہے کہ تمام قومی اداروں کو ہرطرح کی سیاسی و مذہبی مداخلت سے بلکل پاک کردیا جائے اور ممبران اسمبلیوں سے ان اداروں کو آزادی دلائے جائے تاکہ وہ ہر قسم کے خوف اور دباؤ کے بغیر اپنا کام کرسکیں