کھیل

بھارتی رویے میں تبدیلی

پاک بھارت تعلقات میں کشیدگی کم ہونے اور صورتحال بہتر ہونے کے اشارے مل رہے ہیں ۔ فوٹو فائل
پاک بھارت تعلقات میں کشیدگی کم ہونے اور صورتحال بہتر ہونے کے اشارے مل رہے ہیں ۔ فوٹو فائل
پٹھان کوٹ اور اڑی واقعات کے بعد پاک بھارت تعلقات میں موجود دراڑ جہاں وسیع ہوئی وہاں بھارت کی جانب سے سرحدوں پر گولہ باری اور فائرنگ کے وقفہ وقفہ سے ہونے والے واقعات نے اس کشیدگی کو مزید ہوا دی مگر ان تمام کشیدہ صورتحال کے باوجود پاکستان نے ہمیشہ بھارت کو مذاکرات کی دعوت دی تاکہ باہمی تعلقات میں موجود فاصلوں کو کم کرکے تنازعات کو پرامن طریقے سے حل کیا جا سکے مگر بھارت نے ان کوششوں کا کوئی مثبت جواب نہیں دیا اور دہشت گردی کی آڑ لے کر پاکستان پر الزامات کی بوچھاڑ کر دی اور اپنی اس مہم میں افغانستان کو بھی شریک کار کر لیا جس کے باعث پاکستان کی مشکلات میں اضافہ ہوا اور اسے مشرقی محاذ کے ساتھ ساتھ شمال مغربی محاذ پر بھی توجہ مرکوز کرنا پڑی۔
اب پاک بھارت تعلقات میں کشیدگی کم ہونے اور صورتحال بہتر ہونے کے اشارے مل رہے ہیں اور یہ کہا جا رہا ہے کہ 2017 دونوں ممالک کے تعلقات میں بہتری کا سال ثابت ہو گا۔ ایسی خبریں بھی منظرعام پر آ رہی ہیں کہ آیندہ برس پاک بھارت تعلقات میں کوئی مثبت موڑ آ سکتا ہے اور بھارتی وزیراعظم نریندر مودی پاکستان کے حوالے سے اپنی موجودہ پالیسی پر نظرثانی کر سکتے ہیں۔
پاک بھارت تعلقات میں بہتری کے مثبت اشارے خوش آیند ہیں اس سے جہاں دونوں ممالک میں موجود کشیدگی اور تناؤ میں کمی آئے گی وہاں باہمی تنازعات کو مذاکرات کے ذریعے حل کرنے کا راستہ ہموار ہونے سے امن اور خوشحالی کے نئے در وا ہوں گے۔ نریندر مودی نے انتخابات کے دوران انتہا پسند ہندوؤں کے زیادہ سے زیادہ ووٹ اور ہمدردی حاصل کرنے کے لیے پاکستان کے خلاف محاذ گرم کیا‘ اگرچہ وہ اپنی اس انتخابی حکمت عملی میں کامیاب رہے اور انتخابات جیت کر بھارت کے وزیراعظم بن گئے۔
بعض حلقوں کی جانب سے یہ امید ظاہر کی گئی کہ وزیراعظم بننے کے بعد مودی کی پاکستان مخالف پالیسی میں تبدیلی آئے گی کیونکہ انتخابی تقاضے اور ہوتے ہیں اور حکومتی تقاضے کچھ اور۔ لیکن مودی نے وزارت عظمیٰ سنبھالنے کے بعد انتہا پسند ہندوؤں کو خوش کرنے کے لیے پاکستان کے خلاف نئے محاذ کھول دیے‘ سرحدوں پر کشیدگی کو بھرپور ہوا دی گئی اور معاملات اس نہج پر آ پہنچے کہ بھارت کی طرف سے پاکستان کے خلاف جنگی تیاریوں کی خبریں آنے لگیں۔ اس کے بعد مودی نے پاکستان کا پانی بند کرنے کے لیے سندھ طاس معاہدہ ختم کرنے کی دھمکیاں دینا شروع کر دیں جب کہ ایک ٹاسک فورس بھی بنادی ہے، اس طرح انھوں نے عوامی ہمدردیاں سمیٹنے کے لیے پاکستان کے خلاف جذبات کو خوب ابھارا۔
نریندر مودی کے اس جارحانہ رویے کے باعث پاکستان اور بھارت میں تعلقات بہتر بنانے کے حامی حلقے کمزور ہونے کے باعث ان کے بظاہر پس منظر میں جانے کا تاثر ابھرا۔ ان تمام تر حالات کے باوجود پاکستان بھارت کو مذاکرات کی دعوت دیتا رہا۔ اب بھارتی حکومتی حلقوں کو یہ ادراک ہونے لگا ہے کہ پاکستان کے خلاف ان کے جارحانہ رویے کا انھیں کوئی فائدہ نہیں پہنچا یہی وجہ ہے کہ وہ پاکستان کے بارے میں اپنی پالیسی تبدیل کرنے اور نرم رویہ اختیار کرنے پر غوروفکر کر رہے ہیں۔
خبروں کے مطابق ایک بھارتی سفارتکار نے کہا کہ بھارتی وزیراعظم کی جانب سے پاکستان کو مفاہمت کی پیش کش کے حوالے سے کوئی ٹائم فریم تو نہیں دیا گیا لیکن مودی حکومت پاکستان کے بارے میں اپنی پالیسیوں میں تبدیلی کے لیے بھارتی پنجاب اور یو پی میں ریاستی انتخابات کا انتظار کر رہی ہے جو مارچ میں ہونے والے ہیں۔ اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا مودی پاکستان کے بارے میں نرم رویے کا اعلان کرنے کے بعد عوامی اشتعال کا رخ موڑنے میں کامیاب ہو جائیں گے‘ اس کے بارے میں بھارتی سفارتکار کا کہنا ہے کہ مودی عوامی رائے کو موثر بنانے کا ہنر جانتے ہیں۔
اس تناظر میں یہ حقیقت سامنے آتی ہے کہ مودی نے اپنے سیاسی مقاصد کے حصول کے لیے عوامی جذبات کو پاکستان کے خلاف ابھارا۔ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ خطے میں کشیدگی کو ایک باقاعدہ منصوبے کے تحت ہوا دی گئی‘ بھارتی سیاستدانوں کو اس قسم کے منفی رویے سے گریز کرنا چاہیے جس سے پورے خطے کا امن داؤ پر لگ جائے۔ گزشتہ روز پاکستان نے بھی سی پیک میں شمولیت کے لیے بھارت کو دعوت دی تھی تاکہ خطے میں موجود کشیدگی کو کم کیا جا سکے۔اس پر چینی ترجمان کا مثبت تبصرہ بھی آچکا ہے۔
اگر بھارتی وزیراعظم پاکستان کے بارے میں اپنی جارحانہ پالیسی ترک کرتے ہوئے مفاہمت کی جانب قدم بڑھاتے ہیں تو اس سے نہ صرف دونوں ممالک کے تعلقات میں خوشگواری در آئے گی بلکہ اس کے پورے خطے پر مثبت اور خوش کن اثرات مرتب ہوں گے۔ بھارتی رویے میں تبدیلی آنے کی صورت میں افغانستان کو بھی پاکستان کے خلاف جارحانہ رویہ ترک کرتے ہوئے بہتر تعلقات پیدا کرنے ہوں گے۔ اس طرح خطے میں امن و استحکام سمیت علاقائی تعاون کو فروغ ملنے سے تمام ممالک کے معاشی حالات میں خاطر خواہ بہتری آئے گی۔

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button